وحید مراد اور پرویز ملک: پاکستان فلم انڈسٹری کے عظیم تخلیق کار


یہ نومبر ہی کا مہینہ تھا جب 1964 میں ایک ایسی فلم ریلیز ہوئی جس میں شامل دو چہروں نے اپنے اپنے میدان میں پاکستان فلم انڈسٹری کے لئے عظیم خدمات انجام دیں۔ ان کی رفاقت میں بننے والی مشترکہ کوششوں کو عوامی سطح پر بے حد سراہا گیا اور فلمی ناقدین میں بھی ان کی اتنی ہی پذیرائی کی گئی۔

ہر چند کہ یہ ملاپ، بد قسمتی سے، تسلسل کے ساتھ زیادہ عرصے قائم نہ رہ سکا اور وہ شاہکار جو ان کے اشتراک سے سکرین کی زینت بن سکتے تھے، فلم بین ان سے محروم رہے۔ مگر اسے اتفاق کہیے کہ ان دو دوستوں کا فلم بینوں سے بچھڑنے کا مہینہ بھی نومبر ہی ٹھہرا۔

جی ہاں، 1964 میں ریلیز ہونے والی فلم ہیرا اور پتھر کے ہدایت کار پرویز ملک 18 اور فلم ساز ( اور ہیرو) وحید مراد 23 نومبر کو اس فانی دنیا کو خیرباد کہہ کر اپنے پرستاروں کو ہمیشہ کے لئے اداس کر گئے۔

وحید مراد کی ذاتی فلم ہیرا اور پتھر سے پرویز ملک کے فلمی کیریر کا آغاز ہو ا۔ یہ فلم سپر ہٹ ہوئی مگر وہ اس فلم کی تیاری میں قدرے بعد میں شامل ہوئے، شاید اس لئے وہ اسے اپنا مکمل تعارف نہیں سمجھتے تھے۔ ارمان کی بے مثال تاریخی کامیابی ان کا حقیقی تعارف بنی اور اس فلم سے ان کی صلاحیت کا چرچا زبان زد عام ہو گیا۔ علاوہ، اور دوسری خوبیوں کے، اس فلم کے ( ایک سے بڑھ کر ایک ) گانے اور ان کی ( ایک سے بڑھ کر ایک ) فلم بندی نے اس قابل دید فلم کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنا دیا کہ آج تک، اتنے برس، گزرنے کے باوجود، ان نغموں کی کشش میں کمی واقع نہیں ہوئی۔

پرویز ملک کا شمار بجا طور پر ان تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جو فلم برائے فلم بنا نے کے قائل نہ تھے بلکہ وہ عرق ریزی کے ساتھ موضوع ڈھونڈ کر، اس کے تمام تر سماجی پہلووں کا جائزہ لے کر، ایک بہتر تخلیق کی کوشش میں خود کو منہمک کر لیتے تھے۔ غالباً ان کی اسی شعوری طرز عمل اور اس طرز عمل سے جنم لینے والی تخلیقی خصوصیات کا نتیجہ ہے کہ کامیابی، آنے والے دنوں میں پرویز ملک کی شناخت بن گئی، ایسے جیسے کامیابی اور پرویز ملک لازم و ملزوم ہوں۔

پاکستان فلم انڈسٹری میں کامیابی کی ایسی مثال کم ہی ہوگی جو پرویز ملک نے اپنی شاندار پرفارمینس سے اپنے حصے میں ڈال لی۔ ہدایت کار اور فلم ساز کی حیثیت سے، ان کی کامیابی کی شاید بہت ساری وجوہات ہوں مگر ان میں ایک اہم وجہ ان کا خود سکرین پلے رائٹر ہونا تھا، جس کا سلسلہ فلم ارمان سے شروع ہوا تھا ( جس کی کہانی خود وحید مراد کی تحریر کردہ تھی جبکہ سکرین پلے پرویز ملک کا ترتیب دیا ہوا تھا۔ ) یوں آنے والے دنوں میں، اپنی بیشتر فلموں کا سکرین پلے ان کے اپنے زور قلم کا نتیجہ تھا یا وہ اس میں شریک تھے۔

پرویز ملک کی کامیابی کا تناسب کسی بھی دوسرے پاکستانی ہدایت کار سے زیادہ اور قابل رشک قرار دیا جا سکتا ہے۔ اور ایسا ہونے میں، ایسا لگتا ہے، ان کی عوامی پسندیدگی کو جانچ لینے کی کمال کی اہلیت، اپنا پورا رنگ دکھاتی تھی۔ کراچی فلم انڈسٹری کو پاکستان کی پہلی پلاٹینیم جوبلی سے سرفراز کرنے کے بعد، لاہور فلم انڈسٹری کو انھوں نے متعدد سپر ہٹ فلموں سے مالا مال کر دیا ( ان میں انمول، پہچان، تلاش، انتخاب، مہربانی، ہم دونوں اور قربانی نمایاں ہیں ) ۔

پرویز ملک کی کامیابی کی داستان میں نامور اداکا ندیم اور شبنم سمیت، اور کئی اداکاروں کی کامیابیاں بھی پوشیدہ ہیں جن کے کیریر میں پرویز ملک کی شمولیت نے چار چاند لگا دیے۔ یہ طویل فہرست، پرویز ملک کی فنکارانہ عظمت کو بھی نمایاں کرتی ہے کہ ہدایت کار کی کردار نگاری کی اہمیت سے آگاہی، بالواسطہ اور بلاواسطہ، کردار ادا کرنے والوں کے لئے کس قدر نتیجہ خیز ہوتی ہے۔

پرویز ملک، سماجی موضوعات کو کس قدر ترجیح دیتے تھے، اس کا اندازہ، ان کی مختلف فلموں کے مرکزی خیال اور کرداروں سے تو ہوتا ہی ہے، اس بات سے بھی بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ایسے ماحول میں جہاں حکومتی اہلکاروں اور فیصلہ سازوں کے لئے عموماً ”فلم ایک بہت پسندیدہ شعبہ نہیں، اس کے باوجود پرویز ملک کی کئی فلموں کو ٹیکس کی چھوٹ دی گئی۔

پرویز ملک جنہیں پاکستان کے پہلے غیر ملکی تعلیم یافتہ کامیاب ترین ہدایتکار ہونے کا اعزاز حاصل تھا، آخری دنوں میں فلم سازی سے کنارہ کشی اختیار کر کے ٹیلیویژن پروڈکشن کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ یک انٹرویو میں انھوں نے اس کی ایک وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ایک فلم ساز نے مجھ سے کہا کہ میری فلم بنا دیں، مگر اس میں کہانی نہ ڈالیں کیوں کہ اس سے فلم کا ٹیمپو ٹوٹ جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).