کھانے کو دو ہزار سال تک محفوظ کیسے رکھا جائے؟


کہا جاتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کوڈ 19 کا دور دنیا کا بدترین دور ہے۔ اس وبا کی روک تھام کے لیے پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کا طریقہ اپنایا گیا، لوگ گھروں میں قید ہیں اور بیرونی دنیا مکمل طور پر بند ہو گئی ہے۔

پیداوار بند ہونے سےخوراک کی اشیا کی سپلائی بھی متاثر ہوئی ہے۔ ایسی صورتحال میں لوگ، خاص طور پر گھر سے دور یا ہاسٹل میں رہنے والوں کے پاس صرف ایک ہی سہارا تھا کہ وہ ریڈی ٹو میڈ یا ڈبے والا کھانا کھائیں لیکن اگر یہ کھانا بھی خراب ہو گیا تو کیا ہوتا؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کھانے کو اچھی طرح سے محفوظ کیا جاتا ہے تو پھر اسے اپنے تمام غذائی اجزا کے ساتھ سالوں سال تک صحیح سلامت رکھا جا سکتا ہے۔

کوئی بھی کھانا اُس میں جراثیم پیدا ہونے کی وجہ سے خراب ہوتا ہے۔ اگر بیکٹیریا کو کھانے میں پیدا ہی نہ ہونے دیا جائے تو پھر اسے کسی بھی وقت استعمال کیا جاسکتا ہے۔

کھانا کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟

انسان صدیوں سے کھانے پینے کی چیزوں کو طویل عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے مختلف نسخے آزماتا آیا ہے۔

مثال کے طور پر کھانا خشک کر کے، اس میں نمک یا چینی شامل کر کے ،کیمیائی اجزا کے ذریعے یا بند ڈبوں میں محفوظ کیا جاتا رہا ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن میں کھانے کے ماہر مائیکل سولو کا کہنا ہے کہ کھانا خشک رکھنا بہترین طریقہ ہے۔ کھانا خشک کرنے سے اس میں بیکٹیریا کی نشوونما ختم ہوجاتی ہے۔

کھانے کو ایئیر ٹائٹ کنٹینر میں رکھنے سے بھی اس میں ایسے بہت سے بیکٹیریا پیدا ہوسکتے ہیں جو کم ہوا میں پنپتے ہیں۔ مثال کے طور پر گوشت کو اینیروبک قسم کے بیکٹیریا خراب کرتے ہے اور یہ جراثیم کم آکسیجن میں پنپتے ہیں۔

مزید پڑھیے

ویلز میں قدیم رومی دور کے قلعوں اور سڑکوں کا انکشاف

خوراک کا ضیاع کم کرنے کے سات طریقے

چائنیز کھانوں میں نمک کی مقدار صحت کے لیے مضر

کھانے میں نمک ڈال کر بھی اسے محفوظ کیا جاسکتا ہے لیکن یہ طریقہ بہت موثر نہیں ہے۔ اسے ہر طرح کے کھانے میں استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن گوشت کو خشک کرکے نمک لگانے سے لمبے عرصے تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

چینی کی ایک موٹی پرت لگا کر بھی کھانا طویل عرصے تک رکھا جاسکتا ہے۔

دراصل خالص شوگر کسی بھی قسم کے بیکٹیریا کو پنپنے نہیں دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹافی، چاکلیٹ یا زیادہ میٹھی چیزیں طویل عرصے تک رہ سکتی ہیں۔

لیکن جیسے ہی چینی میں دوسری چیزیں جیسے گری دار میوے، دودھ ، یا انڈا وغیرہ شامل کر دیے جائیں تو کھانے کی عمر کم ہو جاتی ہے۔

ہزاروں سال پرانا طریقہ

آئس لینڈ میں میک ڈونلڈ کا بگ میک برگر شاید سب سے زیادہ مشہور اور محفوظ شدہ کھانے کی واحد مثال ہے۔

وہاں برگروں کو ایسے شیشے کے ڈبے میں رکھا گیا تھا جو ہوا کی مقدار کو محدود کرتا ہے اور اس میں پرزرویٹوز بھی شامل کیے گئے تھے جو بیکٹیریا کو پنپنے نہیں دیتے تھے۔

انھیں طویل عرصے تک سپر مارکیٹوں میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کھانوں میں ایسے فوڈ پرزرویٹوز ڈال دیے جاتے ہیں جو کھانے کو سڑنے نہیں دیتے۔

شوگر میڈ ٹونکی ایک ایسا ناشتہ ہے جسے بہت پسند کیا جاتا ہے اور اسے گھر میں طویل عرصے تک استعمال کیا جاسکتا ہے۔

food

شہد کے بارے میں کیا کہنا، یہ ساری عمر خراب نہیں ہو سکتا۔ اس میں پانی کی مقدار تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے اور اس میں ایسے قدرتی پریزرویٹیو موجود ہیں جو اس میں بیکٹیریا کو پنپنے نہیں دیتے۔

دنیا کے قدیم ترین شہد کے نمونے مصر کے توتن خامن کے مقبرے اور جارجیا میں بڑپن کی قبر میں پائے گئے ہیں۔ ان کی عمر 3،000 سال ہے۔ کھانے کو محفوظ کرنے کا طریقہ آج بھی کم و بیش وہی ہے جو ہزاروں سال پہلے تھا۔

زمین میں دبا کر یا برف میں رکھ کر

زیادہ چکنائی والی اشیا جیسے تیل، مکھن اور گھی وغیرہ کو بھی طویل عرصے تک محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ باگ مکھن خمیر کے ساتھ ایک خاص قسم کا مکھن ہے۔

آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ میں اس مکھن کے 4000 سال پرانے کنٹینر ملے ہیں جنھیں دلدلی زمین میں دبا کر رکھا گیا تھا۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ قدیم لوگ مکھن یا جانوروں کی چربی کو کسی اصول یا عقیدے کے تحت دفن کرتے تھے۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس چربی کو چوروں سے بچانے یا طویل عرصے تک اس کے استعمال کے لیے اسے دلدلی زمین میں دفن کیا گیا تھا۔

شراب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شراب جتنی پرانی ہے اتنی ہی بہتر ہے۔

دنیا کی سب سے قدیم شراب کی بوتل جرمنی کے شہر اسپائر کے ایک قدیم رومن مقبرے میں ملی ہے۔

یہ بوتل تقریباً 1700 سال پرانی ہے لیکن اس بوتل میں موجود شراب کو آج تک نہیں چکھا گیا۔ اس کے علاوہ شیمپین کی قدیم ترین بوتلیں 200 سال پرانی ہیں جن کا ذائقہ آج بھی بہت اچھا ہے۔

food

اگر گوشت کو بہت کم درجہ حرارت یا برف میں رکھا جائے تو یہ زیادہ دن کھانے کے قابل رہ سکتا ہے۔

پہاڑوں کی برف میں ایسے بہت سے بڑے ہاتھیوں، بڑے جانوروں کی لاشیں ملی ہیں جو کئی صدیوں سے برف میں دبے ہوئی تھیں اور جب برف کو ہٹایا گیا تو ان کا جسم یا گوشت بالکل ٹھیک حالت میں تھا۔

یہاں تک کہ انکا رنگ بھی نہیں بدلا تھا لیکن جیسے ہی برف پگھلی ان میں تبدیل آنی شروع ہو گئی۔ البتہ مچھلی کو دیر تک برف میں رکھنا مشکل ہوتا ہے۔

برف میں زیادہ دیر تک جمے رہنے سے مچھلی کے پٹھوں میں کئی قسم کی کیمیائی تبدیلیاں ہونے لگتی ہیں جو اس کا ذائقہ ختم کردیتی ہیں۔

لیکن آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے لہذا اسے ٹیکنالوجی کی مدد سے طویل عرصے تک بھی محفوظ کیا جاسکتا ہے۔

آج دنیا ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے لیکن پھر بھی زندگی چل رہی ہے۔

اگر مستقبل میں بھی ایسی ہی صورتحال پیدا ہوجائے اور تازہ کھانے کی فراہمی مکمل طور پر بند ہوجائے تو گھر میں رکھا ہوا خشک کھانا یا کسی بھی سپر مارکیٹ سے پیکڈ کھانا لیکر پیٹ بھرا جاسکتا ہے بھلے ہی وہ طویل عرصے سے رکھا ہوا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp