انصار عباسی، میڈم بوٹا اور ڈاکٹر عبدالسلام


\"ibne-asi\"ابھی چند روزقبل جھنگ میں ضمنی الیکشن ہوا ہے۔ اس میں کالعدم جماعت سپاہِ صحابہ کے بانی مولانا حق نواز جھنگوی کا بیٹا مولانا مسرور نواز جھنگوی بھاری اکثریت سے جیت کر صوبائی اسمبلی میں جا پہنچا ہے۔ اس پر شور و غوغا ہو رہا ہے کہ ایک کالعدم جماعت کے آدمی کو الیکشن کیوں لڑنے دیا گیا؟ تاہم کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ دہشت گرد کہلوانے والے مسرور نواز کی ڈگری اصلی اور اس کے مقابلے میں سار ی الیکشن مہم چلوانے والے سابق وفاقی وزیر شیخ وقاص اکر م کی ڈگری جعلی تھی۔ خیر جھنگ میں حال ہی میں ہو نے والے ضمنی الیکشن میں ایک خواجہ سرا میڈم بوٹا بھی میدان میں اترا ہوا تھا۔ ہماری سوسائٹی میں تیسری جنس کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے اس کو دیکھیں تو میڈم بوٹا کا خود سیاست میں آنا اور جھنگ جیسے شہر میں لوگوں میں گھوم پھر کر ووٹ مانگنا بڑے حوصلے اور ہمت کی بات تھی۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہوا کہ جو لوگ میڈم بوٹا سے ملنے سے بھی کتراتے تھے وہ اسے ووٹ کیوں دیتے؟اس کے ساتھ کھڑے کیوں ہوتے؟ ہم چند دوستوں نے جب جھنگ سٹی کے ایک برگر پوائنٹ پر میڈم بوٹا کو ٹریس کر کے اس کے ساتھ اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر شیئر کیں تو احباب نے خاصا برا منایا اور عجیب و غریب باتیں کیں ۔ کچھ نے انجوائے بھی کیا اور مزیدار کمنٹس دئیے۔ لیکن اکثریت نے کہا کہ

ابنِ عاصی ! آپ ایک پڑھے لکھے اور سنجیدہ بندے ہیں ۔ یہ آپ نے کیا کیا؟

بتاتے چلیں کہ اس سے پہلے حال ہی میں شائع ہونے والے خاکسار کے ،افسانچوی مجموعے، نا معلوم افراد کی معلوم کہانی، میں شامل ایک  \"madam-boota-jhang\" افسانچے پر بھی ہمیں خاصا ہدفِ تنقید بنایا جا رہا تھا۔ چند لفظوں پر مشتمل یہ افسانچہ پہلے دیکھ لیں ذرا

ایک مکمل سوال کی ادھوری کہانی

 بیٹا نعمت

 بیٹی رحمت

 اور

 ہیجڑا….؟

مذہبی حلقوں کو اس افسانچے میں اٹھائے جانے والے خاکسار کے سوال سے پریشانی ہو رہی ہے تو کیوں؟ مرد اور عورت کے بارے آپ نے ،مثبت اور فیصلہ کن رائے کا اظہار کر دیا ہے تو اس تیسری جنس کے بارے بھی کر دیتے؟ کر دیں؟ اسے ادھورا کیوں رکھا گیا ہے؟ اس کا جواب تو کہیں سے نہیں آتا ہے۔ ہاں ہمیں برا بھلا کہنے والے آگے ضرور آجاتے ہیں ۔ ہمیں سمجھانے والے بہت اکٹھے ہوتے جا رہے ہیں …. کیوں؟ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس میں انصار عباسی پھدک کر کہاں سے آگئے بھئی؟ دیکھئے، انصار عباسی ہر جگہ آجاتے ہیں۔ یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کو آپ نے سوات میں طالبان کی طرف سے ایک لڑکی کوڑے مارنے والی ویڈیو کی مذمت کرتے نہیں بلکہ اس کی حمایت کرتے دیکھا ہو گا۔ ہماری میڈم بوٹا کے ساتھ تصاویر اس مائنڈ سیٹ کے لوگوں کے نزدیک گناہِ کبیرہ کے زمرے میں آتی ہیں۔ آئین اور قانون نے میڈم بوٹا کو الیکشن لڑنے کا حق دیا،اس کا مذاق اڑانے کا نہیں۔ لیکن ہم نے خود دیکھا کہ جھنگ میں میڈم بوٹا کا الیکشن میں کھڑا ہونا ایک کھیل تماشہ، بنا رہا…. کیوں؟ باقی امیدواروں کے ساتھ یہ کیوں نہیں ہوا؟ کبھی انصار عباسی اس پر نہیں لکھیں گے؟ ہاں انہیں \"boota-loota\"مسئلہ ہو گا تو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر قائدِ اعظم یونیورسٹی میں کسی سنٹر کے بنائے جانے پر ….

اتفاق کی بات ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کا تعلق میرے شہر جھنگ سے ہے۔ میرے گھر سے چند قدموں کے فاصلے پر ڈاکٹر عبدالسلام کی جائے پیدائش ہے۔ ڈیڑھ دو مرلہ پر مشتمل اس جائے پیدائش سے ایک غریب ترین لڑکا نکل کر دنیائے فزکس کا سب سے بڑ ا نوبیل پرائز لے لیتا ہے۔ اور ہم لوگ بجائے اس کو داد دینے کے اس کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرتے ہیں اور جھوٹ موٹ باتیں پھیلا کر اس کی ذات کو متنازع بنانے کے لیے جنونی ہوئے جا رہے ہیں۔ اس کی پاکستان اور اپنے علاقے سے محبت کو مشکوک بنانے کے لیے پتہ نہیں کہاں کہاں سے عجیب و غریب باتیں لا کر لکھ رہے ہیں ۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس شخص کو جب نوبیل انعا م ملنے لگا تو اس نے اپنے علاقے جھنگ کا مقامی لباس پہن کر اسے وصول کیا تھا۔ پھر وہ دفن کہاں ہوئے؟ جھنگ، ربوہ میں۔ اگر ڈاکٹر عبدالسلام کو پاکستان سے نفرت ہوتی تو کیا وہ پاکستان میں دفن ہونے کی وصیت کرتے؟ جاننے والے جانتے ہیں کہ کتنے لوگوں کو انہوں نے اپنے ذرائع استعمال کر کے اپنی فیلڈ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے دنیا بھر کے ملکوں میں بھیجا تھا؟ لیکن کیا انصار عباسی یہ مانیں گے؟ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ تقریبا پینتیس چالیس برس سے گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج جھنگ کے اندر عبدالسلام بلاک موجود ہے۔ جی ہاں جھنگ میں۔ جو کہ مولانا حق نواز جھنگوی اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا بھی آبائی شہر ہے۔

حیرت ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں آج برسوں بعد کسی شعبہ یا سنٹر کا نام ڈاکٹر عبدالسلا م پر رکھا جا \"madam-boota\"رہا ہے اور اس پر بھی شور پڑ گیا ہے؟ کمال نہیں ہو گیا یہ؟ سنا تھا کہ اسلام آباد ،بڑے دل والا شہر اور پڑھے لکھے لوگوں کا شہر ہے اس سے اچھا تو جھنگ ہوا کہ اتنی مارا ماری ہوئی ،فسادات ہوئے۔ لیکن جھنگ سٹی کے محلہ چین پورہ میں ڈاکٹر عبدالسلام کی آبائی رہائش گاہ کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ارد گرد کئی گھر جلا دئیے گئے۔ بہت کچھ ہوا لیکن مجال ہے کہ کبھی کسی نے اس گھر کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر دیکھا ہو ۔ محکمہ آرکیالوجی کی جانب سے اس گھر کو محفوظ اور قومی یادگار قرار دے کر ایک تختی لگا کر ایک ملازم کی مستقل ڈیوٹی وہاں لگائی گئی ہے۔ لیکن کبھی اس گھر کو نقصان پہنچانے کی بات نہیں کی گئی۔ اسی طرح گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج جھنگ کے ڈاکٹر عبدالسلام بلاک پر لگی تختی تک کسی نے نہیں اکھاڑی۔ حالانکہ اس کالج میں نوے کی دہائی میں ہر دوسرے تیسرے دن گولیاں چلتی تھیں۔ توڑ پھوڑ عروج پر تھی۔ لیکن کبھی ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر بلاک کی موجودگی سے کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ ہاں اب سنا ہے کہ اسلام آباد کے کسی انصار عباسی کو کوئی پرابلم ہوگئی ہے۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ جب ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبیل پرائز ملا تھا تو پاکستان میں کچھ لوگوں نے اس پر کوئی احتجاج وغیرہ کیا تھا ۔ پتہ نہیں اس وقت انصار عباسی صاحب کہاں ہوتے ہوں گے؟بہر حال اب ان کے پاس سنہری موقع ہے۔ وہ ناروے کی نوبیل پرائز دینے والی کمیٹی کو خط لکھیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام سے نوبیل پرائز فی الفور واپس لیا جائے اور اگر کمیٹی نہ مانے تو انصار عباسی صاحب ایک تو گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج جھنگ کے سامنے آکر اس وقت تک دھرنا دیں جب تک ڈاکٹر عبدالسلام بلاک کا نام تبدیل ہو کر غازی عبدالرشید بلاک نہیں ہو جاتا اور دوسرا وہ محلہ چین پورہ جھنگ سٹی میں ڈاکٹر عبدلسلام کی آبائی رہائش گاہ کو مسمار کرنے کی تحریک چلائیں ۔ تاکہ کفراور الحاد کی ہر نشانی صفحہ ہستی سے بالکل مٹ جائے ۔ قدم بڑھاﺅ انصار عباسی….

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments