سٹھیاپا۔ ہائے او ربا


اجی

لغت کھولیے تو پتا چلتا ہے ”سٹھیاپا، ساٹھ سال کے بعد آ تا ہے۔ مگر ہم کچھ عرصہ سے مشاہدہ کر رہے ہیں کہ لغت میں رد و بدل کی بے حد ضرورت ہے۔ کیو نکہ سٹھیاپے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ اس کا دار و مدار انسان کے حالات و واقعات پہ منحصر ہے۔ کسی عمر میں بھی یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔

اس بیماری پہ ہم جس قدر غور فرمانے لگے۔ موت کی طرح اس کے اتنے ہی راز ہم پہ کھلنے لگے۔
اجی کیا کیا بتائیے

بس دعا فرمائے کہ چڑھتی جوانی کے ساتھ آپ جو کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ وہ اپنی عمر کے ساتھ ساتھ میچور ہوتی جائیں۔ اگر کامیاب زندگی میں ایک بڑا حادثہ آ جائے۔ جو شادی بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس کے بعد وہ حادثہ بھی نا خوشگوار ہو۔ تو آپ کے ”سٹھیانے، کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ گرچہ ہمارے ہاں اکثر مرد و خواتین شادی کی پہلی رات ہی کسی حد تک“ سٹھیا، جاتے ہیں۔ مگر انہیں یہ معلوم نہیں ہو تا کہ اپنی اس کیفیت کے لئے کون سے الفاظ کا استعمال کریں۔ اور پھر عمر بھر اس کیف میں رہتے ہیں۔

اس کے بعد اگر اچانک آپ کو ایک شاندار نوکری چھوڑنا پڑے۔ اور ایک معمولی نوکری کر نا پڑ جائے۔ آپ کے بچوں کی تربیت آپ کے مطابق نہ ہو رہی ہو، آپ کی خواہشات کی تکمیل نہ ہو رہی ہو، آپ اپنے ماحول میں مس فٹ ہوں، ماحول آپ سے مطابقت نہ رکھتا ہو، لوگ آپ سے مطابقت نہ رکھتے ہو، آپ نے پڑھی نفسیات ہو اور کام آپ کو بجلی کا کرنا پڑ جائے، آپ کا پروفیشن آپ سے مطابقت نہ رکھتا ہو، آپ کا شوہر یا آپ کی بیوی سے زیادہ آپ کی خفیہ گرل فرینڈ یا خفیہ بوائے فرینڈ آپ سے زیادہ مطابقت رکھتے ہوں تو آپ یقین مانئیے آپ لغت کو مات دینے والی کامیاب ترین ہستی بن سکتے ہیں۔ اور جلد گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آپ کا نام آ سکتا ہے۔

خیر اس سے بڑی کامیابی کیا ہو سکتی ہے۔

سٹھیاپے کی سب سے بڑی نشانی ہے ”سٹی گم ہو جانا، اور آپ کو خود بھی پتا نہیں چلتا کہ آپ کی سٹی گم ہو چکی ہے۔ اس حالت میں اگر آپ شہر مانوس سے باہر چلے جائیں تو معلوم ہو تا ہے کہ“ سٹی گم، ہی نہیں ہوئی۔ سٹی بج بھی رہی ہے۔

چند اور نشانیاں یہ ہیں کہ آپ کو اپنے بارے میں بیک وقت یہ برتری و کمتری کا گمان ہو نے لگے گا۔ جس میں آپ بوکھلائی ہوئی حرکات و گفتگو بھی فیشن یا آ زاد و آزار خیالی سمجھ کر سکتے ہیں۔ آپ بولتے رنگوں کا استعمال کرتے ہیں۔ آپ کے اندر ”سٹسٹی، کیفیت پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔ بقول شاعر نامعلوم

جہاں پڑھتی ہوں مردوں کی سٹسٹی لگ جاتی ہے
یہ مجھ بڑھیا کا کاتا ہے جوالوں کا تماشا ہے
شعر معلوم ہوتا شاہ رنگیلا کے دور کا سا شاخسانہ ہو جیسے۔

”کیف سٹھیاپے، کی ایک نشانی“ سٹنا، بھی ہے۔ اب سٹنا کو سمجھنے کے لئے فرہنگ آصفیہ کا سہارا لے لیجیے۔ یا کسی اور کا، ہم کو نہیں پروا۔

اور ایک بار آپ ”سٹنا، گئے تو آپ کو“ سٹھنی، بنتے دیر نہیں لگتی۔ یہ دونوں کیفیات پکی سہیلیاں ہی سمجھئیے۔

سٹھنی کے عوض جو تو نے تیار کی گالی
گالی ہے وہ کچھ اور ہی اسرار کی گالی
اجی۔

ہمیں معلوم ہے قاری پہ لفاظی گراں گزر رہی ہے۔ مگر آج ہم پہ بھی ”کیف سٹلو، طاری ہے۔ ہم باز آ نے کے نہیں۔ بھلے آپ“ سٹکا، اٹھا لائیں۔ اور ہم کو مار ڈالیں۔ کیو نکہ سٹھیاپا اب تک آپ پہ بھی طاری ہو چکا ہو گا۔ جیسے ہم پہ طاری ہے۔

اللہ ہم سب کو عالم سٹھپاپاو کیف سٹھیاپا سے اپنی پناہ میں رکھے ورنہ آپ کا نقصان صرف اتنا ہو تا ہے کہ عزت چلی جاتی ہے۔ مگر آپ دوسروں کا نقصان زیادہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کی عزت کے ساتھ ساتھ سکون و عافیت بھی چلی جاتی ہے۔ اور بھلا سیب بو کر ہم آم کیسے کھا سکتے ہیں۔

آئیں اب ہم اجتماعی دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اجتماعی دعا کی ضرورت ہے۔
حکمران و عوام سٹھیائے ہوئے ہیں۔ اسی لئے زیر عتاب آئے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).