مصطفیؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام


(رضوانہ قائد)\"masjid-nabawi\"

ربیع الاول کا ماہِ مبارک، اس عظیم الشان انسانﷺ کی ولادتِ با سعادت کا مہینہ ہے جو زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے رحمت بن کر آیا۔ جس کی اطاعت میں ہر فرد قوم و ملت اور تمام بنی نوع انسان کے لیے بلا امتیاز سلامتی ہی سلامتی ہے۔ یہ دن ہر سال حیاتِ مصطفیﷺ کی ایمان افروز یادیں لیے ہوئے آتا ہے۔ عاشقانِ رسولﷺ اپنے اپنے انداز سے اس بہارِ رحمت پر خوشیاں مناتے ہیں اور اس یاد سے گویا آپ ﷺ سے محبت و عقیدت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یاد یا تذکرۂ رسولﷺ کا طریقہ دورِ نبویﷺ سے لے کر آج کے زمانے تک بتدریج بدلا۔ مگر تذکرۂ رسول ﷺ نہیں صرف طرز ہی بدلے ہیں۔ صحابہء کرامؓ کی محفل میں حضورﷺ ذکر کی ایک آیت ہی پڑھ دینا کافی تھا اور سارا قرآن ان کے سامنے روشن ہو جاتا تھا۔ پھر اس آئینے میں نبی ﷺ کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، کھانے پینے کے تمام ہی انداز ان کی آنکھوں سامنے متحرک ہو جاتے۔ یہ چیز آپﷺ کے عقید تمندوں کے لیے ایک جانب تذکرۂ رسولﷺ تھا تو دوسری طرف آپ ﷺ کی فرماں برداری کے لیے کامل ترغیب بھی۔ لیکن پھر بعد کے آنے والے، جو آپ کی زیارت اور صحبت سے فیضیاب نہ تھے، ان کے سامنے تذکرۂ رسول ﷺ کا حق ادا نہیں ہو سکتا تھا، جب تک کہ آپ ﷺ کی باتیں پوری تفصیل کے ساتھ بیان نہ کی جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ محبانِ رسول ﷺ نے اپنے محبوب ﷺ کی ایک ایک بات محفوظ کی۔ آپ کی ہر ادا، انداز اور حلیہ ء مبارک تک نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ قرآن پاک میں انبیاء و مرسلین کا تذکرہ اللہ تعالی نے نہ صرف خود بار بار کیا ہے بلکہ حکم دیا ہے کہ ان کو یاد کرو اور دوسروں کو یاد دلاؤ اور جو کچھ تم نے ان سے پایا ہے وہ دوسروں تک پہنچاؤ۔
چنانچہ حجتہ الوادع کے موقع پر حضور ﷺ نے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو مخاطب فرما کر ہدایت دی تو اختتمام پر فرما یا :’’جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان ہدایات کوان لوگوں تک پہنچائیں جو حاضر نہیں ہیں۔ ‘‘
اس حکمِ نبوی ﷺ کی تعمیل صحابہ ء کرامؓ نے جس اہتمام اور عشقِ رسول ﷺ سے سرشار ہو کر کی اس کی مثال تا قیامت ناممکن ہے۔ صحابہء کرامؓ کے ابتدائی زمانے میں روایتِ احادیث کا طریقہ ہی ابلاغِ حق، امر بالمعروف و نہی عنِ امنکر اور تذکرۂ رسولﷺ تھا۔ یہی تاریخِ اسلام بھی ہے اور اسوۂ حسنہ بھی۔ لہذا صحابہؓ و صحابیاتؓ کی محفلوں میں حضور ﷺ کی تعلیم اور سیرت النبیﷺ کے بیان کو دعوت و تربیت کا اہم کام سمجھا جاتا تھا۔ عہدِ رسالت کے بعد، نبی کریمﷺ کی زیارت وصحبت سے محروم نئے آنے والے مسلمان اسوۂ حسنہ اور دعوتِ حق کے متلاشی ہوئے۔ صحابہ کرامؓ نے حضور ﷺ کی ذات اقدس ﷺ کو مرکزی حیثیت سے پیشِ نظر رکھ کر آپ ﷺ کا اسوہ، طریقہ ء تعلیم اور دعوتِ دین کا ابلاغ کا کام جس قوت کے ساتھ شروع کیا وہ بلا شبہ رفع ذکر ﷺ اورُ حبِ رسول ﷺ کی بہترین مثال ہے۔ اس کا لازمی اثر یہ نکلا کہ بات تقریر سے تحریر تک پہنچی۔ یہ مرحلہ (بَلِغُوعنیِ)’’پہنچاؤ مجھ سے‘‘کے حکم کی پیروی میں ’’عشقِ رسولﷺ کی سر شاری اور جوابدہی کے احساس کے ساتھ طے ہوا، کہ ایک طرف مستند تفا سیر سامنے آئیں تو دوسری جانب احادیث کے مستند مجموعے ترتیب دیے گیے۔ پھر ان کی مدد سے اسلامی اصول و قوانین ’’فقہ‘‘ کی صورت میں مرتب ہوئے۔ یقیناًآج دنیا کے انسانوں کا اس دینِ رحمت کی طرف لپکنا اور مسلمانوں کا اپنے دین کو آسانی کے ساتھ پھیلانا، ان ہی اصحابؓ کے عشقِ رسولﷺ کا ثمرہ ہے۔
