وزیر اعظم کا ’ایک پیج‘ فوج کے لئے تہمت بن چکا ہے!


چند روز قبل آئی ایس پی آر نے پاک فوج میں اعلیٰ افسروں کے تبادلوں اور چھ میجر جنرلز کی لیفٹیننٹ جنرلز کے عہدوں پر ترقی کی خبر دی تھی۔ عام حالات میں یہ معمول کی اطلاع ہے۔ فوج میں جنرلز کی ریٹائرمنٹ کے بعد ترقیاں اور فوجی یونٹوں کی ضرورتوں کے مطابق تقرریاں روٹین کا معاملہ ہوتا ہے۔ تاہم پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول اور سیاست میں فوج کے کردار سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کی روشنی میں معمول کی یہ خبر بھی ملک میں طاقت کے توازن کو جانچنے کے مقصد سے پرکھی گئی ہے۔

فوج میں ترقیوں اور تبادلوں پر ہونے والے تبصرے اور قائم کیے جانے والے اندازے دراصل پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ جلسہ میں نواز شریف کی سخت تقریر اور اس میں جنرل قمر جاوید باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام لے کر سیاسی انجینئرنگ کے الزام کے مماثل سمجھے جا سکتے ہیں۔ ملک میں اس سے پہلے فوج پر براہ راست تنقید کا رواج نہیں تھا۔ اگرچہ اسٹبلشمنٹ کی اصطلاح کو اسی مقصد سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یا پھر خلائی مخلوق اور محکمہ زراعت جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے یہ کہنے کی کوشش کی جاتی تھی کہ غیر منتخب ادارے ملکی سیاست پر اثرانداز ہونے کے لئے سرگرم رہتے ہیں۔ یوں تو اشارتاً بھی ملک کے ایک قومی ادارے پر (جسے انتظامی لحاظ سے درحقیقت ادارے یا محکمہ کی حیثیت بھی حاصل نہیں ہے بلکہ وفاقی وزارت دفاع کے زیر انتظام ایک شعبہ ہے جو ملکی دفاع کے مقصد سے استوار کیا گیا ہے ) انگشت نمائی مناسب طریقہ نہیں ہو سکتا ۔

اس کے باوجود میڈیا رپورٹنگ ہو، سیاسی مباحث ہوں یا ملکی معاملات پر کسی دوسری طرح کی رائے دینا مقصود ہو، فوج کا حوالہ ایک اہم اور ایسی قوت کے طور پر دیا جاتا ہے جس کی مرضی اور اشارے کے بغیر کوئی فیصلہ یا پالیسی نہیں بنائی جا سکتی۔ اس کے علاوہ صرف آئی ایس پی آر کے ترجمان کی میڈیا بریفنگ یا پریس ریلیز کے ذریعے ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع جن میں دستاویزی فلمیں اور نغموں وغیرہ کی تیاری شامل ہے، فوج قوم کے شانہ بہ شانہ رہنے کا اعلان کرتی رہتی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ ففتھ جنریشن وار کے نام سے قومی معاملات میں پروپیگنڈا کی قوت کی طرف بھی اشارہ کرتے رہتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس خطرہ سے نمٹنے کے لئے پاکستانی عوام اور ملک کے سب شعبوں کو مل کر جد و جہد کرنا ہوگی۔

ان خیالات سے اتفاق کے باوجود ان مباحث کا یہ پہلو زیر بحث نہیں لایا جاتا کہ قوم و ملک کو لاحق ایسے خطرات سے نمٹنا فوج اور آئی ایس پی آر کا کام ہے یا ملک کی منتخب سول حکومت کو مختلف اداروں کے تعاون سے جن میں فوج بھی شامل ہے، کوئی جامع حکمت عملی بنانا چاہیے تاکہ طاقت کا محور وہی قوت یا ادارہ ہو جو ملکی آئین کے مطابق تمام معاملات کی نگرانی اور انہیں طے کرنے کا ذمہ دار ہے۔ یعنی وزیر اعظم اور کابینہ یہ سارے فیصلے اور اقدامات کرے۔ ضرورت پڑنے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے۔ کسی پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ کا نام لیتے ہوئے ہرگز یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اس سے مراد حکمران یا اس کی حلیف جماعتیں ہوتی ہیں۔ بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ برسر اقتدار پارٹی جس کا نمائندہ قائد ایوان کے طور پر ملکی وزارت عظمی ٰ پر فائز ہوتا ہے، قومی اہمیت کے ہر معاملہ میں پارلیمنٹ میں اپوزیشن پارٹیوں سے مشاورت کو ترجیحات میں شامل رکھے۔

پاکستان میں اس وقت جو نظام حکومت کام کر رہا ہے، اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ قومی اسمبلی اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈران شہباز شریف اور حمزہ شہباز نیب کے ذریعے زیر حراست ہیں۔ وزیر اعظم نہ صرف جیل میں ان کی زندگی اجیرن بنانے کی باتیں کرتے رہتے ہیں بلکہ گزشتہ دنوں انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ہدایت کریں گے کہ شہباز شریف کو پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونے کا موقع نہ دیا جائے۔ اس سے حکومت اور وزیر اعظم کی جمہوریت نوازی اور آئین پسندی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں پارلیمنٹ کیوں موثر کردار ادا کرنے اور فیصلوں میں قیادت کے قابل نہیں ہوتی۔

دوسری طرف ملکی انتظام کی یہ صورت حال بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ کسی بھی اہم معاملہ میں خواہ اس کا تعلق خارجہ امور سے ہو، معیشت سے ہو یا سلامتی سے متعلق معاملات ہوں، وزیر اعظم ایسی کمیٹیوں میں فیصلے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں فوجی قیادت شامل ہوتی ہے۔ یا پھر براہ راست آرمی چیف سے ملاقات کے ذریعے معاملات طے کیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان ملاقات کے بارے میں جاری ہونے والی خبروں یا تصاویر سے کبھی یہ اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو نے اپنی حکومت کے تحت کام کرنے والے ایک شعبہ کے سربراہ کو مشورہ کے لئے ’طلب‘ کیا تھا تاکہ کسی معاملہ پر فوج کا نقطہ نظر بھی معلوم کیا جاسکے۔ بلکہ ایسی خبریں اور تصویریں دو ’بڑوں‘ کی ملاقات کا تاثر پیدا کرتی ہیں۔ پاکستان میں سیاسی معاملات جس طرح طے کیے جاتے رہے ہیں اس کی روشنی میں یہ قیاس کرنا بھی مشکل نہیں ہوتا کہ ان دونوں میں سے حقیقی ’بڑا‘ کون ہے۔

اہل پاکستان کو ہمسایہ ملک بھارت سے مقابلہ کرنے اور اپنی کامیابی کو ثابت کرنے کے لئے بھارت کی ناکامیوں کا حوالہ دینے کا بہت شوق رہتا ہے۔ یہ حوالہ سرکاری بیانات سے لے کر سیاسی گفتگو میں سامنے آتا رہتا ہے کہ پاکستان ایٹمی قوت و عسکری صلاحیت سے لے کر زندگی کے دیگر شعبوں میں کس طرح بھارت سے بہتر ہے۔ تاہم کبھی یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ بھارت کا وزیر اعظم اہم قومی معاملات پر مشاورت کے لئے کیوں اپنی فوج کے سربراہ سے سر جوڑ کر نہیں بیٹھتا۔ یا کسی بھی غیر ملکی مہمان کی آمد پر وہ مہمان بطور خاص بھارتی افواج کے ہیڈ کوارٹرز میں آرمی چیف سے ملاقات کیوں نہیں کرتا؟ پاکستان یا چین کے ساتھ تصادم کی صورت میں یا کسی دوسرے اہم دفاعی و سلامتی معاملہ پر گفتگو کے لئے سیاسی لیڈروں کو اگر عسکری قیادت کا ’ان پٹ‘ لینے کی ضرورت محسوس ہو تو وزیر دفاع مسلح افواج کے سربراہان سے ملاقات کرتا ہے۔ یعنی ایسی کسی ملاقات میں فوج، ائر فورس اور بحریہ کے سربراہان برابری کی بنیاد پر وزیر دفاع سے ملتے ہیں اور اپنے اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کرتے ہیں۔ ان ملاقاتوں کی کبھی کوئی تصویر سامنے آ جائے تو یہ بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ کسے ’باس‘ کی حیثیت حاصل ہے۔

قومی زندگی میں یہ رسمی اشارے ہوتے ہیں لیکن ان کے ذریعے کسی ملک سے بہت دور بیٹھا شخص بھی یہ اندازہ کر سکتا ہے وہاں فیصلے کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ پاکستان میں یہ طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ وزیر اعظم کی آرمی چیف یا فوج کے دیگر شعبوں کے سربراہان (ان میں آئی ایس آئی سر فہرست ہے ) سے مشاورت تو معمول کی بات ہے لیکن فضائیہ یا بحریہ کے سربراہوں کے ساتھ ایسی ملاقاتوں کا نہ تو اہتمام کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی تشہیر کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ ان باتوں کو شاید زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے لیکن سیاست اور فوجی قیادت کے تال میل کے بارے میں مسلسل مباحث کے سبب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلح افواج میں سے صرف بری افواج کو ہی کیوں قومی معاملات میں قائدانہ کردار دینے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے؟

ملکی اپوزیشن اس وقت فوج کے غیر آئینی کردار کا حوالہ دے رہی ہے اور پی ڈی ایم کے بینر تلے اس کی حالیہ احتجاجی مہم کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ فوج نے سیاسی معاملات میں فیصلہ سازی کا کردار سنبھالا ہوا ہے۔ اب اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے ایک تو آئینی تقاضوں کے مطابق پارلیمنٹ فعال کردار ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ دوسری طرف فوجی سرپرستی کی وجہ سے قائم ہونے والی سیاسی حکومت فیصلہ سازی میں اپوزیشن کو خاطر میں لانے پر تیار نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کا پارلیمانی نظام اور ووٹر کی رائے کا احترام خطرے میں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں قائم حکومت اسے ’ایک پیج‘ کا کرشمہ کہتی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ سول اور فوجی قیادت کے درمیان ملکی تاریخ کا مثالی تعاون موجود ہے جو اس سے پہلے سیاسی لیڈروں کی بدعنوانی کی وجہ سے دیکھنے میں نہیں آیا۔

موجودہ سیاسی منظر نامہ میں عمران خان کے اس موقف کو پرکھا جائے تو یہ جاننے میں دیر نہیں لگے گی کہ فوج کی خود مختار اور غیر جانبدار سیاسی حیثیت اور قومی ادارے کے طور پر اس کے کردار کو جتنا نقصان موجودہ حکومت اور اس کے نمائندوں کی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی نے پہنچایا ہے، وہ اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ حالانکہ ماضی میں بھی شاید سول حکومتیں فوجی قیادت سے ایسا ہی ’تعاون‘ مانگتی رہی ہوں لیکن اس کے اظہار میں احتیاط اور سوجھ بوجھ سے کام لیا جاتا تھا۔ عمران خان کو جب سیاسی دباؤ محسوس ہوتا ہے تو وہ یہ دعویٰ کرتے دیر نہیں لگاتے کہ آرمی چیف ان کی ہدایت پر ہی اپوزیشن سے ملتے ہیں یا وزیر اعظم ہی کی ہدایت پر کراچی میں سندھ پولیس کے آئی جی کو اٹھانے کے معاملہ پر پیش قدمی ہوئی تھی لیکن عملی طور سے موجودہ حکومت کا ہر پہلو میں فوج کے تعاون، امداد اور رہنمائی کا محتاج ہے۔

یہ صورت حال محض ایک حکومتی شعبہ کے طور پر حکومت وقت کی مدد کرنے یا اس کا حکم ماننے تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عوام کی منتخب حکومت عسکری قیادت کا سایہ بن چکی ہے۔ ایسے میں فوجی قیادت پر سیاسی مداخلت کے الزامات صرف سیاسی ضرورتوں کے لئے بیان بازی سے بڑھ کر ہیں۔ خاص طور سے براہ راست الزامات کے بعد بھی فوج کی طرف سے وضاحت یا تردید سامنے نہ آنے پر شبہات کی دھند گہری ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج کے حوالے سے معمول کی خبر بھی چہ مگوئیوں اور قیاس آرائیوں کا سبب بنتی ہے۔ اس طرح فوج کی شہرت اور قومی ادارے کے طور پر اس کا کردار غیر ضروری طور سے بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ فوج کی ساکھ اور اس ادارے کی نیک نامی کے لئے یہ تاثر ختم کرنا اہم ہے۔ جاننا چاہیے کہ اس وقت وزیر اعظم کا ’ایک پیج‘ اور اس منسلک بیانیہ فوج کے لئے تہمت بن چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali