عطر بیز کے نام


تسلیمات!

آپ کو مخاطب کرنا ہمشہ سے ہی مسئلہ رہا ہے۔ آپ کو بلانا آپ کو کوئی نام دینا عجیب لگتا ہے۔ کیا نام دوں؟ اس بے بسی کا رونا بھی تو نہیں رویا جاتا۔ لیکن خیر میں آپ کو عطر بیز حسینہ کہہ چکا ہوں۔ اکتاہٹ اور بے چینی کے دنوں میں انسان کو کچھ بھی میسر آ جائے تو اسے غنیمت سمجھتا ہے۔ لیکن وہ تو قدرت کا جیتا جاگتا شاہکار تھی جسے قدرت نے زندگی کو منہ مانگے دام دے کر تخلیق کروایا تھا۔ عجیب بات ہے نا۔ قدرت کو منہ مانگے دام دینے کی؟

لیکن یار ایسا ہی ہے۔ میری جگہ آ کر سوچنا شروع کرو گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ واقعی اس کے جسم نے صدیوں جشن منایا ہو گا کہ یہ پاوتر روح میرے ڈھانچے میں آ رہی ہے۔ اس کے جسم نے روح کے اندر آنے پر صدقے اتارے ہوں گے۔ اس کے جسم کا بس نا چلا ہو گا کہ خود کو وار کر اس کے قدموں میں پھینک دے اور پھر اس کی تخلیق پر فرشتوں کا کیا حال ہوا ہوگا۔ کیا انھوں نے خواہش نہ کی ہو گی کہ کاش ہمیں بھی انسان بنایا ہوتا۔ دائیں بائیں کاندھوں پر بیٹھنے والوں کی کتنی لڑائیاں ہوئی ہوں گی۔

اور برائیاں لکھنے والے نے تو نیت کر لی ہو گی کہ اس کی برائیوں کو نیکیاں بنا کر دائیں والے کے ہاتھ میں تھما دینا ہے۔ یار سوچو نہ کیا شاہکار ہو گی قدرت کا۔ میرے ان دنوں کے حصے میں ایسا شاہکار آیا کہ میں جو گم چکا تھا وقت کی کمی میں اس کے ملنے کے بعد وقت ہی وقت تھا۔ لیکن صرف اس کے لئے۔ یہ جان چکی ہو نا میں کس سے مخاطب ہوں یا میں جو ’اس‘ یا ”ا س ’کے الفاظ سے مخاطب کر رہا ہوں۔ وہ آپ ہی ہو عطر بیز حسینہ۔

مجھے وہ روح اور جسم کا حسین مرکب لگی تھی۔ یعنی حسین امتزاج۔ میں اسے اپنے لئے رحمت تصور کیا تھا بلکہ مان بھی لیا تھا۔ ہاں یہ رحمت ہی ہے۔ مجھے لگا صدیوں کی ریاضت کا صدیوں کی کشت کا صدیوں کی مسافت کا حاصل مل گیا ہے۔ لیکن میں اس سب میں خود کو بھول گیا۔ خود میں جس کا بال بال غلطیوں اور گناہوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ جس نے خود کو کبھی اہمیت ہی نہیں دی تھی اپنی ذات کو تو بالکل بھی نہیں۔ بس جسم کی باتوں میں مصروف رہتا تھا۔

جسم دن کا پتا بتاتا تو میں دن کے پتے پر چل پڑتا جسم رات کی کہانی بتاتا تو میں الف لیلوی کہانیوں میں گم ہو جاتا۔ لیکن اس سب میں میں کسی کے لئے مرا نہیں۔ کسی کی منت بھی نہیں کی (میں تعریف کو منت کہتا ہوں ) کسی کے ترلے بھی ڈالے تو کسی کی منتوں پر کہ میری منتیں کرو مجھے مناؤ کہ تم مجھے مناتے ہو تو اپنے آپ کو میں عظیم لگنے لگتا ہوں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ آخرکار یہ ساری بات مجھے ہی تکلیف دے گی۔ مجھے ہی جہنم کی آگ میں جلانے کے بغیر راکھ کر دے گی روح کی ہر اک تار کو ایسے کھینچے گی جسے صدیوں تک اکٹھا کرتا رہوں تو اکٹھا نہ کر پاؤں۔

اور وہی ہوا جب اسے معلوم ہوا کہ یہ ظالم ہے، دنیا دار ہے، تباہی کا علمبردار ہے۔ یہی فرعون ہے، یہی نمرود ہے، یہی شداد ہے، یہ بھی ہامان ہے یہ بھی ایک مرد ہے اس نے جھوٹ بولا تھا کہ یہ روح ہے جسم نہیں ہے۔ لگتا ہے قدرت نے آپ کی ناراضگی کے لئے کچھ تو میرے ماضی میں رکھا ہوگا۔ جسے دیکھ کر بغیر کچھ سوچے سمجے مجھے بدکردار سمجھ رہی ہو گی۔ لیکن میں خود بھی حیرت میں مبتلا ہوں کہ مجھے آپ میں محبت ہی نظر آئی۔ آپ کو کسی اور صورت دیکھ ہی نا سکا۔

آپ کو جسم تو مانا ہی نہیں۔ آپ کو سات کی بجائے سات سو پردوں میں رکھا تھا۔ خود سے بھی بہت دور۔ اور آپ نے مجھے دنیا کے پیمانے پر ناپ کر مجھے کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ نہیں یار میں آپ کے لئے ایسا نہیں ہوں۔ نا تھا۔ اگر ایسی خواہش کی بھی ہو تو یہ اس لئے نہیں کہ میں ہوس کا پہلو ڈھونڈ رہا ہوں بلکہ یہ اس لئے کہ میں اپنی تکمیل چاہتا ہوں۔ لیکن خواہش کا کیا ہے؟ کبھی بھی کوئی بھی صورت اختیار کر کے بے بسی کی قید میں ڈال دے۔ مثال کے طور پر یہ خواہش کہ اس وقت آپ کے ہاتھوں میں خط کی بجائے میرا ہاتھ ہوتا۔ خیر!

فقط
احسن رومیز

احسن رومیز
Latest posts by احسن رومیز (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).