ہینڈ آف گاڈ، نصف شیطان نصف فرشتہ اور ڈیگو میراڈونا



سال تھا 1986، فیفا ورلڈ کپ کا انعقاد میکسیکو میں کیا گیا۔ فٹبال پنڈت ارجنٹائن کی ٹیم کو ورلڈ کپ کے لیے اوسط درجے کی ریٹنگ دے رہے تھے، لیکن یہ پیش گوئی کرتے ہوئے تبصرہ نگار شاید یہ نظرانداز کر گئے کہ اس اوسط درجے کی ٹیم کو دنیا کے بہترین کھلاڑی ڈیگو میراڈونا کی خدمات حاصل تھیں جو ٹیم کی کپتانی بھی کر رہے تھے۔ ارجنٹائن کی ٹیم کوارٹر فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی، جہاں اس کا مقابلہ انگلش ٹیم سے ہونا تھا، یہ وہ زمانہ تھا جب برطانیہ اور ارجنٹائن کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ تھے۔

چند برس قبل ارجنٹائن کو فاک لینڈ کی جنگ میں برطانیہ سے شکست ہوئی تھی اور اس کے چھ سو سے زائد فوجی جنگ میں مارے گئے تھے۔ میراڈونا سمیت پورا ملک اس شکست پر مغموم تھا، ماحول کچھ ایسا ہی تھا جب سقوط ڈھاکہ کے بعد 79۔ 1978 میں پہلی مرتبہ ہندوستان کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ حسب توقع برطانیہ اور ارجنٹائن کے درمیان کھیلے جانے والے میچ کا درجہ حرارت کافی بلند تھا کروڑوں لوگ اس میچ کو دیکھنے کے لیے ٹیلیویژن اسکرینز پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔

پچاس منٹ تک دونوں ٹیمیں کوئی گول نہ بنا سکیں، اکاونویں منٹ میں ارجنٹائن کو برطانوی گول پر حملے کا موقع مل گیا، ارجنٹائن فارورڈز نے بال کک کے ذریعے ڈی تک پہنچا دی، جہاں میراڈونا بھوکے بھیڑیے کی طرح گیند پر نظریں جمائے کھڑے تھے۔ انگلش گول کیپر نے آگے بڑھ کر فضا میں موجود بال کو دبوچنے کی کوشش کی، دس نمبر کی شرٹ پہنے گٹھے ہوئے مگر مضبوط جسم کے مالک میراڈونا گول کیپر سے پھرتیلے ثابت ہوئے اور بال کو بظاہر سر کے ذریعے گول میں پہنچا دیا۔

انگلش کھلاڑیوں نے بہتیرا واویلا کیا کہ میراڈونا نے یہ گول سر نہیں بلکہ ہاتھ کے ذریعے سے کیا ہے، مگر ریفری نے برطانوی کھلاڑیوں کی ایک نہ سنی۔ اس وقت کی ناقص کیمرا تکنیک کے باوجود آج بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ میراڈونا نے یہ گول کرتے ہوئے صرف سر کا استعمال نہیں کیا تھا اور ضوابط کے مطابق بال کو ہاتھ لگانے کی پاداش میں میراڈونا کو پیلا کارڈ دیا جانا چاہیے تھا۔ بلاشبہ میراڈونا کا یہ گول دنیائے ساکر کا سب سے متنازع گول ہے جس پر شاید ہمیشہ بات ہوتی رہے گی۔

اس کے برعکس اسی میچ میں میراڈونا کا دوسرا گول ایک شاہکار گول تھا جسے صدی کا بہترین گول بھی کہا جاتا ہے، جب کھیل کے چونویں منٹ میں گول سے ساٹھ گز کے فاصلے سے میراڈونا نے گیند حاصل کی اور پانچ انگلش کھلاڑیوں کو چکما دیتے ہوئے عین گول کے سامنے پہنچ کر بال جال میں اچھال دی۔ ارجنٹائن نے برطانیہ کو کوارٹر فائنل میں دو کے مقابلے میں ایک گول سے شکست دے دی اور پھر سیمی فائنل میں ارجنٹائن نے بیلجیم اور فائنل میں مغربی جرمنی کو شکست دے کر 1986 کا ورلڈ کپ اپنے نام کر لیا۔

کوارٹر فائنل میں برطانیہ سے مقابلے کے بعد جب میراڈونا سے متنازعہ گول کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے معنی خیز انداز میں کہا کہ اس گول میں تھوڑا سا میراڈونا کا سر اور تھوڑا سا خدا کا ہاتھ شامل تھا۔ اس بیان کے بعد میراڈونا کے لیے ہینڈ آف گاڈ کی اصطلاح استعمال کی جانے لگی۔ بعد میں میراڈونا نے اعتراف کیا کہ اس ”ہینڈ آف گاڈ“ کی وجہ سے انہوں نے گویا انگلش فٹبالرز کی جیب کاٹ لی اور ارجنٹائن کی یہ فتح برطانیہ سے ایک علامتی بدلہ تھا، ہم ہر بات کا قصوروار انگلش کھلاڑیوں کو سمجھتے تھے، جہاں ان کا اشارہ فاک لینڈ کے معاملے پر برطانیہ کے ہاتھوں ارجنٹائن کی شکست پر تھا، وہ یہ مانتے تھے کہ یہ ایک بچگانہ بات تھی مگر میراڈونا کے مطابق انہوں نے برطانیہ کو کواٹر فائنل میں ہرا کر اپنے جھنڈے اور اپنی قوم کا دفاع کیا۔

سیاسی لحاظ سے میراڈونا سوشلسٹ خیالات کے حامل تھے، ان کا شمار کیوبا کے فیڈل کاسترو، وینزویلا کے ہوگو شاویز کے قریبی دوستوں میں کیا جاتا تھا۔ اپنے بائیں ٹانگ پر میراڈونا نے کاسترو اور بائیں بازو پر استعمار کے خلاف مزاحمت کی علامت چی گویرا کے ٹیٹو بنوائے ہوئے تھے، کھیل کے دوران خوشی کے اظہار اور احتجاج کرتے ہوئے میراڈونا اپنی شرٹ اتار دیا کرتے تھے جس سے چی گویرا کا ٹیٹو نمایاں ہو جایا کرتا تھا اور ان کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جاتا تھا۔

2007 میں ایرانی عوام سے یکجہتی کرتے ہوئے میراڈونا نے اپنی دستخط شدہ شرٹ پر ایرانی عوام کی حمایت کا پیغام کندہ کیا جو آج بھی ایرانی وزارت خارجہ کے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔ اپنے سیاسی خیالات، کوکین اور شراب کی لت میں مبتلا ہونے، اپنے رفاہی کام اور 1986 کے ورلڈ کپ کے کواٹر فائنل میں برطانیہ کے خلاف ایک ہی میچ میں صدی کا سب سے زیادہ متنازع اور سب سے بہترین گول کرنے کی وجہ سے میراڈونا کو نصف شیطان اور اور نصف فرشتہ کہہ کر بھی یاد کیا جاتا ہے۔

میراڈونا جس پسماندہ علاقے میں پیدا ہوئے وہاں بچے بڑے ہو کر گینگسٹر اور مجرم بنتے ہیں یا بہت اچھی قسمت لے کر آئیں تو پادری، شاید اسی لیے جب صدی کے بہترین فٹبالر کو نامزد کرنے کا وقت آیا تو فیفا میراڈونا کو نظرانداز نہ کر سکی۔ فیفا صدی کے بہترین فٹبالر کا اعزاز صرف ایک کھلاڑی کو ایک مرتبہ ہی دیتی ہے، لیکن گزشتہ صدی میں دو عظیم کھلاڑیوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ ایوارڈ برازیل کے پیلے اور میراڈونا دونوں کو دینا پڑا۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ میراڈونا نے ساٹھ سال کی عمر پائی یا پچاس کی، قدرت شاید ایسے لوگوں کو چن لیتی ہے جن سے چاہیں آپ محبت کریں یا نفرت لیکن زمانہ ان کو نظرانداز نہیں کر سکتا اور ڈیگو میراڈونا وہ نام ہے جن کے نقش پا وقت کی ریت سے شاید صدیوں تک نہ مٹائے جا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).