تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے


اگر تم سمجھ سکو تو سمجھو کہ خواہش پالنا، اور پھر ان کے انڈے بچوں سے مستفید ہونا کتنی بڑی نعمت ہے۔ اور یہ ادراک کہ تمہیں کیا غم ہے، کیا تکلیف ہے، کون سا مرض ہے۔ اور کس مرض میں مرنے کا امکان ہے۔ کیسا با برکت ہے

کرونا کا ٹیسٹ پازیٹیو آنا اور پھر قرنطینہ ہو جانا بھی کتنی بڑی عیاشی ہے۔ شکر گزاری کے جذبات سے دل اور روح منور ہونا اپنے آپ میں روحانی بالیدگی، سپردگی اور سرشاری کا بے کراں احساس ہے۔

پھر چاروں جانب دیکھ بھال کرنے اور فکر کرنے والے موجود۔ ایڑی سے چوٹی تک ایک ایک عضو کی تسکین کا ایک ایک سامان موجود۔ کل وقتی عیاشی بے حسی کو جنم دیتی ہے جس کی نمو کے لیے قدم قدم پر مددگار ہوتے ہیں۔ کانوں میں منتر، آیات، شعر، نغمے پرندوں کی مدھر آوازیں دوسرے جنم یا مرنے کے بعد کی بھی خوش خبریاں رس گھولتی رہتی ہیں۔

تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔

وراثت میں مفلسی ہاتھ آنے والوں کے ورثا، نیل گگن پر اڑنے والے پرندوں کی مانند ہوتے ہیں۔ پنکھ آتے ہی وہ اس کی جان سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ کسی غلیل سے مرے یا بھوک سے۔ طوفانی بارش سے بیمار پڑے، نڈھال ہو کر زمین پر گرے، کتوں کی خوراک بنے یا کسی درخت پر چیل اسے نوچ لے۔ منصوبہ بندی کے اشتہار کا کوئی ٹکڑا مل بھی جائے تو ان تین حرفیوں کو کیڑے مکوڑوں سے الفاظ کہاں سمجھ آتے ہیں۔ جز وقتی جبلی تسکین، کل وقتی تکان اور بھوک کو جنم دیتی ہے۔ سو یہ بھی نا آسودہ خواہشات کی کوکھ میں انڈے بچے رکھ کر بوکھلائے پھرتے ہیں۔

کوئی رہنما تو دور کی بات، کوئی پیغام بھی ان تک نہ پہنچ سکا۔ کہ یہ کار بد ہے، سعی لاحاصل ہے۔ ثواب بے لذت ہے۔ سماجی رہنما وؤں کو ہاٹ اشوز پر پریس کلب کے باہر احتجاج ضروری ہے، سیاسی رہنما ؤں کو مخالف سیاسی بیانات زندہ رکھتے ہیں۔ مذہبی رہنماؤں کو، توہین رحمت العالمین کرنے والوں کے سر تن سے جدا، عورتوں کو شرم و حیا، مردوں کو جنت میں شراب، حوروں تلقین جیسے کار اہم کرنے ہوتے ہیں۔

ان غریب بستیوں کے لوگ کیا جانیں کہ ان کی مفلسی کیسی دل فریب اور سود مند ہے۔ بھلے کسی نے ان کی بستی کی پگڈنڈی پر قدم نہ رکھا ہو پر ان کا ذکر ہی بہت ہے۔ اور جو قدم رکھ لے وہ مفلسی دیکھتا، سوچتا کم ہے کیمرے میں بھرتا زیادہ ہے۔

اخباری نمائندوں کو غریب بستیوں کی کوریج پر ایوارڈ اور نقد انعامات ملتے ہیں۔ غربت کی عکاسی کے خوب صورت اور درست اینگل کی تصاویر پر فوٹوگرافر بھی لائق تحسین و انعام ٹھہرتے ہیں۔

ننگ اور بھوک پنپتی رہے کہ امیروں کے ڈرائنگ رومز، سیاست دانوں کی تقاریر، مبلغ کے بیانات اور سماجی رہنماؤں کے احتجاج کو قوت یہ ہی ناتواں عطا کرتے ہیں۔

اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔

مگر کچھ اور بھی ہیں جن تک پہنچنا آسان ہے۔ لیکن ان کے پاس اپنے رہنماؤں کے لیے وقت نہیں۔ سیاسی، سماجی، مذہبی گہما گہمی سے بے خبر میرے دیس کے بہت سے مزدور بیلچہ، چھینی، برش، تگاری لے کر مشہور شاہراہوں کے پل کے نیچے مزدوری کی آس میں بیٹھے رہ کر شام کو مایوس لوٹنے ہیں۔ وہ محنت کش بھی جو ہمارے نصف ایمان کو مکمل کرنے کے لیے گٹر میں اتر کر بند نالی میں ہاتھ ڈال کر رکاوٹیں دور کر کے مزید گند کے اخراج کو راستہ دیتے ہیں۔ وہ جو کسی مزار کے باہر چپلوں کی رکھوالی پر معمور ہیں۔ کئی وہ جو سخت سردی گرمی میں چھپر کے نیچے جوتا ٹانکنے میں اپنے ہاتھ اور آنکھوں کو چین لینے نہیں دیتے۔ اور وہ جن کا بچپنا غلاظت کے ڈھیر سے کاغذ، بوتلیں اور ڈبوں کو بڑے سے تھیلے میں ڈال کر دیہاڑی کا تخمینہ لگاتے گزر جاتا ہے۔

تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).