گلگت بلتستان انتخابات: اب رونا دھونا بے سود ہے


گلگت بلتستان کے انتخابات کے نتائج حسب توقع ہیں۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ انتخابات ایک لحاظ سے وسط مدتی انتخابات کی حیثیت رکھتے تھے۔ اسی لیے اس مرتبہ جیت کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ کوئی شبہ نہیں کہ پی ٹی آئی کا گلگت بلتستان میں ایک بڑا حلقہ اثر اور ووٹ بنک بن چکا ہے تاہم اگر انتخابات مقررہ وقت پر طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوتے تو نتائج کافی مختلف ہوتے۔ انتخابی التوا، اس دوران جیتنے والے گھوڑوں کے اصطبل و کھونٹے بدلنے اور خاص طور پر گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کر کے صوبائی حیثیت دینے کے مطالبے کو شرف قبولیت دینے کے عسکری اعلان نے نتائج کو تلپٹ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات میں پری پول رگنگ کے حوالے سے کئی دلائل و براہین اور شواہد پیش ہو سکتے ہیں مگر مجموعی طور پر یہ ایک منظم انتخابات تھے جنہیں گلگت بلتستان الیکشن کمیشن نے غیر متنازعہ بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے۔ فوج کو انتخابی عمل سے دور رکھنا ان میں سب سے اہم فیصلہ تھا۔ ’گو سلو‘ کے الزامات اپنی جگہ مگر مجموعی طور پر انتخابات پر امن رہے اورسرد موسم کے باوجود ٹرن آؤٹ ماضی کی نسبت کافی بہتر رہا۔ یہ ایک اچھا شگون ہے۔

نون لیگ کی دو نشستں حسب توقع ہیں البتہ حافظ حفیظ الرحمان کی ہار غیر متوقع ہے۔ نون لیگ کو مان لینا چاہیے کہ گلگت میں بوجوہ ان کی ہار ہوئی ہے۔ اس میں وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت، گلگت میں ماضی کی کارکردگی کے بجائے مستقبل کے امکانات کو ووٹ دینے کا چلن اور فوج سے جذباتی وابستگی سمیت کئی اور وجوہات شامل ہیں۔ نتائج تسلیم کرنا ہی ان کے لیے بہتر ہے کیونکہ کارروائیاں اتنی باریک ہیں کہ ثبوت ہاتھ نہیں لگیں گے۔

پیپلز پارٹی اور آزاد امیدواروں کے نتائج توقع کے خلاف ادل بدل ہو گئے۔ جتنی نشستیں پیپلز پارٹی کو ملنے کی توقع تھی اتنی تعداد میں آزاد امیدوار جیت گئے اور جتنے آزاد امیدوار جیتنے کی توقع تھی وہ نشستیں پیپلز پارٹی کے ہاتھ آئیں۔

مہدی شاہ، حافظ حفیظ الرحمان، فدا محمد ناشاد اور ابراہیم ثنائی کی شکست سے ثابت ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان میں شخصیت پرستی کا چلن کم ہوتا جا رہا ہے تاہم نواز ناجی کی جیت بتا رہی ہے کہ سبھی ووٹرز کا جھکاو دائیں جانب نہیں، بائیں جانب قبلہ رکھنے والے اپنا وجود بھی رکھتے ہیں اور ثابت کرنے کی صلاحیت بھی۔

مجموعی طور پر یہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، جمعیت علمائے اسلام وغیرہ کی شکست ہے البتہ اسے پی ڈی ایم کے بیانیہ کی شکست سے جوڑنا مناسب نہیں۔ انتخابات ان جماعتوں نے اپنی اپنی حیثیت میں لڑے اور کئی حلقوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ بھی کیا، شکست بھی دی اور فتح بھی حاصل کی۔ بعض حلقوں میں ان کی مسابقت کا فائدہ تحریک انصاف اور آزاد امیدواروں کو ہوا۔

جہاں جہاں سیاسی جماعتوں کے تحفظات ہیں، دوبارہ گنتی ہو جانی چاہیے مگر بہتر یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج کو چارو ناچار تسلیم کر ہی لیں کیونکہ بغیر شواہد الزامات کا کوئی فائدہ نہیں اور شواہد ہاتھ لگنے کے امکانات بھی کم ہی ہیں۔ چھوٹے شہروں، دور دراز دیہاتوں اور پہاڑی علاقوں میں لوگ الیکشن کے دوران دھاندلی نہیں ہونے دیتے اور پری پول دھاندلی کو روکنے کا کوئی میکنزم موجود نہیں۔ اب جو ہو چکا سو ہو چکا۔

گلگت بلتستان کے انتخابات کے بنیاد پر یہ نہیں طے ہو سکتا کہ مستقبل میں پاکستان کی عام انتخابات کے نتائج کیا ہوں گے۔ اگر ایسا ہوتا تو 2010 کے گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج کی بنیاد پر 2013 کے عام انتخابات پیپلز پارٹی نہ ہارتی اور 2015 کے گلگت کے انتخابی نتائج کی بنیاد پر پاکستان میں 2018 کے عام انتخابات مسلم لیگ نون با آسانی جیت جاتی۔ ہر جگہ اور علاقے کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے اور گلگت بلتستان نے اپنے مزاج کے مطابق فیصلہ کر لیا ہے۔ اس فیصلے کا احترام کرتے ہوئے سب کو اسے تسلیم کر کے حکومت سازی کے لیے کام شروع کرنا چاہیے، وگرنہ دھاندلی کا رونا تو پاکستان میں اڑھائی سال سے جاری ہے اس سے پہلے یہی رونا عمران خان پانچ سال روتے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).