سیاست و عدالت: کون کون کٹہرے میں کھڑا ہوگا؟


حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی الزام تراشی کا سلسلہ حسب معمول جاری ہے ۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ملتان میں پی ڈی ایم جلسہ کے دوران سخت گیر اقدامات کرنے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے جبکہ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے واضح کیا ہے کہ حکومت پابندی کے باوجود 13 دسمبر کو لاہور کا جلسہ تو نہیں روکے گی لیکن اس کا اہتمام کرنے والے لیڈروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

کابینہ کے اجلاس کے بعد منعقد ہونے والی پریس کانفرنس میں وزیر اطلاعات نے زیادہ وقت اپوزیشن کی غیر ذمہ داری، ہٹ دھرمی اور مفاد پرستی پر روشنی ڈالتے ہوئے صرف کیا اور کہا کہ اپوزیشن نے عوام کی زندگیاں داؤ پر لگا کر ملتان کا جلسہ منعقد تو کیا لیکن وہاں پر عوامی بہبود کی ایک بھی بات سامنے نہیں آئی۔ بس یہی دکھائی دیتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر اپنی بدعنوانی سے حاصل دولت کو بچانے کے مشن پر نکلے ہیں۔

شبلی فراز کے ان الزامات کے جلو میں سپریم کورٹ سے دو خبریں موصول ہوئی ہیں جنہیں ملک میں جاری سیاسی تصادم کی روشنی میں پڑھا جائے تو دلچسپ تصویر بنتی ہے۔ ایک تو سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے اپنے معزول کئے جانے کے خلاف آئینی درخواست کی سماعت کے لئے لارجر بنچ تشکیل دیا ہے۔ صدر پاکستان نے اکتوبر 2018 میں سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلہ کے مطابق شوکت عزیز صدیقی کو برطرف کردیا تھا۔ ان پر 21 جولائی 2018 کو راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی پر عدالتی معاملات میں مداخلت کرنے اور ججوں پر دباؤ ڈالنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے ان کے خلاف ریفرنس پر سرعت سے کارروائی کرتے ہوئے اس تقریر کے بارے میں کہا تھا کہ ’یہ ایک جج کے شایان شان نہیں تھی‘۔ اسی الزام میں شوکت عزیز صدیقی کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ سے موصول ہونے والی دوسری دلچسپ خبر ملک میں تحریک انصاف حکومت کی شجر کاری مہم کے بارے میں ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمی کے دو رکنی بنچ نے اس معاملہ میں سارا ریکارڈ طلب کیا ہے اور جنگلات کی ابتر صورت حال پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو شدید نکتہ چینی کا نشانہ بنایا ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ حکومت کے بلین ٹری سونامی پروگرام کے تحت اسلام آباد میں پانچ لاکھ جبکہ ملک بھر میں 430 ملین کے لگ بھگ درخت لگائے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے ان معلومات پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اسلام آباد میں ہمیں تو شجر کاری دکھائی نہیں دیتی، لگتا ہے سارے درخت بنی گالہ میں ہی لگا دیے گئے ہیں‘۔ ملک میں کئی سو ملین درخت لگانے کے دعوے کے بارے میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اگر کئی سو ملین درخت لگائے گئے ہوتے تو ملک کی تقدیر بدل جاتی‘۔ واضح رہے حکومت نے اس منصوبہ پر 110 ارب روپے صرف کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم اس حوالے سے بدعنوانی کی شکایات بھی موصول ہوتی رہی ہیں۔

عدالت عظمی میں کسی معاملہ پر غور کے دوران ججوں کے ریمارکس کی کوئی قانونی حیثیت تو نہیں ہوتی لیکن ایک ایسی حکومت کی کارکردگی اور نیک نیتی کے بارے میں چیف جسٹس کے سنگین ریمارکس تصویر کا ایسا رخ سامنے لاتے ہیں جو حالات کار کی ویسی ہی صورت پیش کرتی ہے جو کسی بھی حکومت کے دور میں دیکھی یا سنی جا سکتی تھی۔ اپوزیشن موجودہ حکومت کے شفافیت اور نیک نامی کے دعوؤں پر اکثر سوال اٹھاتی ہے لیکن عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کے لیڈر اور وزیر و مشیر نواز شریف اور آصف زرداری کی بدعنوانی کو نمایاں کرنے پر زور بیان صرف کرتے ہیں۔ وفاق یا صوبوں میں اپنی حکومت کی نااہلی و بدانتظامی یا اہلکاروں کی بدعنوانی کے بارے میں جستجو کرنے یا ان کا سراغ لگانے کی کوئی خاص کوشش دیکھنے میں نہیں آتی۔ اپوزیشن کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کو سیاسی مباحث کا اہم ترین موضوع بنا کر اسے باقی تمام مسائل پر ترجیح دی جاتی ہے۔

 اب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا چیف جسٹس اسلام آباد کی انتظامیہ سے سوال کر رہا ہے کہ کیا اس نے پانچ لاکھ درخت وزیر اعظم کے دولت کدہ کے باہر لگا دیے ہیں تو اس کا جواب انتظامی افسروں یا محکموں کے سیکرٹریوں کی بجائے عمران خان اور ان کے ذاتی نمائیندوں کو دینا چاہئے۔ خاص طور سے یہ معاملہ یوں بھی سنگین صورت اختیار کرجاتا ہے کہ بلین ٹری سونامی منصوبہ وزیر اعظم کی خواہش کے مطابق شروع کیا گیا تھا اور وہ اس کے ذریعے ملک میں ماحولیات کی بہتری کے لئے مؤثر کام کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام ہو رہا ہے تو اس کی براہ راست ذمہ داری بھی وزیر اعظم کو بنفس نفیس قبول کرنی چاہئے تاکہ عوام کو ان سوالوں کے جواب مل سکیں جو ججوں کے ناخوشگوار ریمارکس کی وجہ سے حکومت کی ’نیک نیتی اور مالی دیانت داری‘ کے حوالے سے سامنے آئے ہیں۔

عمران خان اس سے پہلے متعدد معاملات کو نظر انداز کرکے اپوزیشن کے خلاف این آر او لینے کی جدو جہد کا مقدمہ مضبوط کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان معاملات میں تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کا معاملہ، پشاور کی میٹرو سروس میں بدعنوانی و بدانتظامی کے الزامات کے علاوہ شوگر اسکینڈل میں ان کے قریب ترین دوست جہانگیر ترین پر لگائے گئے الزامات شامل ہیں۔ ایک طرف نواز شریف یا آصف زرداری کو زیر سماعت مقدمات کے حوالے سے شبہ کی گنجائش دینے سے انکار کیا جاتا ہے تو دوسری طرف ایک حالیہ انٹرویو میں جہانگیر ترین کے معاملہ پر وہ یہ کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ’ان پر الزام ہے لیکن وہ خود اس سے انکار کرتے ہیں‘۔ وزیر اعظم کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے اس معاملہ کی تحقیقات کرنے والے سب اداروں کو مکمل اختیار دے دیا ہے۔ ان کے کسی کام میں مداخلت نہیں ہو گی۔ حالانکہ انکار تو شریف و زرداری خاندان بھی کرتا ہے لیکن ان کی ’چوری اور لوٹ مار‘ کے بارے میں بیانات، پریس کانفرنسوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں یقین سے اعلان کیا جاتا ہے کہ جو الزام لگ گیا، اسے ثابت ہی سمجھا جائے۔ گو کہ عدالتی کارروائیوں کی صورت حال مختلف ہے۔

اسی طرح کا ایک معاملہ وزیر اعظم کے سابق مشیر اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ اور ان کے خاندان کی دولت و کاروبار کے بارے میں بھی ہے۔ مریم نواز نے ملتان کے جلسہ سے خطاب میں ایک بار پھر ان الزامات کو دہرایا اور سوال کیا کہ ایک سرکاری ملازم کیسے اتنے مالی وسائل کا مالک بن گیا، کوئی اس کا جواب دینے پر تیار نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے ایکسپرس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں براہ راست سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ان الزامات کو مسترد کردیا تھا اور میں ان کے جواب سے مطمئن ہوں۔ اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ نیب سے درخواست کرسکتا ہے کہ اس کی تحقیقات کی جائے‘۔ بدعنوانی کو اپنے سیاسی منشور کا اہم ترین نکتہ بنانے والی حکومت کے سربراہ کا یہ جواب ناکافی اور افسوسناک ہے۔ اگر ملک میں لوٹ مار ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والی حکومت ہی کسی مشتبہ معاملہ میں تمام حقائق سامنے لانے سے انکار کرے گی تو اپوزیشن لیڈروں پر الزامات کی بھرمار کو دھوکہ اور انتقام کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے؟

سپریم کورٹ میں بلین ٹری سونامی منصوبہ کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات حکومت کی کار کردگی کے علاوہ اس کی دیانت کے بارے میں بھی شبہات پیدا کریں گے۔ ان شبہات کا اظہار ملک کے چیف جسٹس نے کیا ہے۔ جسٹس گلزار احمد کے ریمارکس کو پڑھا جائے تو حکومت پر اپوزیشن کی تنقید کو محض الزامات کہہ کر مسترد نہیں کیا جاسکے گا۔ شدید سیاسی دباؤ میں آئی ہوئی حکومت اور اس کے سربراہ کے لئے یہ کوئی خوشگوار صورت حال نہیں ہے۔ عمران خان کو اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے حکمت عملی بنانا ہوگی۔ اگر ان اشاروں کو نظر انداز کرنے کی غلطی کی گئی تو ہوسکتا ہے سال بھر بعد موجودہ وزیر اعظم کسی کنٹینر پر کھڑے پھر سے بدعنوانی ختم کرنے کے لئے اقتدار مانگتے دکھائی دیں ۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت صدیقی کی اپیل پر غور کے لئے لارجر بنچ بننے کے بعد سماعت کا آغاز 9 دسمبر سے ہوگا۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں کے پاس سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلہ کے خلاف کوئی حکم جاری کرنا آسان نہیں ہوگا لیکن مقدمہ کی سماعت کے دوران درخواست گزار اور ان کے وکیلوں کی جانب سے اسی معاملہ پر دلائل دیے جائیں گے اور شواہد پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی جو اس وقت ملک کے سیاسی احتجاج میں بنیادی نکتہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یعنی عسکری ادارے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں کردار ادا کرتے ہیں حتیٰ کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو دباؤ میں لانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ شوکت عزیز صدیقی نے جولائی 2018 میں کی گئی تقریر میں بطور جج یہ الزامات عائد کئے تھے۔ ان الزامات کی جانچ کروانے یا ان کا دو ٹوک جواب دینے کی بجائے جج کو معزول کرنے کی کارروائی شروع کردی گئی۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے دو ماہ کی مختصر مدت میں متعلقہ جج کو برطرف کرنے کا حکم دیا۔ اب وہی جج سپریم کورٹ کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے زیادہ شدت سے مقدمہ پیش کرے گا اور الزامات عائد کرے گا۔

اپوزیشن کی سیاسی تحریک کے ساتھ اگر سپریم کورٹ میں شجر کاری اور شوکت صدیقی کیس کی سماعتیں بھی یکے بعد دیگرے ہونے لگیں تو وہ عناصر بھی کٹہرے میں دکھائی دیں گے جن کے بارے میں بات کرنا بھی ملک دشمنی اور غداری سمجھا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali