وسیع تر قومی مکالمہ لازم ہے مگر…


انسان کو روز اول سے کسی نظام حکومت کی ضرورت رہی ہے۔ قدیم دور کے انسان بھی اپنی مذہبی، معاشی اور سماجی ضروریات کے تحفظ کے لئے کسی اتھارٹی کے قیام کی خواہش رکھتے تھے۔ اسی لیے چند خاندان مل کر قبیلہ بناتے اور پھر کوئی طاقتور شخص اس کی سرداری پر قابض ہو جاتا۔ زمانے نے کچھ ارتقائی مراحل طے کیے تو مختلف قبائل کے اشتراک سے ریاستیں وجود میں آئیں، اور ان کا نظام و انصرام سنبھالنے والے بادشاہ کہلانے لگے۔ خرابی یہ تھی کہ بادشاہت وراثت یا پھر طاقت کی بنیاد پر ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہوتی رہی اور اس میں عوام کی منشا کا کبھی کوئی دخل نہیں رہا۔

اسی باعث بادشاہت کے دور کو تاریخ انسانی کا بد ترین دور کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں ایک طرف عوام بادشاہت کے استحصال کا شکار رہے تو دوسری جانب انہی بادشاہوں کو اقتدار دلوانے کے لئے ہونے والی جنگوں میں بھی عوام کا ہی قتل عام ہوتا رہا۔ بالآخر صدیوں کے تلخ تجربات کے بعد انسان ایک نظام حکومت ڈھونڈنے میں کامیاب ہوا جسے جمہوریت کا نام دیا گیا۔ جمہوری نظام کی بنیاد عوامی بالادستی پر استوار ہے۔ یعنی اس نظام میں عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جسے چاہیں خود پر حکمرانی کا حق سونپ سکتے ہیں اور اس نظام میں انتخابات کی صورت میں عوام کے پاس اپنے حکمران کے مواخذے کا اختیار بھی حاصل ہے جو اس سے قبل کبھی حاصل نہ تھا۔

اس نظام میں عوام کو اپنی ریاست سے بنیادی حقوق کی ضمانت میسر ہے، جس کے باعث انہیں اپنا مستقبل محفوظ نظر آتا ہے لہذا وہ مطمئن رہتے ہوئے یکسوئی کے ساتھ قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ آج دنیا میں جو قومیں جمہوری نظام کو مکمل طور پر اپنا چکی ہیں وہ ترقی کی معراج پر ہیں اور جو ممالک اب تک اس نظام کی بابت گو مگو کا شکار ہیں یا جہاں بظاہر جمہوری نظام نافذ ہے لیکن قوت فیصلہ عوام کے بجائے کسی اور کے پاس ہے وہاں ابتری اور انارکی واضح ہے۔

کہنے کو ہمارے ہاں جمہوری نظام رائج ہے اور ملکی آئین کے مطابق طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں، یعنی انہیں حق حاصل ہے کہ جسے چاہیں اپنے لیے حکمران منتخب کریں۔ پچھلی ستر سالہ تاریخ میں لیکن نصف وقت ایسا گزرا جس میں عوام کو نہ صرف آئین کے مطابق عطا ہوئے اس بنیادی حق سے محروم رہنا پڑا بلکہ اپنے حق کی خاطر آواز بلند کرنے کی اجازت بھی نہ ملی۔ بقیہ نصف دور میں بھی غیر معمولی تعداد میں الیکشنز ہوئے۔ ان کے نتیجے میں بننے والی حکومتیں بھی اپنی مکمل مدت گزارنے کے بجائے قبل از وقت ٹوٹتی رہیں اور نظام کے اسی دائمی عدم تسلسل کی وجہ سے ہمارے ہاں پسماندگی، جہالت اور شعور کی کمی جیسی بیماریاں پنپتی رہیں۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نظام کے عدم تسلسل کی اصل وجہ ملکی اداروں کا اپنی آئینی حدود سے تجاوز ہے۔ اداروں کا ٹکراؤ اور ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت روکنے کے لیے ہمارے آئین میں ان کے اختیارات واضح ہیں اس کے باوجود اداروں کی طرف سے اپنے اختیار سے تجاوز اور دوسرے کی حدود میں مداخلت کا سلسلہ جاری رہا۔ جمہوری نظام سے انحراف کی وجہ سے ہی وطن عزیز آج ابتری و انارکی کا شکار ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام طبقات کا نظام سے اعتبار اٹھ چکا ہے اور ہر کوئی اپنے مسائل و مطالبات سڑکوں پر حل کرنے کی کوشش میں ہے۔

کچھ دن قبل تک الزام دیا جا رہا تھا کہ اپوزیشن اپنی احتجاجی تحریک سے ملک کو بند گلی کی طرف لے جا رہی ہے تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ اب ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں ”وسیع تر قومی مکالمے“ کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے مذاکرات پر آمادہ ہو چکی ہیں۔ حالیہ دنوں میں مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت اور فوج کے درمیان مذاکرات ہو سکتے ہیں لیکن یہ مذاکرات پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہوں گے اور اس کے لیے پہلے موجودہ حکومت کو گھر جانا ہوگا۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنے ایک حالیہ بیان میں مریم نواز کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ اس کے اگلے ہی دن پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ایک پریس کانفرنس میں کہا اس بات کا فیصلہ پی ڈی ایم کرے گی کہ مذاکرات ہونے چاہئیں یا نہیں حالانکہ وہ اس سے قبل اپنی جماعت کے سینئر رہنما میاں رضا ربانی کی گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز کی مخالفت کر چکے ہیں۔ میاں رضا ربانی نے تجویز دی تھی کہ پارلیمنٹ، فوج اور عدلیہ کے مابین عظیم تر مکالمہ ہونا چاہیے لیکن بلاول بھٹو نے اس وقت ان کی ذاتی رائے کہہ کر اس امکان کو مسترد کر دیا تھا اور جواز یہ پیش کیا تھا کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو ہمیشہ کے لیے تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔

اپوزیشن کی پیشکش کے بعد بال اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے کورٹ میں ہے اور مریم نواز نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی بتایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ان کی جماعت کے چند لوگوں سے رابطے ہوئے ہیں اور یہ اطلاعات بھی گردش میں ہیں کہ حالیہ دنوں میں اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والی ایک اعلی شخصیت نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس طرح کے کسی ڈائیلاگ پر آمادگی کا اشارہ بھی دیا ہے۔ افسوس سے مگر کہنا پڑتا ہے کہ تحریک انصاف حکمراں جماعت ہونے کے ناتے جس پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ اس تجویز کی مخالفت کر رہی ہے۔

ماضی کی طرح وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزراء ایک مرتبہ پھر اپوزیشن کی اس تجویز کو این آر او کے حصول کی خواہش قرار دے رہے ہیں اور کشیدگی میں کمی لانے کی کوشش کے بجائے ان کی دھمکیاں بدستور جاری ہیں۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے وطن عزیز اس وقت سنگین مسائل سے دوچار ہے جن میں سب سے بڑا چیلنچ معیشت کا ہے۔ آج ملکی قرض جی ڈی پی کا اٹھانوے فیصد ہو چکا ہے اور آئی ایم ایف جیسے سود خور مالیاتی ادارے بھی ہمیں مزید قرض دینے سے انکاری ہیں۔

ہمارے پاس اتنی استطاعت بھی نہیں کہ قرض کا سود ہی ادا کر سکیں ماضی میں ہم ایسے مواقع پر دوست ممالک کی مدد لے لیا کرتے تھے مگر آج دوست ممالک بھی مزید مدد سے انکاری ہیں اور معمولی تعاون کے بدلے وہ ہم سے خارجہ پالیسی گروی رکھنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی داخلی و خارجی سطح پر بہت سے چیلنج ہمیں درپیش ہیں جن سے ہم اس وقت ہی نمٹ سکتے ہیں جب ہماری داخلی، خارجی اور معاشی پالیسیوں میں استحکام ہوگا۔

یہ استحکام اس وقت تک ممکن نہیں آ سکتا جب تک تمام ادارے آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دینے پر راضی نہیں ہو جاتے اور اس کے لیے اب وسیع تر قومی مکالمہ لازم ہے۔ یہ مکالمہ لیکن اس وقت مفید ثابت ہوگا جب اس کی بنیاد کسی اسٹیک ہولڈر کے انفرادی مفاد کے بجائے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد پر مبنی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).