قاری سے لکھاری تک


(لکھاری انٹرویو دیتے ہوئے ) :۔ ویسے تو میں خود کو ایک اچھا کہانی کار نہیں مانتا تھا۔ مگر کچھ کہانیاں جب لکھ کر میں نے کسی کو دکھائی تو انہوں نے پڑھ کر کافی حوصلہ افزائی کی تھی۔ تب جا کر مجھے تھوڑا کچھ یقین ہوا کہ میں بھی ایک کہانی کار ہوں۔ اگر بہت اچھا نہیں تو بہت برا بھی نہیں ہوں۔ کافی لوگوں کو آج بھی وقت نکال کر پوچھنا پڑتا ہے کہ بھائی صاحب آپ نے میری کہانی پڑھی؟ تو وہ ہاں یا نہ میں جواب دیتے ہیں۔

لیکن کافی لوگوں کے بارے میں یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ وہ صرف شروع کا کچھ حصہ پڑھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور پھر پوچھو تو اس حصے کا کوئی منظر یاد کروا دیتے ہیں یا کریکٹر کا نام بتا دیتے ہیں کہ وہ مجھے اچھا لگا یا اچھی لگی۔ اس بات کا پتہ مجھے تب لگا جب میں نے ان سے کہانی کا اختتام معلوم کرنے کی کوشش کی تو جواب آیا ابھی پوری پڑھی نہیں۔ وہ بات اکثر لوگوں کی مجھے شروع میں مایوس کر گئی۔ میں سوچنے لگ گیا تھا کہ میں اچھا کہانی کار نہیں ہوں تب ہی تو لوگ میری کہانی کو پورا نہیں پڑھ پاتے۔

خیر وقت گزرتا گیا۔ اور میری اپنے بارے میں جو رائے تھی اس میں بھی وقت کے توسط تبدیلی آئی۔ میں نے دیکھا کہ لوگوں کے دراصل دماغ میں بیک وقت بہت سی پہلے ہی کہانیاں چل رہی ہوتی ہیں۔ ان کی اپنی کہانیاں جو وہ ہر روز جھیلتے ہیں۔ مگر وہ ساری دراصل ورچوئل ریئل ہیں۔ ہر کسی کا دماغ ایسا نہیں کہ وہ ہر کہانی ایک تو اس کی اپنی اور ایک کہانی کار کی کہانیاں بھی پڑھ پائے یا ان کا اپنے دماغ میں ہی کوئی حل، نتیجہ یا پھر کوئی تجزیہ ہی دے پائے۔

اور سب سے بڑھ کر میں نے یہ اخذ کیا کہ لوگ کیوں کہانیاں پوری مکمل نہیں پڑھ پاتے؟ وہ اس لیے کہ ان کی اپنی بھی کہانیاں ابھی نامکمل ہیں ان کے سامنے وہ اس بات سے قاصر ہیں کہ وہ ان کو اختتام پذیر کر پائیں گے۔ تووہ بھلا میری کہانی کا اختتام کیسے سوچ پاتے، اگر پڑھ لیتے تو ان کو اپنی کہانیوں کے بارے میں بھی سوچ آتی اور ان کو اختتام پر لانا پڑتا۔ فیصلہ کرنا پڑتا کہ کیا صحیح کیا غلط ہے۔ ان کا صحیح کیا باقی ان سے جڑے لوگوں کے لیے بھی صحیح ہوگا؟ اور ان کا غلط بھی باقی ان سے جڑے لوگوں کے لیے غلط ہوگا؟ اس فیصلے کو ان کے دماغوں نے ایک خلہ میں چھوڑ دیا ہے۔ صحیح غلط کی سوجھ بوجھ کے مالیکیولز ایک دوسرے سے جڑ کر کوئی ایلیمینٹ نہیں بنا پاتے۔ اور اگر کوئی فکشن رائیٹر وہ کام کر دے تو بھلا ان کو کیسے منظور ہوگا!

رائیٹر بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں۔ کیوں کہ میری ابھی بہت جان پہچان ہوئی ہے اس حلقے کے لوگوں کے ساتھ اور میں خود کی بھی بات کروں گا کہ میری اور تو دنیا سماج کے سب مسئلوں پر نظر پڑتی ہے۔ میں نے کافی ان مسئلوں پر لکھا بھی ہے۔ اور یہ میرے ایک دوست رائیٹر کی میرے سے ہمیشہ سے گلہ رہی ہے کہ میں وہ چیزیں کیوں کر نہیں لکھتا جن چیزوں سے مجھے تکلیف رہتی ہے۔ تکلیف جو مسلسل رہتی ہے۔ کیوں کہ میں سب تکلیفیں اس سے بانٹتا ہوں۔

اور وہ میری سب کہانیوں سے بھی واقف ہے تو لہذا مجھے سختی سے کہتا ہے کہ بھئی! تم اپنی تکلیف کاغذ پر کیوں نہیں لاتے۔ اور میرا جواب سر ہلانے تک ہی رہتا ہے۔ جب میں نے اس بارے میں سوچا! تو مجھے لگا کہ مجھے اپنی کہانیاں جن کے اندر میں گھومتا ہوں۔ میں نے کہیں اگر لکھ ڈالی تو ان کے انجام کو سوچ کر مجھے خوف آنے لگا۔ میں نے سوچا کہ میں اپنی کہانیاں لکھ کر ان کو انجام تک نہیں لا سکتا۔ اگر ایسا میں نے کر دیا تو میں ایک لا متناہی نا ختم ہونے والی اذیت میں مبتلا ہو جاؤں گا۔

میں ان ہر کریکٹر کی اذیت کو کیسے سہہ پاؤں گا۔ کیوں کہ وہ تو میرے سامنے ہی رہیں گے۔ میں ان سے منہ بھی نہیں پھیر سکتا۔ ایسے میں ہر روز لکھوں گا ایسی کہانیاں جن کا اختتام نہ ہو اور میں کیسے ان کو اختتام دوں۔ چلیں یہ سب میں آپ کو میں اپنی کہانی میں سمجھاتا ہوں۔ ایک قاری کی جب ترقی ہوتی ہے تب وہ ایک لکھاری بن جاتا ہے۔ میرا سفر بھی کچھ اسی طرح شروع ہوا۔ میں نے کئی کہانیاں لکھیں۔ ان میں سے ایک کہانی میری بہت مشہور ہوئی۔ کہانی کا نام ہے ”چڑیا“ ۔ مجھے اس کہانی کی وجہ سے بڑی پذیرائی ملی۔ اب جب بھی مجھ سے کوئی یہ سوال پوچھتا ہے کہ آپ کے مصنف بننے کا سفر کیسے شروع ہوا؟ میں کہتا ہوں پہلے میرا یہ افسانہ پہلے پڑھ لیں۔ پھر مجھ سے وہ سوال کریں۔

کیا مصیبت ہے یار! پتہ نہیں کتنا لمبا ہے۔ (انٹرویو لینے والے نے دل میں سوچا)

”وہ ایک چوراہے پر کھڑا دو پنجروں میں بند تڑپتی ہوئی چڑیوں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ وہ ان چڑیوں میں اتنا مگن ہو چکا تھا کہ اس کو گزرتی گاڑیوں کا شور بھی اب سنائی نہیں دینے لگا تھا۔ اس کے قدم اب ان چڑیوں کے پنجروں کی طرف خود بہ خود ہی چلنے لگ گئے تھے۔ جیسے وہ پنجرے مقناطیس تھے اور وہ لوہا۔ جو ان پنجروں کی طرف کھینچا چلا جا رہا تھا۔ اس کو پہلے تو پرندوں سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا۔ لیکن اس دن وہ چڑیاں اس کو کھینچ کر لے آئی تھی۔

وہ جا کر ان کے پنجروں کے پاس بیٹھ گیا۔ اب تو وہ ان چڑیوں کی ہر تڑپ کو محسوس کر رہا تھا جو ان کے وجود میں رواں تھی۔ دیکھ دیکھ کر وہ اٹھا اور ان چڑیوں کو آزاد کرنے کی چڑیا فروش سے قیمت پوچھی تو پتا چلا ایک چڑیا آزاد کرنے کے 20 روپے۔ پھر وہ واپس مڑا اور ساتھ ہی ایک پنجرے کے پاس دوبارہ بیٹھ گیا۔ پرندوں کو آزاد کرنے کے لیے اس نے جب اپنا ہاتھ پنجرے کے اندر ڈالا تو اس کے ہاتھ میں ایک چڑیا فورن بیٹھ گئی۔ جیسے ہی اس نے چڑیا کو نکال کر ہوا میں آزاد کیا۔

اس چڑیا کی آزادی کا احساس اس شخص کی روح کو پار کر گیا۔ اس نے دیکھا کہ چڑیا نے نکلتے ہی ایسے زور زور سے اپنے پر مارے جیسے ساون کی پہلی بارش میں مور پاگل ہو کر ناچ رہا ہو۔ ایک ایک کر کے اس نے سب چڑیوں کو آزادی دے دی۔ اور ہر اس احساس کو اپنے روح تک محسوس کیا۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر بٹوا نکالا۔ بٹوے میں پڑے سارے کے سارے پیسے اس نے چڑیا فروش کو تھما دیے۔ اس کے دل میں ابھی بھی ایک بوجھ تھا جو نکلنے کے لیے تڑپ رہا تھا۔

اس نے سوچا کہ شاید کوئی چڑیا پنجرے میں رہ گئی ہے۔ اس نے مڑ کر پنجروں کی طرف دیکھا لیکن وہ اسے خالی نظر آئے۔ وہاں کھڑا ایک شخص جو اس سارے معاملے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس آدمی کے قریب جا کر کہنے لگا صاحب تم تو لٹ گئے۔ وہ چڑیا فروش تو ہر روز یہی چڑیاں پکڑ کرلے آتا ہے۔ ایسے وہ اس پر ہنس کر چلا گیا۔ ابھی بھی وہ بوجھ اس کے سینے پر سوار تھا۔ وہ پھر سے اس سوچ میں غرق ہو گیا۔ اور اس بار وہ پہلے سے زیادہ وقت وہاں درویشوں کی طرح کھڑا رہا۔

اسے اچانک سوچ سے بیداری ہوئی اور وہ اب واپس اپنے گھر جانے لگا۔ اس کی جیب میں اتنے بھی پیسے نہیں بچے تھے کہ وہ رکشا لے کر گھر جاتا۔ وہ پیدل ہی پیدل گھر کی طرف جانے لگا۔ اس کے ذہن میں کئی خیالات گھوم رہے تھے۔ جیسے گھر قریب آنے لگا اس کے چلنے کی رفتار تیز ہوئی۔ اس نے دیکھا کہ اس کے گھر کا دروازہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ وہ تھوڑا رک سا گیا۔ چند لمحے بعد کھڑے ہو کر اس نے دوبارہ گھر کے دروازے کی طرف جانا شروع کیا۔

دروازے پر پہنچ کر اس نے جیب سے چابیاں نکالیں اور دروازے کا تالا کھولا۔ اور گھر کے صحن میں داخل ہو گیا۔ وہ ادھر ادھر تکنے لگا۔ باورچی خانے میں سے برتنوں کے مانجنے کی آواز آ رہی تھی۔ تو اس نے باورچی خانے کا رخ کیا۔ اس کی بیوی جو اس سے 20 سال کم عمر کی تھی اس کو بے وقت دیکھ کر ڈر سی گئی۔ وہ اس کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔ ایسے میں اس نے ایک چڑیا کی آواز سنی جو اس کے گھر کی دیوار پر بیٹھی تھی۔ وہ اس چڑیا کو باورچی خانے کی کھڑکی سے دیکھنے لگا جو اس کی بیوی کے بالکل پیچھے ہی نظر آ رہی تھی۔

چڑیا کی طرف دیکھ کر پھر بیوی کو دیکھ کر اس نے لہلہاتے ہونٹوں سے کہا“ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ طلاق دیتا ہوں۔ طلاق دیتا ہوں ”۔ اس نے دیکھا کے چڑیا اسی وقت اڑی اور آسمان میں گم ہو گئی۔ وہ باورچی خانے سے جلدی واپس نکلا اور دوبارہ اس رخ کی طرف دیکھنے لگا جس رخ وہ چڑیا اڑی تھی۔ وہ چڑیا کی تلاش میں مگن تھا۔ اس کے گھر کے دروازے کے زور سے بند ہونے کی آواز نے اس کو اس جستجو سے واپس اپنے گھر کے صحن میں کھڑا کیا جہاں وہ اب اکیلا کھڑا تھا۔

اس کو اپنے گھر کے کچن سے بریانی کی خوشبو بھی آ رہی تھی۔ اس نے دیکھا کے اس کی بیوی کا دوپٹہ بھی باہر تار پر لٹکا ہوا ہے۔ اس کو پھر اس پنجرے کی بھی یاد آئی جس کے اندر ایک کونے میں چاندی کے چھوٹے سے برتن میں چڑیوں کا دانا بھی پڑا تھا۔ اور وہ ویسے کا ویسا ہی بھرا تھا شاید جیسے وہ چڑیا فروش بھر کر لایا تھا۔ اور اس کو چڑیوں کے کھنب (پنکھ) بھی یاد آ رہے تھے جو چڑیوں کے جانے کے بعد اس پنجرے میں رہ گئے تھے“ ۔

(انٹرویو لینے والا) :۔ اچھا! اچھا! تو یہ آپ کی آپ بیتی ہے؟
لکھاری) ”۔ نہیں خدا کا خوف کریں میاں! )

انٹرویو لینے والا) :۔ ابھی آپ نے خود ہی تو کہا کہ میرا قاری سے مصنف بننے کا سفر میری اس کہانی میں ہے۔ )

(لکھاری) :۔ ہاں بالکل ایسا ہے۔ پر وہ تو میرا ذہنی سفر ہے۔ اور میں اسی وجہ سے قاری سے لکھاری بنا تھا۔ قاری تک ہی رہتا تو شاید میں آج اکیلا ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).