بڑا منحوس کھیل ہے


تاریخ کا عمل ہر دور میں جدا ہوتا ہے اور اس کے نتائج بھی مختلف نکلتے ہیں، ماضی حالات کو سمجھنے کی فکر دیتا ہے اور یہی فکر ہمیں ان کے حل کی طرف لے جاتی ہے۔ سیاسی انتشار، ابتری اور ٹوٹ پھوٹ کا اثر حکمران طبقوں سے نکل کر عام معاشرہ پر پڑتا ہے اور پھر عام آدمی انتشار زدہ کیفیت میں مبتلا کردیتا ہے۔ کسی عہد یا دور کا خاتمہ اچانک نہیں ہوتا بلکہ اس کے پس منظر میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی وجوہات ہوتی ہیں جو اندر ہی اندر بظاہر مستحکم اور مضبوط عمارت کو کھو کھلا کررہی ہوتی ہیں یہاں تک کہ معمولی حادثات اور آفات سے یہ عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے۔

تاریخ میں کسی عہد، دور یا اس دور کی اہم شخصیات کو جانچنے، پرکھنے اور دیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پس منظر اور اس کے پہلے ہونے والے واقعات اور ان کے اثرات کو دیکھا جائے کیونکہ ہر دور اپنے سے پہلے والے دور کی پیداوار ہوتا ہے، جب تک اسے نہیں سمجھا جائے گا اس وقت تک آنے والے زمانے کو نہیں سمجھا جاسکتا۔

مغل حکومت کے زوال اور انگریزوں کی کامیابیاں ان کی چال بازیاں، مکاریاں اور فریب کاریاں بتائی جاتی ہیں چنانچہ اس دور کے حکمران معصوم اور انگریز ظالم ٹھہرتے ہیں مثلاً نواب واجد علی شاہ بذات خود نیک، شریف اور اوصاف عالیہ کے حامل انسان تھے لیکن انگریزوں نے سازش کر کے انہیں بگاڑ دیا اور ان اصلاحات سے روک دیا جو وہ ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کرنا چاہتے تھے۔ لیکن واجد علی شاہ اپنی ذات میں محض ادیب، شاعر، ڈرامہ نویس اور موسیقار ہی نہیں تھے بلکہ وہ حکمران بھی تھے جو اودھ کے زوال پذیر فرسودہ اور کھوکھلے معاشرے اور دم توڑتی اس تہذیب کی علامت تھے جس میں حکمران، امراء اور جاگیردار مل کر کسانوں، کاشتکاروں، دست کاروں اور ہنر مندوں سے قدر زائد وصول کر کے ایک بے روح ثقافت پیدا کر رہے تھے۔

وہی واجدعلی شاہ جس کے زمانے میں لکھنو عیش و عشرت کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا، چھوٹے بڑے، امیر و غریب سب رنگ رلیاں منارہے تھے۔ کہیں نشاط کی محفلیں آراستہ تھیں۔ کوئی افیون کی پینک کے مزے لیتا تھا۔ زندگی کے ہر ایک شعبہ میں رندی و مستی کا زور تھا۔ امور سیاست میں، شعر و سخن میں، طرز معاشرت میں، صنعت و حرفت میں، تجارت و تبادلہ میں سبھی جگہ نفس پرستی کی دہائی تھی۔ اراکین سلطنت مے خوری کے غلام ہو رہے تھے۔ شعراء بوس و کنار میں مست، اہل حرفہ کلابتوں کار چکن بنانے میں، اہل سیف تیتر بازی میں، اہل روزگار سرمہ و مستی، عطرو تیل کی خرید و فروخت کا دلدادہ غرض سارا ملک نفس پروری کی بیڑیوں میں جکڑا تھا۔ سب کی آنکھوں میں ساغر و جام کا نشہ چھایا ہوا تھا۔

دنیا میں کیا ہو رہا ہے، علم و حکمت کی کن کن ایجادوں میں مصروف ہے، بحر و بر پر مغربی اقوام کس طرح حاوی ہوتی جاتی ہیں۔ اس کی کسی کو خبر نہ تھی۔ بٹیر لڑ رہے ہیں، تیتروں میں پالیاں ہو رہی ہیں، کہیں چوسر، پوبارہ کا شور مچا ہے کہیں شطرنج کے معرکے چھڑے ہیں۔ فوجیں زیر و زبر ہو رہی ہیں۔ نواب کا حال اس سے بدتر تھا، وہاں گتوں اور تالوں کی ایجاد ہوتی تھی۔ حظ نفس کے لئے نئے لٹکے، نئے نئے نسخے سوچے جاتے۔ یہاں تک کہ فقراء خیرات کے پیسے پاتے تو روٹیاں خریدنے کے بجائے مدک اور چنڈو کے مزے لیتے۔ رئیس زادے حاضر جوابی اور بذلہ سنجی کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ارباب نشاط سے استفادہ کرتے۔ فکر کو جولاں، عقل کو رسا اور ذہن کو تیز کرنے کے لئے شطرنج کیمیا سمجھا جاتا تھا۔ اب بھی اس قوم کے لوگ کہیں کہیں موجود ہیں۔ جو اس دلیل کو بڑے شد و مد سے پیش کرتے ہیں۔

سجاد مرزا اورمیر روشن ایسے میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ عقل کو تیز کرنے میں صرف کیا کرتے تھے تو کسی ذی فہم کو اعتراض کرنے کا موقع نہ تھا۔ دونوں صبح ناشتہ کر کے بساط پر بیٹھ جاتے، مہرے بچھالیتے اور عقل کو تیز کرنا شروع کردیتے، پھر انہیں خبر نہ ہوتی کہ کب دوپہر ہوا، کب سہ پہر اور کب شام۔ طرح طرح کا تیار کھانا دسترخوان پر پڑا پڑا ضائع ہوجاتا۔ قورمہ، پلاؤ، زردہ سب کا سب باسی ہوجاتا۔ گھر والوں سے لے کر محلے دار تک ان کے حاسد اور حرف گیر رہتے اور کہتے۔ بڑا منحوس کھیل ہے گھر تباہ کر کے چھوڑ تا ہے، خدا نہ کرے کسی کو اس کی چاٹ پڑے، آدمی دین کا رہتا ہے نہ دنیا کا، بس اسے دھوبی کا کتا سمجھو، گھر کا نہ گھاٹ کا۔ بیگمات بھی صدائے احتجاج بلند کرتی رہتیں۔

دھما چوکڑی زیادہ مچی تو دونوں صاحبان شہر سے باہر ایک اجاڑ اور ویران جگہ پر اپنی بازی جمانے لگے۔ عہد مغلیہ کی یادگار ایک پرانی اور ویران مسجد میں بساط بچھتی، پھر انہیں دین و دنیا کی فکر نہ رہتی، کوئی چلہ کش بھی اتنے استغراق کی حالت میں نہ بیٹھتا تھا۔ ادھر ملک میں سیاسی پیچیدگیاں روز بروز پیچیدہ ہوتی جاتی تھیں۔ کمپنی کی فوجیں لکھنو کی طرف بڑھی چلی آتی تھیں، شہر میں ہل چل مچی تھی، لوگ اپنے اپنے بال بچوں کو لے کر دیہاتوں میں بھاگے جا رہے تھے۔

پر یہ دونوں شطرنج بازوں کو کسی سے کوئی واسطہ تھا نہ تعلق۔ ہوتے ہوتے انگریزی فوجیں لکھنو کے قریب پہنچ گئیں۔ کمپنی نے لکھنو پر تصرف کرنے کا فیصلہ کر لیا، وہ قرض کی علت میں سلطنت ہضم کرلینا چاہتی تھی۔ وہی مہاجنی چال چلی، جس سے آج ساری کمزور قومیں پابہ زنجیر ہیں۔ آخر نواب واجد علی شاہ معزول کردیے گئے اور فوج انہیں گرفتار کر کے لئے جاتی تھی۔ نواب گھر سے اس طرح رخصت ہوئے جیسے لڑکی روتی پیٹتی سسرال جاتی ہے، بیگمات روئیں، نواب روئے، مامائیں، مغلانیاں روئیں اور بس سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔

ازل سے کسی بادشاہ کی معزولی اتنی صلح آمیز، اتنی بے ضرر نہ ہوئی ہوگی۔ کم از کم تاریخ میں اس کی نظیر نہیں یہ وہ اہنسا نہ تھی جس پر ملائک خوش ہوتے بلکہ یہ وہ پست ہمتی، وہ نامردی تھی جس پر دیویاں روتی ہیں۔ لکھنو کا فرمانروا قیدی بنا چلا جاتا تھا اور لکھنو عیش کی نیند میں مست تھا۔ یہ سیاسی زوال کی انتہائی حد تھی۔

ہائے حضور جان عالم کے بعد اب کمال کا کوئی قدر دان نہ رہا، لکھنو ویران ہو گیا۔ نواب کو لئے ہوئے فوج سامنے سے نکل گئی، ان کے جاتے ہی دونوں نے نئی بازی بچھادی، شام ہو گئی، مسجد کے کھنڈر میں چمگادڑوں نے اذان دینا شروع کردی، ابابیلیں اپنے اپنے گھونسلوں سے چمٹ کر نماز مغرب ادا کرنے لگیں، پر دونوں کھلاڑی اپنی اپنی بازی پر ڈٹے رہے گویا خون کے پیاسے سورما موت کی بازی کھیل رہے ہوں۔ مرزا متواتر بازیاں ہار چکے تھے، چلتی بازی کا بھی رنگ اچھا نہ تھا، کوئی نہ کوئی چال ایسی خراب پڑ جاتی کہ ساری بازی بگڑ جاتی۔

ادھر میر صاحب غزلیں پڑھتے، ٹھمریاں گاتے، چٹکیاں لیتے، آوازیں کستے، ضلع اور جگت میں کمال دھکاتے، ایسے خوش ہوتے گویاکوئی دفینہ ہاتھ آ گیا ہے۔ مرزا صاحب جھنجھلاتے، بار بار تیوریاں چڑھاتے۔ بالآخر ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات دھرتے دھرتے بات گالم گلوچ، دست درازی اور باقاعدہ لڑائی مارکٹائی تک جا پہنچی۔ خاندانی شجرے کھنگالتے کھنگالتے دونوں دوستوں نے کمر سے تلواریں نکال لیں۔ ان دنوں ادنیٰ و اعلیٰ سبھی کٹار، خنجر، قبض، شیر پنچہ باندھتے تھے۔

دونوں عیش کے بندے تھے مگر بے غیرت نہ تھے، قومی دلیر ی البتہ ان میں عنقا تھی مگر ذاتی دلیری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ان کے سیاسی جذبات فنا تھے، بادشاہ کے لئے، سلطنت کے لئے، قوم کے لئے کیوں مریں۔ دونوں نے پینترے بدلے، یکایک تلواریں چمکیں، چھپاچھپ کی آوازیں آئیں۔ دونوں نے ایک دوسرے پر زخم پر زخم لگاتے لگاتے وہیں تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ اپنے جان عالم کے لئے جن کی آنکھوں سے ایک بوند آنسو کی نہ گری، انہی دونوں آدمیوں نے شطرنج کے وزیر کے لئے اپنی گردنیں کٹادیں۔

اندھیرا چھا گیا، بازی بچھی تھی، چارسو حسرت چھائی تھی۔ گویا مقتولین کی موت کا ماتم کر رہے تھے۔ چاروں طرف سناٹے کا عالم، کھنڈر کی پوشیدہ دیواریں، خستہ حال کنگورے اور سر بسجود مینار ان لاشوں کو دیکھتے تھے اور انسانی زندگی کی بے ثباتی پر افسوس کرتے جس میں سنگ و خشت کا ثبات بھی نہیں۔

ماضی کے آئینے پر جب کبھی دھول جمنے لگتی ہے تو وقت کی بارش اس دھول کو دھوکر آئینے کو صاف کردیتی ہے اور پھر سب صاف صاف دکھائی دینے لگتا ہے۔ ماضی خوش نما ہوتو انسان اسے سنجوکر رکھتا ہے لیکن وہی ماضی اگر درد میں ڈوبا ہوتو اسے بھول جانے کی کوشش کرتا ہے لیکن ہم چاہ کر بھی اپنے ماضی سے پیچھا نہیں چھڑاسکتے۔ ایک نظر ادھر ادھر گھماؤں تو مجھے لگتا ہے جیسے میں بھی عہد مغلیہ نہ سہی کسی عہد شغلیہ میں زندہ ہوں، ایک ایسا خوابیدہ اور مدہوش معاشرہ جو اپنی اپنی مراعات اور چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر غلامی اور ذلت برداشت کرتا چلا جا رہا ہے، جہاں اقتدار چند طبقوں میں محدود ہو چکا اور اکثریت مجبور، محروم، لاچار، بے بس اور بیکس ہو، جیسے اس کی تمام توانائی اور طاقت کو نچوڑ لیا گیا ہو۔ سب کے سب اپنی اپنی چالوں میں مگن، چاہے گھر کا گھر اجڑ جائے۔ اب نچڑا ہوا قلم اور کیا لکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).