یہ کائنات کیسے وجود میں آئی؟


آج کی تحریر بہت ہی، دلچسپ، اسپیشل اور حیران کن ہے۔ یہ کائنات کتنی بڑی اور خوبصورت و دلکش ہے۔ ہم سب کی آج کی تحریر پڑھنے کے بعد آپ حیران رہ جائیں گے۔ کائنات کی کہانی سمجھنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ تحریر کو اینڈ تک پڑھیں۔ کیا ہے کائنات؟ کتنی بڑی اور کس قدر حسین و دلکش ہے یہ کائنات؟ کیسے وجود میں آئی یہ کائنات، ہم انسان کہاں رہتے ہیں؟ کائنات میں زندگی کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟ وہ کہکشاں جہاں انسان بستے ہیں اس کا کیا نام ہے اور وہاں کتنے ستارے ہیں؟

ذرا دیکھیں اس کائنات کو غور سے اور سوچیں ہم انسان کیا ہیں اور ہماری اوقات اس کائنات میں کیا ہے؟ یہ جو منظر ہم انسانوں کو نظر آ رہا ہے اس میں لاکھوں نہیں، کروڑوں بھی نہیں، اربوں بھی نہیں بلکہ کھربوں بھی نہیں لامحدود ستارے اور سیارے ہیں۔ انسان جس galaxy یا کہکشاں کے ایک چھوٹے سے planet پر رہتے ہیں اس گیلکسی کا نام ملکی وے ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس ملکی وے نامی galaxy میں بھی کروڑوں اربوں ستارے ہیں۔ یہ اربوں کھربوں ستارے مل کر ایک گیلکسی بناتے ہیں۔ ملکی وے وہ کہکشاں ہے جسے انسان کی کہکشاں کہا جاتا ہے۔ ملکی وے گیلکسی کی سرحدیں لامحدود ہیں۔ ملکی وے گیلکسی اس قدر حسین اور دلکش ہے کہ انسان دیکھ کر حیران رہ جائے۔

ملکی وے کے آس پاس ایسی کھربوں galaxies ہیں۔ ان سب galaxies کو یونیورس یعنی کائنات کہا جاتا ہے۔ دیکھیں یہ ہے کائنات جو اس قدر دلکش ہے کہ انسان اسے دیکھ کر جنت کو بھی بھول جائے۔ اس کائنات میں اربوں کھربوں gaalaxies ہیں۔ یہ یونیورس یا کائنات ایک بال کی طرح دکھائی دے رہی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یونیورس بھی ایک نہیں لاکھوں کروڑوں کائناتیں اور ہیں جن کے بارے میں انسان ابھی تک جانتا ہی نہیں۔ یہ تمام لاکھوں کروڑوں کائناتیں آپس میں لنک ہیں۔

پھر یہ کروڑوں کائناتیں مل کر ایک ملٹی ورس بناتی ہیں۔ کیا معلوم یہ ملٹی ورس ایک نہیں بلکہ کروڑوں اربوں ہوں اور پھر ان ملٹی ورث سے بھی اوپر کوئی سپر ورث ہو۔ اسے کہتے ہیں کائنات۔ اتنی بڑی کائنات میں انسان کی کیا اوقات ہو سکتی ہے اس کا اندازہ ہم انسان خود ہی لگا سکتے ہیں۔ اس یونیورس، ملٹی ورس اور سپر ملٹی ورس میں انسان کی اوقات اگر ایک چیونٹی کی بھی ہو تو بڑی بات ہو گی۔ یہ کائنات کیسے بنی ہوگی؟ کیوں بنے ہوگی اور کس طرح بنی ہوگی؟ اتنی بڑی سپیس میں کیسے ناچ رہی ہے یہ دلکش کائنات۔

انسان کے نظام شمسی سے باہر اربوں اور کھربوں کہکشائیں ہیں۔ ان کہکشاوں کا نام کائنات ہے جو لامحدود ہے۔ یہ صرف ایک کائنات ہے جس کی کوئی ہد نہیں، اس طرح کی لاکھوں اربوں کائناتیں جن کو جاننے کے لئے شاید انسانوں کو ابھی کتنے کھربوں سال لگیں گے۔ فی الحال ہم صرف ایک یونیورس پر بات کرتے ہیں۔

کائنات کی کوئی سرحد، کوئی ٔکنارہ، کوئی آخری سرا نہیں ہے۔ کائنات کی تقسیم در تقسیم کبھی نہ ختم ہونے والی ہے اور بے انتہا ہے۔ یہ تمام ستارے، سیارے، زمین، پودے، جانور، انسان ہر چیز کائنات میں شامل ہے۔ آئیے اب جانتے ہیں کہ یہ کائنات کیسے وجود میں آئی۔ انسان شاید اس دنیا کی وہ سب سے عظیم مخلوق ہے، جو ہر وقت اس وسیع کائنات کی ہر شے کو کھوجنے، اس کی حقیقت جاننے کی جستجو میں لگا ہوا ہے۔ یہی تلاش انسان کو چاند ستاروں اور کروڑوں نوری سالوں کے فاصلے پر واقع کہکشاؤں تک لے گئی ہے۔

ہزاروں سال سے جاری انسانی سائنسی تحقیق، سوال و جواب اور دریافتوں کا سلسلہ اپنی جگہ، مگر آج سے تقریباً چار سو سال پہلے یورپ میں جو سائنسی انقلاب برپا ہوا۔ اس کی وجہ سے ہزاروں سال پرانے نظریے اور مفروضے غلط قرار پائے۔ چار سو سال پہلے فزکس میں نئے اصول وضع کیے گئے۔ ایسے آلات وجود میں آئے جن سے کائنات کی ابتدا کو کافی حد تک سمجھنے میں مدد ملی۔ کائنات بگ بینگ کے عمل کی وجہ سے وجود میں آئی تھی۔ یقیناً ’بگ بینگ‘ کا نام تو ہم میں سے بہت ساروں نے سن رکھا ہوگا۔

چلیے آج میں آپ کے سامنے بگ بینگ نظریے کی مکمل تصویر آپ کو دکھاتا ہوں۔ بگ بینگ انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’بڑے دھماکے‘ کے ہیں۔ بگ بینگ وہ دھماکہ ہے جس کی وجہ سے یہ کائنات وجود میں آئی۔ اس نظریے کے مطابق کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے تمام مادہ ایک سوئی کے ہزارویں حصے کے برابر نہایت خفیہ جگہ میں قید تھا۔ یہی بگ بینگ دھماکہ کائنات کا نکتۂ آغاز تھا۔ بگ بینگ دھماکے سے تمام مادہ انتہائی تیزی سے ایک دوسرے سے دور ہونے لگا اور خلاء میں پھیل گیا۔

اس وقت اس مادے کی رفتار اس قدر زیادہ تھی کہ یہ کائنات تیزی سے پھیلنے لگی۔ بگ بینگ دھماکے نے یونیورس یا کائنات کو ہر طرف پھیلا دیا۔ بگ بینگ سے خلا میں ستاروں کے بہت بڑے بڑے جھرمٹ وجود میں آ گئے جنہیں کہکشائیں کہا جاتا ہے۔ کہکشائیں بڑی تیز رفتاری سے ایک دوسرے سے جدا ہو رہی ہیں اور اس طرح کائنات پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ آج ’بگ بینگ‘ ، یعنی ہماری کائنات کے نکتۂ آغاز کو 13.8 ارب سال ہو چکے ہیں۔

ہم میں سے اکثر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ بھلا کائنات کی عمر کوئی کیسے بتا سکتا ہے اور کیسے پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ بگ بینگ دھماکہ کب ہوا تھا؟ تو اس کا جواب ہمیں ”ہبل خلائی دوربین“ نے دے دیا ہے۔ اس دوربین کی مدد سے لی گئی تصاویر میں ہمیں جو سب سے پرانی کہکشاں ملتی ہے، وہ زمین سے 13.4 ارب نوری سال دور واقع ہے۔ ’نوری سال‘ دراصل وقت کا پیمانہ نہیں ہے بلکہ فاصلے کا پیمانہ ہے اور ایک نوری سال کا فاصلہ تقریباً 10 کھرب کلومیٹر کے برابر ہے۔

یہ فاصلہ روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جہاں ایک نوری سال ہی 10 کھرب کلومیٹر کے برابر ہے تو 13.8 ارب نوری سال کتنے کلومیٹر کے برابر ہوں گے۔ اگر ہم پیمائش کر سکیں کہ کسی دور دراز ستارے یا کہکشاں سے روشنی زمین تک کتنے سال میں پہنچ سکتی ہے تو اس طرح قدیم سے قدیم تر کہکشاؤں کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ اب تک ہم نے جس قدیم ترین کہکشاں کا مشاہدہ کیا ہے، وہ کیونکہ کہ 13.4 ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کائنات کی عمر اس کے آس پاس ہی ہوگی۔

13.8 ارب سال پہلے نہ یہ سورج تھا، نہ یہ ستارے تھے، نہ یہ کہکشائیں تھی، اور نہ ہی یہ نظارے، بلکہ صرف دھماکے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بڑے بڑے ہائیڈروجن گیس کے بادل تھے۔ خلاء میں موجود ان بادلوں کے جن حصوں میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کی مقدار زیادہ تھی، ان حصوں میں گیسز سکڑنے لگیں اور سکڑتے سکڑتے کافی گرم اجسام کی شکل اختیار کر گئیں جنہیں ہم ”ستارے“ کہتے ہیں۔ ان ستاروں کے آس پاس جہاں گیسز کی مقدار کم تھی، وہاں بھی گیسز سکڑتی گئیں اور گرم اجسام بنے جو ستاروں سے چھوٹے تھے ان اجسام کو ہم ’سیارے‘ کہتے ہیں۔

کئی ستارے آپس کی کشش کی وجہ سے جھرمٹ کی شکل اختیار کر گئے اور اس طرح کہکشائیں وجود میں آ گئی۔ ہمارا سورج اور زمین جس کہکشاں میں ہے اس کا نام ”ملکی وے“ ہے۔ اس کا نام ملکی وے اس لیے رکھا گیا ہے کیوں کہ ملکی وے نامی کہکشاں میں بہت سے ستارے سفید نظر آتے ہیں، اس کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ”دودھ کی نہر یا راستہ“ ہو۔ ”ملکی وے“ کا اردو ترجمہ ہے ”دودھیا راستہ۔“ جب زمین بنی تو اپنے محور اور سورج دونوں کے گرد بہت تیزی سے چکر لگا رہی تھی اور آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوتی چلی گئی۔

زمین کی اپنی پیدائش کے وقت شکل بالکل ایسی تھی جیسے ہر جگہ آتش فشاں پھٹ رہے ہوں۔ لیکن جیسے ہی درجہ حرارت کم ہونے لگا تو زندگی جنم لینا شروع ہو گئی۔ اس مرحلے میں تب نہ کوئی انسان تھا نہ جانور یہاں تک کہ سب سے چھوٹے جاندار یعنی بیکٹیریا تک کا وجود نہ تھا۔ لیکن تب بھی زمین پر ان سب کو جنم دینے والا عنصر یعنی مادہ موجود تھا۔ پھر کیمیائی ارتقاء کا آغاز ہوا جس میں مادے کے چھوٹے خلیے ملے اور مالیکیولز بنے اور پھر ان لاکھوں مالیکیولز کے ملنے سے ایسے خلیے وجود میں آئے جو خود سورج کی روشنی استعمال کر کے اپنی خوراک بنانے کے قابل تھے اور ان میں سے ہر ایک کا ایک بنیادی اصول تھا کہ مرنے سے پہلے ہر خلیہ ایک سے دو ہو جاتا، اس طرح ان کی تعداد بڑھتی رہی۔

یہ تھے بیکٹیریا۔ یہ بیکٹیریا ایسے جاندار تھے جنہیں زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت نہیں تھی، البتہ یہ خود آکسیجن پیدا کرتے تھے۔ چوں کہ ان کی تعداد کافی زیادہ تھی اس لیے زمین پر فضا میں آکسیجن کی مقدار بڑھنا شروع ہو گئی۔ فضا میں آکسیجن کی مقدار جیسے جیسے زیادہ ہوتی چلی گئی، ویسے ویسے مادے سے خلیے بننے کا عمل کم ہوتا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی جاندار بے جان چیزوں سے نہیں بنتا۔ سائنسی نظریے کے مطابق ارتقاء گھنٹوں، دنوں، یا سالوں پر محیط کوئی عمل نہیں ہے بلکہ یہ ایسی طویل زنجیر ہے جس کی ایک ایک کڑی کے جڑنے میں صدیاں گزر جاتی ہیں۔

اب کیمیائی ارتقاء کے بعد حیاتیاتی ارتقاء یعنی چھوٹے جانداروں سے دوسرے بڑے جانداروں کے بننے کا عمل شروع ہوا۔ بیکٹیریا سے شروع ہونے والا ارتقائی عمل بہت سے خلیوں پر مشتمل جانداروں کی تشکیل کا سبب بنا، جن میں سب سے پہلے مچھلیاں پیدا ہوئیں، ان کے بعد یعنی خشکی اور تری دونوں میں رہنے والے جاندار بنے، پھر رینگنے والے جانور یعنی چھپکلیاں، اور مگرمچھ، اس کے بعد پرندے، اور سب سے آخر میں ممالیہ جانور یعنی بھیڑ، بکری، گائے، انسان وغیرہ بتدریج وجود میں آتے گئے۔

ان بھرپور معلومات اور تیز تر ٹیکنالوجی کے ذرائع میسر ہونے کے باوجود آج بھی انسان کائنات کے چھپے ہوئے رازوں کی گتھیاں مکمل طور پر سلجھانے میں ناکام ہے۔ کیوں کہ اس طویل ترین زنجیر کی کئی کڑیاں اب تک غائب ہیں۔ مگر تلاش اور جستجو کا سفر جاری ہے۔ ہم انسان کائنات کے چھپے ہوئے رازوں کو تو جاننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ انسان بھی تو صرف 2 لاکھ سال پہلے کائنات کے کسی ایک صفحے پر وجود میں آیا تھا۔ اب سوال یہ کہ انسان سے پہلے کیا تھا، کیا نہیں تھا، اس پر مشاہدات تو کیے جا چکے ہیں لیکن کائنات کے بننے سے لے کر آج تک اتنے واقعات ہوئے ہیں کہ اس کے لئے اب بھی بہت جستجو اور تحقیق کی ضرورت ہے۔

کائنات تو اس قدر وسیع ہے کہ سائنسدان اب تک اس کی حدود کا تعین نہیں کر سکے ہیں۔ یہ زمین جس پر انسان اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے اب یہ بھی ختم ہونے والی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق زمین کی عمر بہت کم رہ گئی ہے۔ یہ زمین کسی بھی وقت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔ دنیا کے معروف ترین سائنسدانوں میں سے ایک پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ نے خبردار کیا تھا کہ اگلے ایک ہزار برسوں تک انسانوں کو اپنا ٹھکانہ کسی اور سیارے پر بنانا ہوگا۔

آکسفورڈ یونین ڈیبیٹنگ سوسائٹی سے خطاب کے دوران 74 سالہ سائنسدان نے کہا تھا کہ اگر انسان نے رہائش کے لیے کوئی اور سیارہ دریافت نہیں کیا تو ایک ہزار سال کے اندر انسانوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ انسانوں کو خلاء میں اپنی رہائش کے لیے نئے مقام کی کوششوں کو جاری رکھنا ہوگا ورنہ انسانی نسل کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا۔ اسٹیفن ہاکنگ نے کائنات کا مکمل نظریہ نامی ایک کتاب لکھی تھی۔

یہ کتاب سٹیفن ہاکنگ کے لیکچروں کا مجموعہ ہے۔ یہ لیکچرز اسٹیفن ہاکنگ نے مختلف مواقع پر دیے تھے۔ لیکچروں میں ہاکنگ نے فلکی فزکس کا احاطہ کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ کائنات کے مکمل ترین اور حتمی نظریے تک پہنچنے کے لیے اب تک کیا کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور آنے والے سالوں میں اس حوالے سے کیا امیدیں وابستہ ہیں۔ ان لیکچروں کے ذریعے مصنف نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ بگ بینگ سے لے کر بلیک ہولز تک، کائنات کی تاریخ کے بارے میں ہم کیا سوچتے ہیں اور کیا سوچتے چلے آ رہے ہیں۔ کتاب میں کل سات لیکچر ہیں۔ ہم میں سے بہت ساروں نے خلائی مخلوق کے بارے میں بہت ساری فلمیں ہالی وڈ کی فلمیں دیکھ رکھی ہیں اور فکشن کی کتابوں میں بہت کچھ پڑھ رکھا ہے۔

آج کی تحریر میں ایلینز کی کہانی بھی سنا دیتا ہوں۔ کیا کائنات کے کسی حصے یا کونے میں ایلینز بستے ہیں یا نہیں؟ انسان نہ جانے کب سے اپنے جیسی کسی دوسری دنیا کی مخلوق کی تلاش کر رہا ہے۔ سائنسداں زمین سے ریڈیائی لہریں بھیج کر دوسری دنیا کی مخلوق سے رابطے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اب تک دوسری دنیا کی کسی مخلوق نے کسی بھی انسانی پیغام کا جواب نہیں دیا ہے۔ دوسری دنیا کی مخلوق انسانی پیغامات کا جواب کیوں نہیں دیتیں؟

وہ کہاں ہیں؟ ہیں بھی یا نہیں؟ کچھ سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق انسانوں جیسی ذہین مخلوق اس کائنات میں مختلف سیاروں پر موجود ہے۔ لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر وہ ہیں تو ان سے ہمارا رابطہ کیوں نہیں؟ آخر وہ کہاں ہیں؟ ’سرچ فار اکسٹرا ٹریسٹریئل انٹیلیجنس‘ نامی ادارہ کئی سالوں سے اس کا جواب تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ سائنسدانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایلینز کے وجود کی انکاری ہے۔ ان سائنسدانوں کے مطابق انسان اس کائنات میں واحد ذہین مخلوق ہے۔

ان کے مطابق کسی خلائی مخلوق کی موجودگی محض خیال خام ہے۔ یہ سائنسدان کہتے ہیں انہوں نے تحقیق میں یہ پایا کہ اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ کائنات میں انسان جیسی کوئی دوسری ذہین تہذیب نہیں ہے۔ سائنسی محققین کا خیال ہے کہ سائنسدانوں کو دوسری دنیا میں زندگی اور دوسری دنیا کی مخلوق یا ایلینز کی تلاش جاری رکھنا چاہیے۔ ایلینز کے امکانات کم ہونے کے باوجود اگر ہمیں مستقبل میں کبھی یہ پتہ چلے کہ کہیں کوئی ذہین خلائی مخلوقی تہذیب ہے تو بھی ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔ کائنات کا نام سنتے ہی ہم لوگوں کے ذہن میں تجسس بھرے سوال اٹھتے ہیں کیونکہ کائنات میں ایسے حیرت انگیز چیزیں موجود ہیں جو ہماری عقلوں کو حیران کرنے کے لئے کافی ہے۔

یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے لیکن کیا آپ کو پتا ہے کہ ہماری کائنات میں ایسی کوئی بھی شے نہیں جو حرکت میں نہ ہو مطلب ہر ایک چیز اس کائنات میں حرکت کر رہی ہے جیسے زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے تو سورج کہکشاں کے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے اور کہکشاں خود کائنات میں 550 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے تیر رہی ہے۔

اسی طرح کائنات میں موجود ہر ایک شے حرکت کر رہی ہے۔ ہماری کائنات مکمل خاموش ہے مطلب آپ خلاء میں کوئی آواز نہیں سن سکتے کیونکہ آواز سننے کے لئے آپ کو ایک میڈیم کی ضرورت ہوگی جو سپیس میں نہیں ہے اس لیے سائنسدان خلاء میں ریڈیو سگنلز کا استعمال کر کے ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔ سائنسدانوں نے ایک سیارہ دریافت کیا ہے جس کا نام 55 کیسری ای ہے۔ یہ سیارہ ہماری زمین سے تین گنا بڑا ہے اور اس سیارے کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سیارہ مکمل ہیرے کا بنا ہوا ہے اور یہ زمین پر موجود ہر انسان کو کروڑ پتی بنا سکتا ہے لیکن وہاں پر جانا فی الحال انسان کے بس کی بات نہیں۔

آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ خلاء میں موجود انسان زمین پر موجود لوگوں سے 2 انچ لمبے ہو جاتے ہیں مطلب خلاء میں جسم 2 انچ لمبا ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں گراوٹ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی زمین پر موجود انسانوں کے مقابلے میں سیدھی ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں سائنسدان خلاء میں دو انچ لمبے ہو جاتے ہیں۔ چاند ہماری زمین سے ہر سال چار اعشاریہ چار سینٹی میٹر دور ہوتا جا رہا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہماری آنے والی اولادیں چاند کے بارے میں صرف کتابوں میں ہی قصے کہانیاں پڑھے گی کیونکہ اس وقت چاند نامی قدرتی سیٹیلائٹ زمین سے اتنی دور جا چکی ہوگی کہ اسے محض ٹیلی سکوپ سے ہی دیکھا جا سکے گا۔

کائنات میں اتنے زیادہ ستارے موجود ہیں کہ جن کو ہم نہیں گن سکتے۔ اگر آپ اس دنیا میں موجود سات بلین لوگوں کے سر کے ہر ایک بال کو گننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بھی بالوں کی یہ تعداد کائنات میں موجود ستاروں کے سامنے کچھ نہیں اور جتنی دیر میں آپ نے یہ پڑھا کہ ستارے گننا ناممکن ہے اتنی دیر میں ان گنت ستارے ختم ہوچکے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ جنم لے چکے ہیں۔ چاند پر موجود انسانوں کے رکھے گئے قدم آنے والے دس ارب سالوں تک باقی رہنے والے ہیں کیونکہ چاند پر نہ تو ہوا ہے، نہ پانی ہے اور دس ارب سال بعد یہ قدم چاند پر گرنے والے شہابیوں کی وجہ سے مٹ جائے گے۔

کائنات میں ایک ستارہ ایسا بھی ہے جس کی سطح کا ٹمپریچر محض 27 سینٹی گریڈ ہے۔ میں یہاں کسی سیارے یا چاند کی بات نہیں کر رہا ہو میں ایک ستارے کی بات کر رہا ہو جس کی سطح کا درجہ حرارت صرف 27 سینٹی گریڈ ہے۔ اس ستارے کو وائس 8028 کا نام دیا گیا ہے اور اس پر مزید تحقیق جاری ہے۔ ہمارے سورج کا سائز ہمارے زمین کے نسبت اتنا بڑا ہے کہ اگر آپ سورج کا سائز ایک فٹ بال گراؤنڈ جتنا کر دیں تو ہمارے زمین کا سائز ایک مٹر کے دانے جتنا ہوگا۔

اس بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سورج ہماری زمین سے کتنا بڑا ہے۔ کائنات میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جو مکمل خالی ہے۔ یہ جگہ اربوں نوری سال پر پھیلی ہوئی ہے اور اس جگہ کو سائنسدانوں نے بوٹس پوائنٹ کا نام دیا ہے۔ اربوں سال پر پھیلا ہوا یہ مقام مکمل خالی ہے۔ ماہرین فلکیات کائنات میں چھپے پوشیدہ راز منظر عام پر لانے کے لیے مختلف انداز سے تحقیق کرتے رہتے ہیں۔ اسی ضمن میں چند سال قبل یورپی خلائی ادارے نے کائنات کی قدیم ترین روشنی کا ایک نیا نقشہ تیار کیا تھا، جس کے ذریعے یہ معلوم ہوا تھا کہ کائنات کی عمر پہلے لگائے گئے تخمینے سے زیادہ ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ یہ نقشہ کائنات کی ابتدا اور ارتقاء کے بگ بینگ ماڈل کی بہت بہتر ین انداز سے توثیق کرتا ہے۔ تا ہم اس نقشے میں ایسے نکات بھی ہیں جو غیر متوقع ہیں۔ یہ نقشہ مصنوعی سیارے پر نصب پلانک نامی دوربین سے 15 ماہ تک جمع کردہ ڈیٹا کی مدد سے تیار کیا گیا تھا۔

ایک اندازے کے مطابق کائنات کی عمر 3 ارب 77 سال ہے۔ حالاں کہ اس نقشے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات کی عمر 13 ارب 82 کروڑ سال ہے۔ کائنات میں موجود مادہ 37.7 فی صد ہے جو پہلے کے تخمینے سے تھوڑا سا زیادہ ہے اور سیاہ توانائی (ڈارک انرجی ) تھوڑی سی کم، ۔ سیاہ توانائی وہ طاقت ہے جو کائنات کو زیادہ رفتار سے پھیلا رہی ہے۔ اس تاریک قوت کے عمل پذیر ہونے سے کہکشاؤں کے درمیان طویل فاصلوں نے جنم لیا اور یہ ایک دوسرے سے بہ تدریج دوری اختیار کر گئیں۔

ماہرین نے اس نقشے میں بگ بینگ کے بعد رونما ہونے والی تقریباً تمام تبدیلیوں کو کسی طور جامعیت دینے کی بھی کوشش کی۔ سائنسدانوں کے مطابق اربوں سالوں کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد بھی یہ کائنات ابھی نوعمر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کائنات کے بارے میں ہمیں جتنا علم ہے وہ اس سے کئی گنا بڑی ہے۔ سائنس دانوں کی بین الاقوامی ٹیم خلا کی وسعتوں کا ازسر نو مشاہدہ کر رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق نئے مشاہدے کے ذریعے کائنات کے گہرے ترین رازوں پرسے پردہ اٹھ رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں بلیک ہولز پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان بلیک ہولز کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ یہ کسی نئی دنیا میں داخلے کے دروازے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).