آج کی جدید دنیا کے طول و عرض میں ہم آپ سمیت ایک ارب سے زائد عاشقین رسول ﷺ موجود ہیں۔ نبی ﷺ سے محبت و اطاعت کو اپنے ایمان کی تکمیل جانتے ہیں۔ عقیدت و احترام سے آپ ﷺکی کامل سلامتی کے ذریعے گویا دل و جان سے آپ کا ساتھ دینے، آپ کی مخافت سے بچنے اور سچی فرماں برداری کا اظہار کرتے ہیں۔ آپﷺ کی سنت اور اسوہ پر ثواب کی نیت سے عمل بھی کرتے ہیں۔ مگر عام طور پر اس حد تک کہ آپﷺ جیسا لباس، کھانے پینے، سونے جاگنے، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے کے آداب اختیار کرلیتے ہیں۔ یقینا، اپنے اخلاق آپ ﷺ کے رنگ میں رنگنا باعث سعادت ہے۔ لیکن اگر ہم آپﷺ کی سب سے بڑی اور اہم سنت دعوتِ دین کونہ اپنا سکیں تو آپ ﷺ سے محبت اور آپ ﷺ کی سلامتی کے حقیقی دعویدار بن سکتے ہیں؟
آپﷺ اپنے رب کے رسول تھے اور اسی رب کی طرف سے اس کے بندوں کو دعوت دینا ہی آپﷺ کا مقصدزندگی تھا۔ غارِ حرا میں وحی اور اولین ہدایت سے لے کر زندگی کے آخری لمحے تک، آپ ﷺ کا رِ دعوت و رسالت کی متحرک تصویر بنے رہے۔ ہر ہر لمحہ یہی فکر، اسی کیُ دھن، اسی کا احساس، اسی کے لیے تمام تر تعلقات و معاملات، اسی کے لیے ہر جدو جہد۔ کہ رب کی دعوت اس کے بندوں تک بلا کم و کاست پہنچ جائے ‘‘۔ پھر اس عظیم مشن کے مقابلے میں مشکلات پر صبر کی ایک داستان سامنے آتی ہے۔
قریبی عزیز و اقارب کی بے وفائی۔ شہرِ عزیز کی گلیوں میں رسوائی۔ کوہِ صفا سے دلیرانہ دعوتی پکار۔ عکاظ کے میلوں میں دعوتی گشت۔ شعب ابی طالب کی سختیاں۔ طا ئف کی پتھریلی وادی میں آبلہ پائی۔ بدرو حنین اور اُحدو حدیبیہ کے میدان کارزارمیں ثابت قدمی۔ پھراُمت کی بخشش کے لیے نالہء نیم شب۔ کچھ بھی تو آپﷺ کو اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹا سکا۔
پھر حیاتِ مبارکہ میں عرفات کا وہ میدان بھی ہے۔ یہاںآپ حجتہ الوداع کے موقع پر تقریبا سواً لاکھ کے مسلمانوں کے مجمع سے مخاطب ہیں۔ اپنی دعوت و رسالت کے حق کو ادا کرنے پر رب کے سامنے جوابدہی کے لیے امت سے معلوم کرتے ہیں۔ تمام مجمع یک زبان ہے’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے رسالت کا حق ادا کر دیا۔ نصیحت کا کام پورا کردیا۔ امانتِ الہی (دعوتِ دین) کو کما حقۂ ہم تک پہنچا دیا۔ ‘‘آخر میں آپ ﷺ تین بار انگشت شہادت اٹھا کر اپنے رب کو بھی اس پر گواہ بناتے ہیں۔
قرآن کی رو سے مسلمان اور آپ ﷺ کے امتی ہونے کی حیثیت سے ہم اسی دعوتِ دین کی ادائیگی کے لئے اپنے گرد و پیش کے انسانوں کے سامنے خدا کے حضور گواہی کے جوابدہ ہوں گے۔
آج آپ ﷺ کی آمد کی خوشی میں، ایک جانب عقیدت و محبت کا روز افزوں اور چکاچوند پرچار ہے۔ درود و سلام کے نذرانے کی رنگا رنگ پر تکلف محافل ہیں، دوسری جانب۔ کشمیر، شام، فلسطین، برما۔ اور دنیا ک بیشتر حصوں میں ظلم کے نظام تلے سسکتی دم توڑتی انسانیت ہے۔
انسانی گروہوں کے درمیان اس بڑھتے ہوئے فرق کو ختم کرنے کے لیے، آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ ک کسی پہلو کی یاد۔ ہمیں بھی کھبی آپﷺ کی طرح لرزاتی ہے۔ ؟ انسانیت کو تکالیف سے بچانے کی خاطر، آپ ﷺ کے لہو لہان جسم کی کسک نے، ہمیں بھی کبھی اس طرح تڑپایا۔ ؟
انسانیت کے غموں کے مداوے کی خاطر۔ رات کی تاریکی یا دن کے اجالے میں کم از کم پانچ مرتبہ نمازوں میں درود و سلام پڑ ہتے ہوے۔ دلِ گرویدہ نے۔ آپ ﷺ کی سنت۔ آپ ﷺ کی امت کی سلامتی ک لیے کمر بستہ کیا۔ ؟
سلام اس ﷺ پر جو دنیا کے لئے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اسﷺ پر کہ جس کی ذات فخرِ آدمیت ہے
درود اس ﷺ پر کہ جس کے تذکرے ہیں پاکبازوں میں
درود اسﷺ پر کہ جس کانام لیتے ہیں نمازوں میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments