جنسی مساوات اور ہمارے فکری تضادات


\"zulfiqar-haider\"کچھ روز قبل اسلام آباد کے ایک پوش سکول میں سالانہ کھیلوں کی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا۔ تقریب کےاختتام پر قومی سطح پر ملک کی نمائندگی کرنے والے تیکونڈو کے نوعمر کھلاڑیوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ان کھلاڑیوں میں لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ پیغام واضح تھا کہ ایک ہی جنس کی جنسی فوقیت کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیئے۔ مظاہرے کے دوران ایک مختصر سا خاموش کھیل بھی پیش کیا گیا۔ جس میں چند لفنگے جو لڑنے کے فن میں طاق تھے، ایک لڑکی کا بیگ چھین لیتے ہیں۔ وہ لڑکی بھی تیکونڈو جانتی تھی اور اپنا بھرپور دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ ان سب کو پچھاڑ کر وہ اپنا بیگ واپس لے لیتی ہے۔ ایک بار پھر قابل فہم پیغام ملا کہ لڑکیوں کو اپنا دفاع کرنا آنا چاہئیے۔ کہانی ذرا آگے چلتی ہے۔ لڑکی اپنا بیگ لے کر جانے لگتی ہے تو لفنگوں کا سرغنہ نمودار ہوتا ہے اور لڑکی کی درگت بنا کر بیگ اس سے دوبارہ چھین لیتا ہے۔ لڑکی روتی، منہ بسورتی چل پڑتی ہے تو اچانک اسے ایک مسیحا نما نوجوان ملتا ہے۔ وہ اپنا دکھڑا اسے سناتی ہے تو وہ ہمدردی، جرات، مردانگی اور تیکونڈو سے لبریز اس کی مدد کرتا ہے اور لفنگوں کے سرغنے کو ادھ موا کر چھوڑتا ہے۔

مکمل کھیل کاپیغام یہ نکلا کہ عورت جتنی بھی خودمختار، آزاد اور باصلاحیت ہو، آخرکار اسے ایک مرد کا سہارا ڈھونڈنا ہی پڑے گا اور وہی اس کانجات دہندہ ہو گا۔ اس تشریح پر مدافعانہ دلائل کی یقینا کوئی کمی نہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ عورت کو خود اپنا محافظ دکھاتے دکھاتے اور جنسی مساوات کا شعور اجاگر کرتے کرتے ہم کیسےجانے یا انجانے میں اپنے فکری تضادات آشکار کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر اسی قسم کی صورت حال ایک لڑکے کو پیش آئے تو کیا یہ دکھایا جائے گا کہ اس کی مدد کے لئے ایک لڑکی موجود ہے؟ ایک لڑکی کا ایک لڑکےکی مدد پر انحصار جنسی عدم مساوات کی سوچ کو تقویت دیتا ہے نہ کہ اس کو ایک برابر، خودمختار، مکمل فرد کے طور پر پیش کرتا ہے۔

سیمون دی بووا کا ایک مشہور جملہ ہے کہ عورت پیدا نہیں ہوتی بلکہ بنائ جاتی ہے۔ آج کل کے ترقی یافتہ دور میں جب بچوں کی جنس کا تعین ان کی پیدائش سے پہلے ممکن ہے، عورت بنانے کا عمل قبل ازپیدائش ہی شروع ہو جاتا ہے۔ پیدا ہونے والے بچے کے حوالے سے الفاظ کا چناو، کھلونوں کا انتخاب، لباس کی ترجیحات، حتی کہ خوراک اور مستقبل کے حوالے سے سرمائے کا استعمال روز اول سے ہی جنسی تفریق کےحوالے سے بچوں کے ذہن میں ایسے لکیریں کھینچ دیتا ہے جیسے ایک بڑھئی کی چھینی لکڑی پر انمٹ نشان بنا دے۔ جدید زندگی کے تقاضے اور نئے خیالات کا سیل رواں روایت کی ان کھینچی ہوئی لکیریوں کےخدوخال تہہ وبالا کرتے ہیں۔ معاملہ اگر \”ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر\” والا ہو تو ماضی سے مستقبل کا سفر فکری گومگو میں ہی ہو گا اور وہ تضادات جنم لیں گےجن کی ایک مثال اوپر بیان کیا گیا واقعہ ہے۔

وہ معاشرے جہاں جنسی مساوات کی روایات کافی حدتک پنپ چکی ہیں وہاں اکثر خواتین بضد ہوتی ہیں کہ انھیں عورت سمجھنے سے پہلے انسان سمجھا جائے اور مرد سے مختلف نہ گردانا جائے۔ مثال کے طور پر اگر ایک عورت کے پاس سامان زیادہ ہو اور آپ اپنی مردانگی سے مجبور اس کی مدد کرنا چاہیں تو عین ممکنات میں سے ہے کہ وہ خاتون اس بات کا برا مان جائے۔ اس برا ماننے کے عمل کے پس پردہ آپ کے جذبہ ہمدردی کو رد کرنا نہیں بلکہ ہمدردی کے محرک اس یقین کو دھتکارنا ہے کہ ایک عورت مرد سے کہتر ہے اور اسے ہر وقت ایک مرد کی مدد کی ضرورت ہے۔ گھٹن زدہ معاشروں میں کون کون سی جبلتیں عورت کے احترام اور اسے اعلی مقام دینے کے جذبات کا لبادہ اوڑھ لیتی ہیں، یہ سب مرد اور عورتیں جانتے اور سمجھتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ کسی خاص ثقافت اور معاشرے میں پلے بڑھے محاورے اپنے اندر صدیوں کی دانائی سموئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اوپر کی گئی تمام باتوں کی بجائے شاید غالب کا وہ ضرب المثل مصرع کافی ہوتا \”دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے\”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments