مانگنے سے غربت دور نہیں ہوگی


وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وبا سے پیدا ہونے والے مسائل پر غور کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے خطاب کیا ہے۔ اس اجلاس سے دنیا بھر کے 141 لیڈر خطاب کریں گے جن میں سے اکثر پیغامات ریکارڈ کرلئے گئے ہیں۔ تاہم عمران خان نے براہ راست ویڈیو لنک سے خطاب میں دنیا کے امیر ملکوں کو خزانوں کے منہ کھولنے اور غریب ملکوں کی امداد کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
اس تقریر میں وزیر اعظم کی دس تجاویز ترقی پذیر ملکوں کو مالی تعاون فراہم کرنے ، قرضے معاف کرنے یا ان میں چھوٹ دینے کے لئے تھیں۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان نے جنرل اسمبلی کے صدر کو یقین دلانا بھی ضروری سمجھا کہ ’میرے دس نکات غریب ملکوں کے لئے نہایت مفید ثابت ہوں گے۔ اگر آپ باقی سب اقدامات کے مقابلے میں میری دس تجاویز پر عمل کریں تو اس کا زیادہ فائدہ ہوگا‘۔ عمران خان کی اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اگر امیر اور ترقی یافتہ ممالک غریب ملکوں کے قرضے معاف کردیں، مالی امداد فراہم کریں ، رعائیتی سود وصول کیا جائے، غریب ملکوں کی امداد کے لئے 500 ارب ڈالر کا خصوصی فنڈ قائم کر دیاجائے اور لوٹی ہوئی دولت فوری طور سے واپس کردی جائے تو بہت سے ملکوں کو فائدہ ہوگا۔
ان تجاویز کے حوالے سے البتہ دو قباحتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان ان ملکوں کی قطار میں سب سے آگے کھڑا ہوتا ہے جنہیں یا تو غیر ملکی امداد کی ضرورت رہتی ہے یا وہ اس کے خواہش مند ہیں۔ دوسرا مسئلہ اعتبار کا ہے۔ عالمی امداد کی تقسیم اور استعمال کے بارے میں ہمیشہ اس کی کمی رہی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا اور عالمی اداروں کی تمام تر کوششوں کے باوجود غریب ملکوں کو دی گئی امداد کا فائدہ عوام کی بجائے وہاں کے نظام پر قابض اشرافیہ کو پہنچتا ہے۔ عمران خان نے دس نکاتی امدادی پروگرام پر تو زور دیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ اگر کسی صورت یہ وسائل فراہم ہو بھی جائیں تو اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ ان عالمی وسائل کو نظام کی اصلاح اور غریبوں کے حالات کار بہتر بنانے کے لئے ہی استعمال کیا جائے گا۔
مالی وسائل کو کسی مسئلہ کا حل قرار دینا بہت آسان ہے لیکن مسائل صرف دولت سے حل نہیں ہوتے۔ مختلف ممالک یا ادارے غریب ملکوں کو مالی سہولتیں فراہم کرتے رہے ہیں۔ کووڈ۔19 سے پیدا ہونے والے معاشی بحران میں بھی جی ۔20 ممالک، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سمیت مختلف مالی اداروں نے سود کم کرنے، اقساط کی ادائیگی روکنے یا آسان شرائط پر نئے قرضے دینے کے اقدامات کئے تھے۔ لیکن ابھی تک کوئی ایسا جائزہ سامنے نہیں آسکا جس سے یہ یقین کیا جاسکے کہ ان اقدامات سے واقعی عام لوگوں کی مالی حالت کو سہارا دیا گیا ہے۔ پاکستان ہی کی مثال لی جائے تو ان خصوصی انتظامات کے تحت ملک کوتین سے پانچ ارب ڈالر کی سہولت میسر آئی تھی لیکن پاکستانی حکومت ان وسائل کو کسی بڑے منصوبہ میں لگانے یا عام لوگوں کو اس کا براہ راست فائدہ پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ ملک میں اشیائے صرف کی کمیابی اور قیمتوں میں اضافہ سے ظاہر ہے کہ مالی بحران کی قیمت دراصل عام شہریوں کو ہی ادا کرنا پڑتی ہے۔ مہنگی چیزیں خرید کر وہ یہ قیمت براہ راست ادا کرتے ہیں یا معیار زندگی میں کمی کے ذریعے معاشی ابتری کا نشانہ بنتے ہیں۔ دیگر ترقی پذیر ملکوں کی طرح پاکستانی حکومت بھی قومی یا امداد میں ملنے والے وسائل کو غیر ترقیاتی ضرورتوں، علاقائی تنازعات نمٹانے ، اسلحہ کی خریداری اور پرانے قرض اتارنے جیسی مدات میں صرف کرتی ہے۔
دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں جمہوری نظام کی وجہ سے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ غریب ملکوں کو دیے جانے والے وسائل کے درست استعمال کا سوال ہر جمہوری ملک میں زیر بحث آتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک زیادہ امداد کی خواہش رکھنے کے باوجود کبھی جوابدہی یا شفافیت کا کوئی طریقہ کار اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ عمران خان کی دس کی دس تجاویز امیر ملکوں سے مزید مدددینے کی توقع پر مبنی ہیں لیکن ایک بھی ایسی تجویز نہیں دی گئی جس میں ترقی پذیر یا غریب ملکوں سے جوابدہی کا تقاضہ کیا گیا ہو یا عالمی وسائل کو عوامی بہبود کے شعبوں پر صرف کرنے کا وعدہ سامنے لایا گیا ہو۔
غریب ممالک میں سیاسی نظام عدم شفافیت عام ہے ۔ حکمرانو ں پر تنقید ناقابل قبول ہوتی ہے ، اختیارات کی تقسیم کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں عمر ان خان عوامی تائد و حمایت کے ساتھ برسراقتدار آنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن میڈیا پر کنٹرول، معلومات کی فراہمی میں رکاوٹ اور عوامی مسائل پر مباحث کو روکنے کا ہر جتن کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر غیر ضروری پابندیاں عائد کرنے کا ایک معاملہ آج بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر غور آیا جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حیرت کا اظہار کیا کہ ’تنقید کا گلا گھونٹ کر کس طرح شفافیت کا مظاہرہ ہوسکتا ہے یا جمہوری نظام کام کرسکتا ہے؟ ‘سرکاری ادارہ بدستور اصرار کررہا ہے کہ قومی مفادات کے لئے اظہار رائے پر پابندیاں عائد کرنا ضروری ہے۔ حیرت ہے پاکستان جیسے ملکوں میں بظاہرحکومتی کنٹرول کے بغیر جس مفاد کی حفاظت ممکن نہیں ، ترقی یافتہ ملکوں میں ان پہلوؤں پر مباحث سے سلامتی کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔
اسی طرح بلدیاتی نظام کا معاملہ ہے۔ پاکستان کی کسی سول حکومت نے ملک میں بلدیاتی نظام کو کام نہیں کرنے دیا کیوں کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی سیاسی اعانت کے لئے عوامی ضرورتوں پر صرف ہونے والے وسائل ’ترقیاتی فنڈز‘ کے نام پر ان کے حوالے کردیے جاتے ہیں۔ شفاف و فعال بلدیاتی نظام تحریک انصاف کے منشور کا حصہ تھا۔ وہ مرکز کے علاوہ تین صوبوں میں برسر اقتدار ہے ۔ اس دوران شراکت اقتدار کا کوئی فارمولا متعارف کروانے کی بجائے پیپلز پارٹی کے دور میں آئین کا حصہ بننے والی اٹھارویں ترمیم کو ناقص قرار دینے اور مرکز کو مضبوط کرنے کی بحث پر زور دیا گیا ہے۔ عمران خان کو شکوہ رہتا ہے کہ صوبے قومی وسائل میں بڑا حصہ لے جاتے ہیں اور مرکز کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ ایسے میں وہ یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے کہ اگر صوبوں کو وسائل ملتے ہیں تو عام شہریوں کی ضرورتیں بھی تو صوبائی حکومتیں ہی پورا کرتی ہیں۔
آج پاکستان سٹیزن پورٹل کی دوسری سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ایسا شاندار بلدیاتی نظام لانے کا وعدہ کیا ہے جو ملک میں انقلاب برپا کردے گا ۔ اور قومی وسائل محلے اور گلی کوچے تک انتظام کرنے والے لوگوں کو براہ راست فراہم ہوں گے۔ وہ یہ وعدہ اس حقیقت کے باوجود کررہے ہیں کہ ان کی پارٹی حکومت میں نصف مدت پوری کرچکی ہے اور ابھی تک بلدیاتی نظام کی بات تقریروں اور وعدوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ آج بھی عمران خان کو زبانی دعوؤں میں کامیابی کی دھاک بٹھانا پڑتی ہے۔ جیسے سٹیزن پورٹل قائم کرکے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت نے عوام کے سارے مسائل حل کردیے کیوں کہ اس کے ذریعے براہ راست شکایت درج کروائی جاسکتی ہے اور اس پورٹل کا انتظام وزیر اعظم ہاؤس سے ہوتا ہے۔ یعنی اس ملک میں اگر کچھ بھی اچھا ہوسکتا ہے تو اس کا کنٹرول وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہونا چاہئے۔
اسی تقریر میں وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ سٹیزن پورٹل نے شفافیت اور احتساب کا کڑا تصور راسخ کیا ہے۔ اب سرکاری افسر عوامی شکایات دور کرنے کے پابند ہوگئے ہیں۔ حالانکہ یہ پورٹل قائم ہونے کے دو سال بعد بھی گزشتہ ماہ وزیر اعظم ہاؤس سے سٹیزن پورٹل پر ملنے والی شکایات کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ عمران خان نے سٹیزن پورٹل کی دو سالہ تقریب میں یہ تو بتایا کہ تیس لاکھ لوگوں نے شکایات درج کروائیں لیکن یہ بتانے سے قاصر رہے کہ ان میں سے کتنے لوگوں کی داد رسی ہوسکی۔ یا ملک کے ناقص عوام دشمن نظام کی اصلاح کے لئے تحریک انصاف نے اڑھائی برس کی مدت میں کون سے اقدامات کئے ہیں۔ کسی ناکارہ نظام کو تبدیل کئے بغیر، اس کے خلاف آنے والی شکایات بھی اسی نظام کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اور کسی سطح پر کوئی مسئلہ حل نہیں ہو تا۔
اقوام متحدہ سے خطاب میں عمران خان کی دسویں تجویز یہ تھی کہ امیر ممالک لوٹی ہوئی دولت غریب ملکوں کو واپس کریں تاکہ ان کی مالی مشکلات دور ہوسکیں۔ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک منی لانڈرنگ اور غیر قانونی آمدنی و دولت کا سراغ لگانے کے لئے قانون سازی بھی کرتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں ایسا کوئی نظام دیکھنے میں نہیں آتا۔ پھر کون ناجائز دولت کاسراغ لگائے گا اور کیسے یہ ثابت کیا جائے گا کہ کس نے کس ملک کی دولت لوٹ کر کہاں پہنچائی تاکہ اسے واپس لایا جاسکے۔ موجودہ حالات میں عمران خان اپنے سیاسی دشمنوں کو چور قرار دے کر ان کے غیر لکی اثاثوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔ حکومت تبدیل ہونے پر نئے حکمران تحریک انصاف کے لیڈروں کے خلاف ایسی ہی کوشش کرتے دکھائی دیں گے۔

لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لئے پہلے ملک کے نظام احتساب کو شفاف اور غیر سیاسی بنانے کی ضرورت ہے۔ پھر صرف سیاست دانوں کو تختہ مشق بنانے کی بجائے معاشرے کے سب طبقات کو اس راڈار میں لانا پڑے گا۔ جوابدہی کو جب تک اپوزیشن کے سیاستدانوں کی کردار کشی کے لئے استعمال کیاجائے گا تو نہ احتساب ممکن ہوگااور نہ ہی اس کی شفافیت شک و شبہ سے بالا ہوگی۔ عمران خان جیسے دیانت دار لیڈر مزید امداد کے لئے دنیا سے اپیل کرتے رہیں گے۔ مانگنے سے اگر مسائل حل ہوتے ہیں تو عمران خان نے آج کی تقریر میں پاکستان کے علاوہ دنیا کے بیشتر غریب ملکوں کے مسئلے حل کر دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali