ذوق تجلی اور شوق ادراک


ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے

حکیم الامت کا یہ شعر فکر و ادراک کی وادی میں سرگرم انسان کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی ایک کوشش ہے کہ انسان کا وجود خاکی محض فکر کی جولانیوں سے مطمئن ہو سکتا ہے اور نہ ہی حقیقی فوز و فلاح سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ خاک کا یہ پتلا، جو عقل و دل کی کشمکش میں مبتلا رہتا ہے، ادراک کی بلندیوں پر پہنچ کر بھی اگر کسی چیز میں سکون پا سکتا ہے تو وہ ذات باری کی تجلی ہے، جس سے ہر انسان اپنی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق مستفید ہو سکتا ہے اور ہوتا آیا ہے۔ قرآن کی آیات نہ صرف انسان کی فکر و ادراک کی صلاحیتوں کو نکھارتی ہیں بلکہ ان کو ایک ایسی سمت اور جہت عطا کرتی ہیں کہ انسان ہمیشہ فکر کی پرواز کو برقرار رکھنے کے لئے تجلئی رب کا متلاشی اور طلبگار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآں فکر کی صلاحیت پر اترانے والے انسان کی نفسیات کو یوں بیان کرتا ہے :

اور اے نبی (ص) ، ان کے سامنے اس شخص کا
حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم
عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا۔
آخر کار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ
وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔ اگر ہم چاہتے
تو اسے ان آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے،
مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا۔
الاعراف: 175۔ 176

روح و بدن کی اس دوئی کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ کئی فلاسفہ نے اس کو موضوع بحث بناکر کئی ایک نتائج اخذ کیے۔ نتیجتاً روح یا عقل کو لافانیت کی سند عطا ہوئی جبکہ بدن کو فانی اور بے ثبات قرار دیا گیا۔ البتہ فلاسفہ کی طرف سے روح کا منبع ڈھونڈتے ڈھونڈتے اعلان ہوا کہ روح دراصل ”عالمی روح“ سے آتی ہے۔ اس تصور کے مطابق روح بدن کے ساتھ جڑ کر ایک طرح سے پھنس جاتی ہے اور ہر لحظہ اپنے اصلی منبع یعنی عالمی روح سے جدائی کو محسوس کرتی ہے۔

اس طرح روح تب تک قرار نہیں پاتی جب تک کہ یہ موت واقع ہونے پر بدن سے آزاد ہوتی ہے اور پھر عالمی روح کے ساتھ اس کا اتصال ہوجاتا ہے۔ کئی مسلم فلاسفہ، جیسے الکندی اور الفارابی نے اس نو افلاطونی تصور کو اسلامی فکر کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ نتجتا ”ان کی اس کاوش نے اسلام کے تصور الہ کو فکری طور پر ایک مجرد شکل دے ڈالی۔

یہی وجہ ہے کہ یہ مفروضہ زبان زد عام ہو گیا کہ دنیا کے اعلی دماغوں، بالخصوص فلاسفہ نے من حیث المجموع خدا کے وجود سے انکار کیا۔ لیکن جب اس مفروضے کا تاریخی تجزیہ کیاجاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ فلاسفہ کی اکثریت نے اصل میں خدا کی فلسفیانہ توجیہ کر کے خدا کو واجب الوجوب قرار دیا۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ فلاسفہ کی اکثریت خدا کا یکسر انکار کرنے سے قاصر رہی ہے۔ البتہ یہ بات صحیح ہے کہ فلاسفہ نے اللہ تعالٰی کی ذات والا صفات کو ایک مجرد تصور میں تبدیل کر کے عام انسان کی پہنچ سے بہت دور کر دیا۔

اب جہاں تک عام انسان کا تعلق ہے تو ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنا چاہیے کہ دنیا میں انسانوں کی اکثریت اسی جماعت عام سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ جماعت خدا کے کسی ایسے تصور پر اظہار اطمینان نہیں کر سکتی جس کے ساتھ اس کی گہری وابستگی نہ ہو اور جو اس کی ہر پکار کا جواب دینے کی صلاحیت سے عاری ہو۔ ایسا انسان بھلا خوشی اور غم کے تجربات سے پیدا شدہ احساسات کو کس کے ساتھ بانٹے؟ بات بالکل صاف ہے کہ انسان صرف ایک مادی وجود ہوتا تو اسے کسی طرح کے حالات میں کسی سہارے کی ضرورت نہ ہوتی۔ لیکن انسان اپنے اندر جذباتی اور نفسیاتی پہلو رکھتا ہے۔ جذبات اور نفسیات کے اس بحر ناپیدا کنار کی موجوں کو اگر کوئی کنارا سہارا نہ دے تو ان کی تلاطم خیز طغیانی اس کے وجود کو کسی بھی لحظہ غرق کر سکتی ہے۔

دنیائے اسلام میں خدا کے اس مجرد تصور کو فلسفہ یونان کے زیر اثر معتزلہ نے متعارف کرایا۔ مامون الرشید کے دور حکومت میں اس تصور کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ امام احمد ابن حنبل (رح) نے سواد اعظم کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کی پرزور مخالفت اور مزاحمت کی۔ امام صاحب کو مامون اور معتصم کے دور میں مسلسل عتاب کا شکار بنایا گیا۔ تاہم امام صاحب نے عزیمت کا پہاڑ بن کر اس تصور کو مات دی۔ اس طرح متوکل کے دور حکومت میں خدا کا ”سیدھا سادہ“ تصور بحال ہوا اگرچہ فکری سطح پر معتزلہ کا تصور خدا قائم رہا۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ معتزلہ کی یہ تحریک تصور ”خلق قرآن“ کے جلو میں چل رہی تھی، تاہم اس ساری فکری تگ و دو کے پیچھے خدا کے اسی تصور کو عام کیا جا رہا تھا جس میں عوام کے لئے کوئی کشش تھی نا کوئی دلچسپی۔

یہ تصور خدا اس تصور کے ساتھ بہرحال میل نہیں کھاتا تھا جو پیغمبر کرام (ع) پیش کرتے آئے تھے۔ ابراہیم (ع) نے اپنی پیغمبرانہ عظمت کے باوجود اللہ تعالٰی سے یہ التجا کی کہ انہیں حیات بعدالموت کا مشاہدہ کرایا جائے۔ جب اللہ تعالٰی نے آنجناب (ع) سے ایمان کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ انہیں اطمینان قلب درکار ہے۔ اسی طرح موسی (ع) نے تجلئی رب کی درخواست کی۔ تجلی کا جب طور پر نزول ہوا تو موسی (ع) بے ہوش ہو گئے۔ سیدالانبیا (ص) کو مختلف اوقات میں مختلف آیات الٰہی کا مشاہدہ کروایا گیا۔ خصوصاً معراج کے موقعے پر اگرچہ آپ (ص) کی روئت الٰہی مختلف فیہ ہے، لیکن اس موقعے پر بھی نبی (ص) کو اللہ تعالٰی کی بڑی بڑی نشانیاں دکھائی گئیں۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عقل اور دل کی اس کش مکش میں بہترین امتزاج پیدا کر کے ایک اعتدال قائم کیا ہے۔ یہاں پر اگرچہ ذوق تجلی کو پروان چڑھانے کے وافر مواقع مہیا رکھے گئے ہیں، لیکن شوق ادراک کا کبھی بھی گلا نہیں گھونٹا گیا۔ بے شک کئی ایک مبادیات کے بارے میں سوالات کو غیر ضروری قرار دیا گیا ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ اعلان کیا گیا ہے کہ ”حسن السؤال نصف العلم“ یعنی اچھا سوال کرنا نصف علم ہے۔ حصول علم کو اس صورت میں بھی پروان چڑھایا گیا ہے کہ ”لا ادری نصف العلم“ یعنی اگر کوئی یہ کہے کہ میں نہیں جانتا تو گویا اس نے نصف علم حاصل کر لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لا علمی کا اعتراف کرنے والا حصول علم و ادراک کی طرف اپنا پہلا قدم اٹھاتا ہے۔

نبی (ص) نے اسی رویے کو پروان چڑھایا ہے۔ جب ایک مسافر اونٹ کو کھلا چھوڑ کر نبی (ص) کی محفل میں اس اطمینان کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے کہ ”میں نے اونٹ کو اللہ پر توکل کر کے کھلا چھوڑ دیا ہے“ تو اسے نصیحت کی گئی کہ ”اعقلھا ثم توکل“ یعنی پہلے اونٹ کو باندھو پھر اللہ پر توکل کرو! اسی طرح بدر کے موقعے پر جب نبی (ص) نے تمام انتظامات کو اسباب کے تحت اختیار کیا تو اللہ تعالٰی نے ملائکہ کو نصرت کے لئے اتارا۔ شاید اسی ادا کو علامہ اقبال نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے :

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں قطار اندر قطار اب بھی

تاہم علامہ نے عقل و عشق کی اس معرکہ آرائی کو اسوہ ابراہیمی (ع) کے ذریعہ ذرا مختلف پیرائے میں بیان کیا ہے :

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی

یہاں پر ہمیں یہ مغالطہ لاحق نہیں ہونا چاہیے کہ حضرت ابراہیم (ع) معاذاللہ بے سوچے سمجھے جان لیوا الاو میں اتر گئے! انہوں نے دراصل شوق ادراک کی ہر ممکن صورت کو بروئے کار لاتے ہوئے نمرود اور اس کے مشیروں کو مات دی تھی۔ اس طرح نمرود کا ہلاکت خیز الاو سلگانا دراصل ادراک کی سطح پر اس کی شکست، جس کو قرآن نے ”فبہت الذی کفر“ کہا ہے، کا اعلان اور اظہار تھا۔ اس صورت حال کا مقابلہ بہرحال ذوق تجلی کو استعمال میں لاکر ہی کیا جاسکتا تھا۔

یہ دراصل شہود کی وہ سطح ہوتی ہے جہاں پر عبد اور معبود کے درمیان حائل تمام پردے اٹھ جاتے ہیں اور بندے کا حق کے ساتھ ”وصال“ کا اشتیاق اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اس سطح کو عام طور پر جذباتیت سے موسوم کیا جاتا ہے۔ لیکن بے شک یہ جذبات ہی ہیں جو انسان کے اپنے نصب العین کے ساتھ لگاو کو جنون میں تبدیل کرتے ہیں۔ اور یہ جنون ہی ہے جو تاریخ کے دھارے کو موڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے بر عکس شوق ادراک سے تخیل کی وادیوں میں جولانیاں دکھائی جا سکتی ہیں اور زندگی کے نت نئے میدانوں کی باپت ”یوٹوپیا“ بھی تجویز کیا جاسکتا ہے لیکن عمل کی حقیقی دنیا میں ان کی تشکیل ناممکن الحصول رہتی ہے۔

فلسفے کی تاریخ سے اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ افلاطون کا ”ملک فیلسوف“ کا تخیل کم و بیش ڈھائے ہزار برس گزرنے کے باوجود آج بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ لیکن دنیا نے اس تخیل کے مطابق نہ کوئی ریاست قائم ہوتے دیکھی اور نہ ہی ایسا بادشاہ دنیا کو میسر ہوسکا۔ مسلم فلاسفہ میں سے اس کا اطلاق ابو نصر الفارابی نے ”مدینہ الفاضلہ“ میں اس ریاست یا تمدن پر کرنے کی کوشش کی جس میں ”ملک فیلسوف“ کو ”ملک نبی“ پر کیا جو ایک ”مثالی ریاست“ قائم کرنے اور اس کو عدل و انصاف کے اصولوں پر چلانے میں کامیاب ہوتا ہے۔

یہ عین ممکن ہے کہ الفارابی نے ”ریاست مدینہ“ کے تصور کو ہی افلاطون کی مثالی ریاست پر منطبق کیا ہو۔ کیوں کہ وہ رقمطراز ہیں کہ مثالی ریاست کے حکمران کو یا تو نبی ہونا چاہیے یا اس میں فکری اور اخلاقی دونوں دائروں میں نبی جیسے اوصاف کا حامل ہونا چاہیے۔ تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم میں ریاست مدینہ ہی وہ مثالی ریاست ہے جس کو سید الانبیا (ص) نے قائم فرمایا اور خلفاء راشدون (رض)، جو درسگاہ نبوی کے پروردہ تھے، نے پروان چڑھایا۔

الفارابی کے سیاسی فلسفے کی رو سے ایک مثالی ریاست کے حکمران کو ریاست کے شہریوں کی دونوں دنیاوں (یعنی دنیا اور آخرت) کی نجات کا سامان کرنا ہوتا ہے، اس لئے ایسے حکمران کو ذکر اور فکر کی صلاحیتوں سے مالامال ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ایسا حکمران رات کو مسکینوں کی خبرگیری کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کی پہرے داری بھی کرتا ہے۔ وہ دن کو جہاں بانی کے فرائض انجام دیتا ہے اور رات کو اللہ کے ذکر کے ساتھ ساتھ اللہ کے نظام کائنات پر غور و فکر بھی کرتا ہے۔ از روئے آیات قرآنی:

ہوش مند لوگ، جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمانوں کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں۔ آل عمران: 190۔ 191

یہی وجہ ہے کہ تاریخ عالم میں ہر ذی علم و ادراک شخصیت کو اپنے فلسفے اور نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جذبات سے پر افراد کی ضرورت پڑی ہے۔ جس کسی کو ایسے افراد کی فراہمی ممکن نہ ہو سکی، اس کا نظریہ فقط ایک یوٹوپیا ثابت ہوا۔ تاریخی طور پر اس مسلمہ اصول میں اگر کوئی استثنا ہے تو وہ اس تحریک کو حاصل ہے جو قرآن کے آفاقی اصولوں پر مبنی تھی اور جسے سیدالانبیا (ص) نے برپا کیا۔ آپ (ص) نے بنفس نفیس اپنے متبعین میں ذوق تجلی اور شوق ادراک کا امتزاج پیدا فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ دن کے شہسوار اور راتوں کے تہجد گزار (فرسان فی النہار و رہبان فی الیل) بن گئے۔

عبدالرحمن ابن خلدون نے بھی بڑے ہی واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ اگر فہم و ادراک کے زور سے کسی کو مذہب کی مبادیات کا قائل کیا بھی جائے تو اس کو تیقن کی حالت تک پہنچانے کے لئے اس کے دلی جذبات اور احساسات کو متاثر کرنا ازحد ضروری ہے۔ تبھی ہم دیکھتے ہیں مناظرہ بازی سے دینداری کی تخم ریزی نہیں ہوتی، جبکہ خلوص و ایثار پر مبنی دعوت ہمیشہ دلوں کو مسخر کرتی ہے اور دین کو دلوں میں راسخ کرتی ہے۔

ذکر و فکر کے اسی اسی امتزاج کو مولانا رومی نے ان اشعار میں نہایت متاثر کن انداز میں بیان کیا ہے :
ایں قدر گفتیم باقی فکر کن
فکر اگر جامد بود، رو ذکر کن
ذکر آرد فکر را در اہتزاز
ذکر را خورشید ایں افسردہ ساز

علامہ اقبال نے بھی قرآن کے پیغام فقر و زہد کو ذکر اور فکر کا اختلاط قرار دے کر ذوق تجلی اور شوق ادراک کو اس شعر میں سمیٹا ہے :

فقر قرآں، اختلاط ذکر و فکر
فکر را کامل نہ دیدم جز بہ ذکر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).