کیا بلاول بھٹو وزیراعظم بن سکیں گے؟


\"irshad

بلاول بھٹو زرداری پیپلزپارٹی میں نئی روح پھونکنے کی خاطر شب و روز ایک کیے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے لاہور میں پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس جوش و خروش اورغیر روایتی انداز سے منایا۔ ملک بھر سے کارکن اور لیڈر ایک چھت تلے جمع ہوئے۔ صوبائی کنونشن بھی ہوئے اور پارٹی کے بڑوں کے درمیان مشاورتی اجلاس بھی برپا ہوئے کہ کس طرح پارٹی کو ازسر نو منظم کیا جائے۔ ناراض اور بکھرے ہوئے ووٹ بینک کو پارٹی کی جانب مائل کیا جائے اوربے نظیر بھٹو کے جانشین کو ایوان قتدار تک پہنچایا جائے۔

ایک عرصے بعد پی پی پی کی تنظیم سازی پر سنجیدہ توجہ دی جارہی ہے۔ نہ صرف سندھ کا وزیراعلی تبدیل کیا گیا بلکہ باقی صوبوں میں بھی نسبتاْ نوجوان قیادت سامنے لائی گئی۔ بلاول بھٹو خود بھی الیکشن کی سیاست میں اترنے کو ہیں۔ لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کی نشست پروہ ضمنی الیکشن لڑنےکے لیے پرتول رہے ہیں۔ پارٹی انہیں اگلا وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو دوسرے ہمصر سیاستدانوں پرایک قدرتی برتری یہ حاصل ہے کہ وہ ابھی نوجوان ہیں۔ ان کے مخالفین جناب نوازشریف اورعمران ستر کے پیٹے میں پہنچ چکے ہیں۔ عمر عزیز کی بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ باقی جماعتوں کے لیڈروں کا حال بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ چنانچہ بلاول بھٹو اگر محنت کریں اور پارٹی کو ازسرنو متحرک کرنے اور جیالوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو وہ پاکستان کے وزیراعظم بن سکتے ہیں۔

البتہ انہیں پاکستان کے مسائل کو ایک عام شہری کی آنکھ سے دیکھنا ہوگا تاکہ ایسی قابل عمل سیاسی حکمت عملی بنا سکیں جسے دیکھ اور سن کر عوام کا دل دھڑک سکے۔ پاکستانیوں کی اکثریت کا پختہ خیال ہے کہ اس ملک کو اشرافیہ نے لوٹا اور انہیں اقوام عالم میں بے توقیر کیا۔ خاص کر اسی کی دہائی سے اس ملک کو کوئی ایک بھی ایسا لیڈر نہیں ملا جس نے پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کیے ہوں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان دنیا کا ایک بڑا ملک ہے اور اس کے پاس ایٹمی طاقت بھی ہیں لیکن عالم یہ ہے کہ اس کے پانچ کروڑ سے زائد لوگوں کو کھانے کوروٹی، پینے کو صاف پانی اور سرچھپانے کو سائبان دستیاب نہیں۔ اس کے برعکس اس کے حکمران لاکھوں روپے کے سوٹ زیب تن کرتے ہیں اور سواری کے لیے کروڑوں روپے کی گاڑیاں درآمد کرتے ہیں۔

چنانچہ سیاست اورسیاستدانوں کا نام بدعنوانی اور نااہلی کے مترادف کے طور پر پڑھا اورلکھا جاتا ہے۔ اب اگر لوگوں کو پی پی پی اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہے تو اسے دو لیول پر کام کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے ملک کے لیے ایک قابل قبول معاشی ایجنڈا مرتب کرنا ہوگا۔ عوام سے وعدہ کرنا ہوگا کہ داخلی اور خارجی پالیسیوں کو اس طرح وضع کرے گی کہ پاکستان کے عوام کی مشکلات کم ہوں گی اور خوشحالی کے دروازے کھلیں گے۔ آج ملک کی جو حالت ہے اس کے پس منظر میں ذوالفقار علی بھٹو کی صنعتوں اور نجی اداروں کو قومیانہ کی تباہ کن پالیسی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔

\"bilawal

پیپلزپارٹی کو پارٹی کے اندر بھی بڑےپیمانے پر اصلاح احوال کرنا ہوگی بلکہ بدعنوان اورنااہل خواتین وحضرات کو جھاڑو پھیرکر پارٹی سے نکالنا ہوگا۔ ایسے لوگوں کو منظر پر لانا ہوگا جن کا دامن اجلا ہے اور لوگوں میں معتبر ہیں۔ حالت یہ ہے کہ پارٹی میں صاف ستھرے کردار کے لوگوں کے لیے جگہ ہی نہیں۔ اگر وہ جماعت میں آبھی جائیں تو انہیں رفتہ رفتہ دیوار کے ساتھ لگادیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں پارٹی کے اندر بھی پیسہ بولتاہے۔ تنظیمی عہدے تک بکتے ہیں۔ اعلی عہدے دار بھی بھاؤ تاؤ کرتے ہیں۔ کارکن جوپارٹی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں وہ لیڈروں کے ہاتھوں رسوا ہوتے رہے ہیں۔ جاگیرداروں نے بھٹو صاحب کے زمانے سے ہی پارٹی پر قبضہ کرلیا تھا۔ اب سرمایہ دار اور نودولتیوں نے بھی خوب ہاتھ صاف کیا ہے۔

بھٹو صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے زمانے میں پارٹی میں اہل علم اور دانش کی قدر کی جاتی تھی لیکن زرداری صاحب نے اپنے اردگرد کاروباری اور درباریوں کا ایک ٹولا جمع کیا۔ انسان اپنے رجحانات اور افتاد طبع کے مطابق ہی فیصلے کرتا ہے۔ بھٹو اور ان کی صاحبزادی بے نظیر قلم اور کتاب سے گہرا شغف رکھتی تھیں۔ آج کی پی پی پی کے لیڈر زیادہ تر ٹھیکیداروں اور پراپرٹی مافیا کے ہتھے چڑھی ہوئی ہے۔

اس ملک کو ایک ایسے لیڈر کی اشد ضرورت ہے جواس کی کھوئی ہوئی عظمت بحال کرسکے۔ اسےایک ایسی قوم بنانے کا بھیٹرااٹھائے جو چٹان کی طرح مضبوط ہو اور طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتی ہو۔ اس ملک کا کوئی گلی کوچہ ایسے نہیں جہاں بلاول بھٹو کے نانا اور والدہ محترمہ کے شیدائی نہ پائے جاتے ہوں۔ پی پی کے حمایتی کم نہیں لیکن ان میں سے اکثر مایوس ہیں اور سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوچکے ہیں۔ مخلص کارکنوں کا ایک جم غفیر اس پارٹی کے پاس رہا ہے۔ اب بلاول کو اس بکھرے ہوئے قافلے کا تنکا تنکا کرکے مجتمع کرنا ہوگا۔

بلاول بھٹو ایک نوجوان اور ذہین سیاستدان ہیں۔ جو دشت سیاست کے اسرار ورموزسے بتدریج آشنا ہورہے ہیں۔ سیاست کے لیے ان کے پاس بہت وقت پڑا ہے۔ اگر وہ اپنی تنظیم پر توانائی صرف کریں اور اسے سائٹیفک بنیادوں پر استوار کریں تو وہ نون لیگ کو پنجاب اور خیبر پختوں خوا میں تحریک انصاف کو بچھاڑنے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔

\"bilawal-bhutto\"

اندر کی کہانی یہ ہے کہ بلاول بھٹوہروقت پارٹی راہنماؤں اور سینئر کارکنوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ وٹس ایپ گروپ بنائے گئے ہیں جن کےذریعے بلاول بھٹو کو پل پل کی خبریں پہنچائی جاتی ہیں۔ وہ پارٹی کے اندر پائی جانے والی دھڑا بندی سے بھی پوری طرح واقف ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ تمام تر دھڑا بندی کے باوجود وہ سینئر راہنماؤں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ نئے چہروں کےلیے بھی راستہ بنارہے ہیں۔

بلاول بھٹو کو اپنے والد محترم اور والدہ کے برعکس یہ برتری بھی حاصل ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے لیے ایک قابل قبول شخصیت ہیں۔ کشمیر پر حالیہ برسوں میں انہوں نے جو سخت گیر موقف لیا وہ اسٹبلشمنٹ کے کانوں میں رس گھولتا ہے۔ وہ نریندر مودی کو اس طرح للکارتے کرتے ہیں جس طرح ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اندراگاندھی کو چیلنج کیا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں گزشتہ آٹھ برسوں میں عسکری اداروں اور پی پی پی کے مابین پائی جانے والی روایتی کشمکش کا باب بھی بند ہوچکا ہے۔ پی پی پی ہو یا نون لیگ وہ امریکہ، ہندوستان اور افغانستان سے تعلقات کے معاملات سے اپنے آپ کو الگ تھگ رکھتیں ہیں، مبادا ادارے خفا نہ ہوجائیں۔ ہر ایک اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتا ہے اور حصہ بقدرے جثہ پاتا ہے۔

بلاول بھٹو کا اصل چیلنج پنجاب میں مقبولیت حاصل کرنا اور پارٹی کے حامیوں کو دوبارہ اپنی صف میں لانا ہے۔ ابھی عام الیکشن میں سوا سال باقی ہے۔ اس دوران دوسری جماعتوں کے اشتراک سے پنجاب میں نون لیگ کے مقابلے میں صف بندی کی جاسکتی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کیاجانا چاہیے کہ پاکستان میں اقتدار کے تمام راستے لاہور سے گذرتے ہیں۔ جس بھی پارٹی یا لیڈر کی جیب میں پنجاب کی کنجی ہوگی اقتدار کا ہما اس کے سر پرخوشی سے بیٹھے گا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کے پاؤں۔ گزشتہ بیس پچیس برسوں میں پنجاب میں ہر دن پی پی پی کمزور ہوئی اور کے مخالفین مضبوط۔ عشروں بعد پی پی پی اور تحریک انصاف نے لیڈروں کی ایک متبادل ٹیم ابھاری ہے جو شریف برداران کی سلطنت کو چیلنج کرتی ہے اگر پنجاب میں وسیع البنیاد سیاسی مفاہمت ہوجائے تو کوئی اپ سیٹ بھی ہوسکتاہے۔ بصورت دیگر خادم اعلی پنجاب اگلے پانچ برس کے لیے ایک بار پھر خدمت کے لیے حاضر ہیں۔

کالم پر تبصرے کے لیے لکھیں:

ershad.mahmud@gmail.com

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments