رشتوں میں دیواریں اینٹ پتھر کی، یا اصولوں کی ایک عام لڑکی کی ڈائری ( 3 )


مورخہ پانچ دسمبر انیس سو بانوے
بروز اتوار
05/12/1992

افف پیاری ڈائری کیا بتاؤں تھکن سے حالت بری ہے۔ تمہیں تو پتا ہے پورے ہفتے سے ابو نے ہم دونوں بہن بھائیوں کو اوپر والی منزل کی صفائی پہ لگایا ہوا تھا۔ دو دن صفائی میں لگے پھر شگفتہ پھپھو کا سامان سیٹ کروایا۔ تم سے بات بھی نہیں کر پائی پورا ہفتہ۔

شکیل پھپھا جب سے بیمار ہوئے ہیں ان کے گھر کے حالات کچھ اچھے نہیں۔ پھر امی کہہ رہی تھیں شگفتہ پھپھو خرچہ بھی سلیقے سے نہیں چلاتیں۔ پہلے سے جوڑ کے رکھا ہوتا تو یوں بھائی کے در پہ آ کر نہ پڑنا پڑتا۔ لیکن اس میں عجیب یا برا کیا ہے؟ میں اور راحیل بھی تو ابھی ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اگر کبھی بڑے ہونے کے بعد ایک ہی گھر میں رہیں گے تو اس میں شرمندگی کی کیا بات ہے۔

ہاں بس راحیل اپنی صبح صبح ٹی وی دیکھنے کی عادت چھوڑ دے۔

امی کو جب سے پتا چلا تھا کہ پھپھو اب ساتھ رہیں گی وہ تب سے ہی جھنجھلائی جھنجھلائی پھر رہی تھیں۔ پھپھو کے ساتھ آ کر رہنے میں اصل میں صرف یہ مسئلہ نہیں ہے کہ ان کا خرچہ ابو کا اٹھانا پڑے گا۔ وہ تو ابو کا درد سر ہے۔ مجھے اور راحیل کو بس یہ فکر ہے کہ جو نکتہ چینی پھپھو کبھی کبھی آنے پہ کرتی ہیں وہ روز سننے کو ملے گی۔ اعتراضات کی جنگ شروع ہو جاتی ہے پھپھو کے آتے ہی۔ ایک طرف سے پھپھو ہم پہ اعتراض کا گولہ مارتی ہیں تو دوسری طرف سے امی ان کے بچوں پہ اعتراض کی فائرنگ کر دیتی ہیں۔

ہم کزنز آپس میں خوش ہیں مگر ان بڑوں کو اتنے اعتراض کیوں ہیں ہم پہ؟ امی کو یہ اعتراض ہے کہ شگفتہ نے بیٹیوں کو بالکل پرانے زمانے کی روح بنا دیا ہے اور پھپھو کو یہ اعتراض کہ شمع بھابھی نے بیٹی کو بہت چھوٹ دی ہوئی ہے۔ پرسوں بھی پھپھو نے آتے ہی سب سے پہلے ٹوکا ارے فرخندہ بڑی ہو رہی ہو سینہ ڈھانپ کے رکھا کرو۔ انہیں شاید احساس بھی نہیں ہوا ہوگا کہ ایک دم سب کے سامنے اس طرح ٹوکنے پہ مجھے صرف شرمندگی نہیں ہوئی انتہائی شدید ذہنی اذیت ہوئی یہ سوچ کر کہ سب نے میرے بارے میں کیا سوچا ہوگا۔

ورنہ میں تو سمجھ رہی تھی کہ اس سال پھپھوکم از کم میری ڈریسنگ پہ کچھ نہیں بول سکیں گی۔ اب تو میں چادر سنبھالنے میں بھی ایکسپرٹ ہو گئی ہوں، لڑھکے بغیر اسکول تک پہنچ جاتی ہوں۔ تمہیں راز کی بات بتاؤں امی کو بھی اصل جھنجھلاہٹ اسی بات کی ہے کہ اب پھپھو گھر کے ہر معاملے میں دخل دیں گی جو وہ ویسے صرف تب دیتی ہیں جب وہ ملنے آتی ہیں۔ اور صرف پھپھو ہی کیا۔ جب نانی آتی ہیں تو وہ بھی یہی کرتی ہیں۔ جتنے دن وہ رکتی ہیں گھر کی روٹین ہی بدل جاتی ہے۔

مگر امی کو وہ برا نہیں لگتا تب صرف ابو جھنجھلاتے ہیں۔ ہم دونوں بہن بھائی بہرحال جمہوری طریقہ اختیار کیے رکھتے ہیں اور دونوں قسم کے مہمانوں کی اس عادت سے تنگ ہیں۔ اس دخل اندازی سے یاد آیا میں تمہیں بتاؤں پچھلے سال کیا ہوا۔ ابو کی سب سے بڑی خالہ کا انتقال ہو گیا۔ جس گھر میں ان کی فیملی رہتی تھی وہ ان کے نام تھا۔ تیجے کی فاتحہ کے بعد جو فٹ بال میچ ہوا ہے افف۔ ٹیمیں بن گئیں تھیں الگ الگ آدھے رشتے دار ان کی ایک بیٹی کے ساتھ آدھے دوسری کے ساتھ آدھے بڑے بیٹے کے ساتھ آدھے منجلے بیٹے کے ساتھ اور بچے کچے سب سے چھوٹے بیٹے کے ساتھ۔

کیوں کہ امی ابو دونوں رشتہ دار بھی ہیں تو امی خالہ کی بڑی بیٹی کی ٹیم میں پہنچ گئیں اور ابو منجلے بیٹے کی ٹیم میں پائے گئے۔ وہاں تو جو بحثیں چلیں وہ الگ اور گھر آ کر امی ابو کا جو جھگڑا ہوا وہ الگ۔ بعد میں راحیل ابو سے پٹا میں امی سے۔ بھلا بتاؤ کوئی بات ہوئی۔ جھگڑا سارا تھا کہ گھر کس کے نام ہوا۔ مجھے ابھی تک سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ امی ابو کا اس سارے معاملے سے کیا لینا دینا تھا؟

سچ پوچھو تو مجھے خاندان کے جھگڑے بالکل سمجھ نہیں آتے۔ فرحت آپی (بڑے تایا کی بیٹی) کی شادی میں شگفتہ پھپھو ناراض ہو گئیں کہ مایوں کی رسم مجھ سے نہیں کروائی۔ ان کو منایا گیا تو بارات میں فرحت آپی کے ماموں ناراض ہو گئے کہ دولہا نے سب کو سلام کیا مجھے نہیں کیا۔ احمد کی سالگرہ میں امی نہ خود گئیں نہ ہمیں بھیجا کہ بلاوا دینے صرف چھوٹے چاچو کیوں آئے جب کہ باقی جگہ تو چاچی بھی گئی تھیں۔ میری روزہ کشائی میں تائی امی ناراض ہو گئیں کہ انہیں ٹھنڈے پکوڑے ملے۔

انہوں نے عید پہ مجھے عیدی بھی سب کزنز سے آدھی دی۔ اور اس کا تذکرہ سب سے آخر میں اس لیے ہے کیوں کہ یہ سب سے اندوہناک صدمہ تھا۔ اوہ سوری تھا نہیں۔ بلکہ ہے۔ اچھی خاصی میری ٹوٹل عیدی راحیل سے سو روپے زیادہ ہوتی مگر پچاس روپے کم رہ گئی۔ کیوں کہ بڑی تائی نے سب کو دو دو سو دیے مجھے اور راحیل کو پچاس پچاس۔

اب پچھلے دو دن سے گھر میں بھی دوپٹہ سر پہ اوڑھ کے گھوم رہی ہوں۔ تاکہ پھپھو دوبارہ نہ ٹوک دیں۔ حالاں کہ پھپھو کی بس دو بیٹیاں ہیں۔ اور پھپھا تو اوپر اپنے کمرے تک ہی رہتے ہیں۔

مسلسل عجیب سا بوجھ ہے اعصاب پہ کہ پتا نہیں پھپھو کب کس بات پہ ٹوک دیں۔ کیوں کہ پھپھو کے سامنے تو امی پلٹ کے ان کی بیٹیوں پہ اعتراض کر دیتی ہیں لیکن پیٹھ پیچھے مجھے ہی ڈانٹ پڑتی ہے کہ تم اونگی بونگی حرکتیں کر کے میری ناک کٹواتی ہو۔ بس اب کیا کیا بتاؤں۔ صبح پھر اسکول جانا ہے۔ اور بہت دیر ہو گئی ہے۔

شب بخیر پیاری ڈائری

اتوار چھ دسمبر دو ہزار بیس
6/12/2020

آج دو ہفتے کے گیپ کے بعد ڈائرئی پڑھنے کا موقع ملا۔ پرانی ڈائری میں بھی ایک ہفتے کا وقفہ تھا۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہیں جب شگفتہ پھپھو ہمارے ساتھ رہنے لگی تھیں۔ اس عمر میں مجھے لگتا تھا کہ پھپھو ہماری زندگی میں دخل دیتی ہیں مگر اب اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہماری نہیں ہم خاص طور سے امی ابو ان کی زندگی میں دخل دیتے تھے کیوں کہ ابو ان کا مکمل نہ سہی جزوی خرچہ اٹھا رہے تھے۔ انہیں رہنے کے لیے چھت دی ہوئی تھی۔

اس لیے ان کی بیٹیوں کی تعلیم اور پھر شادی تک کے فیصلے امی ابو نے کیے۔ پھپھو بچاری کا زور تو صرف مجھے تمیز سکھانے تک چلتا تھا جو ان کے حساب سے شاید بطور اچھی پھپھو ان کی ذمہ داری تھی۔ یہ بہرحال ہمارے یہاں کے بزرگوں کو احساس نہیں ہوتا کہ تمیز سکھانا اور سب کے سامنے شرمندہ کرنے میں بہت فرق ہے۔ اپنی پچھلے ہفتے کی پرانی ڈائری نے مجھے نئے سرے سے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیا ہے۔ جو باتیں تب سمجھے سمجھ نہیں آتی تھیں اب واضح ہو گئی ہیں۔

بجائے اس کے کہ امی ابو اس بات کو ترجیح دیتے کہ باہر والے آ کر ان کے گھر میں دخل اندازی نہ کریں وہ نانی اور بڑی تائی جیسے رشتے داروں کے سامنے چپ ہو جاتے تھے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ شگفتہ پھپھو کی بیٹیوں کا کالج امی نے چنا تھا اور میرا داخلہ نانی کے پسند کے کالج میں ہوا تھا۔ جب کہ وہاں میری پسند کے سبجیکٹ کا ڈپارٹمنٹ ہی نہیں تھا۔ یا تو سائنس تھی یا آرٹس، کامرس تھا ہی نہیں۔ پھر امی اب الزام دیتی ہیں کہ میں نے آرٹس پڑھ کے اپنا کیرئیر تباہ کر لیا۔

میں نے بچپن سے اب اس پختہ عمر تک رشتے داروں کے گھروں کے حصے ہوتے دیکھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میں ایک بار اپنی ایک دوست کے گھر گئی تھی تو اس کی کزن بھی گپ شپ کرنے دیوار پھلانگ کر آ گئی تھی۔ میں نے مذاق میں کہا تھا کہ تم لوگ دیواریں بناتے ہی کیوں ہو۔ تب اس نے کچھ مذاق اور کچھ سنجیدگی کے ملے جلے لہجے میں کہا تھا کہ فرخندہ یہ دیواریں رشتوں کو جوڑے رکھنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ یہ نہ ہوں تو جھگڑے اور بڑھ جائیں۔

تو میرے خیال میں مسئلہ اینٹ پتھر کی دیوار کا بھی نہیں اصولوں کی دیوار کا ہے۔ ہم یہ سیمنٹ اور اینٹ کی دیوار تو بنا لیتے ہیں لیکن اصول کی دیوار نہیں بناتے۔ ہم دوسروں کے اپنے گھر میں دخل اندازی سے نہیں روکتے۔ نہ دوسروں کی ذاتی حدود کا خیال رکھتے ہیں۔ بلکہ اگر کوئی ہمیں ان حدود کو پار کرنے پہ ٹوکتا ہے تو ہمیں برا لگتا ہے۔ میں سوچتی ہوں اگر شگفتہ پھپھو کی زندگی میں امی دخل اندازی نہ کرتیں یا میری پڑھائی اور شادی کے فیصلوں میں نانی دخل اندازی نہ کرتیں تو شاید بہت کچھ بہتر ہوتا۔

باہر والے ہمارے گھر کے معاملوں میں دخل دے کے چلے جاتے تھے اور ہم کئی مہینوں تک ان کے نتائج بھگتتے تھے بلکہ کچھ کے نتیجے تو اب تک بھگت رہے ہیں۔ راحیل کی شادی امی نے بڑی تائی کو خوش کرنے کے لیے ان کے خاندان کی لڑکی سے کی تھی جس سے راحیل شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ لڑکی بری نہیں لیکن اس کا مزاج نہ امی سے مل پایا نہ راحیل سے۔ نہ دونوں سے مزاج ملانے کی کوشش کی۔ اب سارا دن گھر اکھاڑا بنا رہتا ہے۔ امی ہر معاملے میں نانی کی طرح راحیل کے فیصلوں میں دخل اندازی کرتی رہتی ہیں۔

وہ فیصلے جو وہ خود اپنی بچوں کے لیے نہیں لے پائیں وہ اب راحیل کے بچوں کے لینے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور راحیل کو یہ بطور قربانی جتاتی بھی رہتی ہیں۔ راحیل کو جب اپنے ذات کے فیصلے کے لیے اسٹینڈ لینا تھا تب چپ رہا اب بات بات میں بیوی کو جتاتا ہے کہ تم میری پسند نہیں ہو۔ امی سے جھگڑتا ہے کہ آپ نے میری زندگی خراب کردی۔

می سوچتی ہوں صرف ایک بار اگر یہ لوگ ایک دوسرے کو الزام دینے کا چکر روک کے اپنی حدود مقرر کر لیں تو کتنا آسان ہو جائے۔ جیسے اب میری زندگی ہو گئی ہے۔ ساس میرے ساتھ رہتی ہیں۔ ہم ان کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی اگر کوئی فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو پہلے دیکھتے ہیں کہ کیا اس سے ساس صاحبہ کی زندگی متاثر ہوگی یا نہیں۔ مثلاً ہمیں جب گھر بدلنا تھا تو بچوں سمیت گھر کے پانچ نفوس نے بیٹھ کے مشورہ کیا کہ کہاں گھر لینا مناسب ہوگا۔

بچوں کو بھی موقع دیا کہ وہ اپنی رائے بتائیں۔ اور جب بچوں کے اسکول بدلنے کا فیصلہ لینا تھا تو سب سے پہلے بچوں سے رائے لی۔ مجھے پتا ہے یہ ان کا حق ہے کیوں کہ سب سے زیادہ ان کی زندگی متاثر ہوگی۔ لیکن مجھے کپڑے کیسے لینے ہیں، جاب کے لیے کہاں اپلائی کرنا ہے اس کے لیے میں زیادہ سے زیادہ ریاض سے مشورہ کرتی ہوں کیوں کہ انہیں میرے مزاج کا اندازہ ہے لیکن اگر پھر بھی ان کا مشورہ مناسب نہ لگے تو خود فیصلہ لیتی ہوں یہ میرا حق ہے۔ جس کا احترام ریاض بھی کرتے ہیں۔ یہ سب پانے کے لیے کوشش ذرا زیادہ کرنی پڑی لیکن کم از کم مستقل اذیت میں رہنے اور اپنی اذیت کا بدلہ دوسروں سے لینے سے کہیں بہتر ہے۔

افف بہت لکھ لیا آج۔ اب کل اسکول بھی جانا ہے۔ کپڑے استری کرنے نہ رہ جائیں۔ چلو ڈائری شب بخیر

ابصار فاطمہ
اس سیریز کے دیگر حصےایک عام لڑکی کی ڈائری ( 2 )

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima