گلگت بلتستان الیکشن: کس نے کیا پایا کیا کھویا؟


اللہ اللہ خیر صلا گلگت بلتستان اسمبلی کے عام انتخابات آخر منعقد ہوہی گئے۔ ورنہ تو الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کی جانب سے 18 اگست کو طے شدہ شیڈول کی منسوخی کے بعد طرح طرح کی چہ میگوئیاں شروع ہو گئی تھیں۔ عوام الناس کے علاوہ سیاسی و صحافتی حلقے بھی تذبذب کا شکار تھے کہ رواں سال انتخابات کا انعقاد شاید ممکن نہ ہو۔ تاہم 23 ستمبر کو چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان کی جانب سے پھر سے الیکشن شیڈول کا اعلان ہوا تو الیکشن اگلے برس کروانے سے متعلق قیاس آرائیاں کسی حد تک دم توڑ گئیں۔ اس نوٹیفیکشن کے بعد الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کی تیاریاں شروع ہونے پر عوام کو بھی یقین ہو گیا کہ اب تو الیکشن ہو ہی جائیں گے۔

15 نومبر کو گلگت بلتستان کے بالائی علاقوں میں برفباری اور سردی کی شدت میں اضافے کے باوجود عوام گھروں سے نکل کر اپنے متعلقہ پولنگ اسٹیشنز پر حق رائے دہی جو استعمال کیا وہ یقیناً قابل رشک تھا۔ الیکشن کے نتائج کہاں کہاں کیسے آئے اس سے بھی عوام بخوبی واقف ہیں۔ وہ اس لئے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی چیز کسی سے چھپائے بھی نہیں چھپ سکتی ہے۔ اس دفعہ کے گلگت بلتستان کا انتخابی عمل اگرچہ مختصر وقت میں پایہ تکمیل کو پہنچا مگر قومی اور بین الاقوامی سطح پر گلگت بلتستان کے انتخابات کا جو چرچا تھا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ وجہ چاہے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے تناظر میں خطے کی اسٹریٹیجک اہمیت ہو یا وفاق میں پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتوں کی سرد جنگ فائدہ مگر گلگت بلتستان کو صرف اتنا ہوا کہ قومی و بین الاقوامی سطح پر خطے کی مفت میں پروموشن ہو گئی۔

الیکشن کے حتمی نتائج آنے تک کسی کو بھی یہ یقین نہیں تھا وفاق میں برسراقتدار پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان کے انتخابات میں اکثریتی نشستوں کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی۔ الیکشن مہم کے سلسلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے خطے کے گوشہ گوشہ کے دوروں اور میڈیا پر کیے جانے والے دعوؤں سے تو تاثر یہ پیدا ہوا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر گلگت بلتستان میں حکومت بنا سکے گی۔ مگر عین وقت پر نتائج اس کے برعکس نکل آئے۔ روایت پھر وہی برقرار رہی جو گزشتہ ادوار میں ہوتی چلی آ رہی تھی۔

الیکشن میں اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کو حکومت سازی کے لئے درکار مینڈیٹ تو نہیں ملا۔ مگر آزاد امیدواروں کے مانگے تانگے مینڈیٹ سے وفاقی حکومت گلگت بلتستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ پاکستان پیپلز، پاکستان مسلم لیگ نواز، جے یو آئی (ف) اور آزاد حیثیت میں جیتنے والے قوم پرست جماعت بال اور ستان نیشنل فرنٹ کے سربراہ نواز خان ناجی نے مل کر گلگت بلتستان اسمبلی میں گرینڈ اپوزیشن کے طور پر مورچے سنبھال لئے۔

گلگت بلتستان کے تینتیس رکنی ایوان میں اس مرتبہ صرف آٹھ ممبران کے علاوہ باقی سب زندگی میں پہلی دفعہ اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے ہیں۔ چنانچہ خوشی اس بات کی ہے کہ اس بار کے ایوان میں ممبران کی اکثریتی تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سیاسی سمجھ بوجھ کی حامل ہے۔ شکر کی بات یہ بھی ہے کہ ماضی میں اراکین اسمبلی کو آن پڑھ کہنے والے فیس بکی دانشوروں کے منہ بند ہو گئے۔

اسمبلی میں اس بار حکومتی بینچوں کے مقابلے میں اپوزیشن میں قدرے مضبوط اور تجربہ کار کھلاڑی ہیں جو خطے کے سیاسی، آئینی، قانونی و عوامی مسائل پر گہری نظر اور بحث و مباحثے کا گرفت رکھتے ہیں۔ جوابی حملوں کے لئے حکومتی عہدوں پر بھی کچھ تگڑے لوگ موجود ہیں مگر ”رائٹ پرسن فار رائٹ پوسٹ“ والا فارمولا اپنائے بغیر سیاسی مصالحتوں کی بنیاد پر عہدوں کی تقسیم سے حکومت کو اپوزیشن کا دفاع کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ اپوزیشن اور حکومتی بینچوں کے مابین مختلف معاملات پر ایک دوسرے سے بحث و تکرار جمہوریت کا حسن ہے۔ مگر مجموعی طور پر علاقے اور عوامی فلاح و بہبود کے امور میں مشترکہ حکمت عملی اور فیصلہ سازی ہی گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کی ضمانت دے سکتی ہے۔

گلگت بلتستان کے نومنتخب وزیراعلیٰ خالد خورشید صاحب اگرچہ ایک نوجوان اور فارن کوالیفائڈ ضرور ہیں مگر حکومت سازی کے عمل میں کابینہ کے ارکان کے چناؤ اور وزارتوں کی تقسیم میں وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان کی مبینہ دخل اندازی نے ان کے اختیارات پر طرح طرح کے سوالات چھوڑ دیے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا اور اس سے قبل بھی یہی ہوتا چلا آ رہا تھا کہ وزیراعظم پاکستان بحیثیت پارٹی سربراہ جیتنے والے امیدواروں میں سے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزیراعلیٰ کے لئے نام تجویز کرتے جو قانون کے تحت اسمبلی ممبران کی اکثریتی رائے سے متعلقہ عہدوں کے لئے منتخب کیے جاتے۔ کابینہ کے ارکان کا چناؤ، وزارتوں کی تقسیم، مشیران، معاونین خصوصی، کوآرڈینیٹرز وغیرہ کا فیصلہ وزیراعلیٰ ہی کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اس بار یہ سارا کام ایک وفاقی وزیر کی جانب سے سرانجام دینے کی خبریں زیر گردش رہیں۔

نومنتخب وزیراعلیٰ کے ترجیحات اور عوامی خدمت کا جذبہ دیکھ کر امید یہ کی جا سکتی ہے کہ وہ گزشتہ را صلوات آئندہ را احتیاط کے فارمولے کے تحت جلد ہی ایک با اختیار حکمران کے طور پر اپنا لوہا منوائیں گے۔ بصورت دیگر وقتی طور پر وہ ایک خطے کے چیف ایگزیکٹیو کے طور پر ملنے والے اختیارات کا مزہ تو لیں گے مگر اقتدار کا سورج غروب ہونے پران کی حیثیت بھی وہی ہو سکتی ہے جو سابقہ دو وزرائے اعلیٰ کی صورت میں عوام کے سامنے موجود ہے۔

بلاشبہ سابقہ وزرائے اعلیٰ سید مہدی شاہ اور حافظ حفیظ الرحمن بھی منجھے ہوئے سیاستدان تھے۔ مگر اقتدار کی کرسی کیا جادوئی چیز ہے کہ جس پر بیٹھ جانے کے بعد گراس روٹ لیول کے سیاسی رہنماؤں کے رویے یکسر بدل جاتے ہیں۔ سید مہدی شاہ صاحب اگرچہ ایک با اختیار اور عوام دوست حکمران رہے۔ مگر غلطی ان کی یہ رہی کہ انہوں نے اقتدار کے شروع سے دن سے حکومتی وزراء کو مرضی کا مالک بنا کر کھلی چھوڑ دی۔ جس کی وجہ سے کسی نے ملازمتوں کی لوٹ سیل لگا دی تو کوئی ٹھیکوں کی بندر بانٹ اور کمیشن خوری میں ہاتھ دھوتے رہے۔ حاکم وقت کو تمام تر صورتحال کا علم ہونے کے باوجود نامعلوم وجوہات کی بنا کر ان کالے دھندوں میں ملوث وزراء اور بیوروکریٹس کے خلاف کارروائی سے گریزاں رہے۔ بالآخر اقتدار کی مدت ختم ہو گئی اور سال 2015 کے عام انتخابات میں ان کی جماعت 24 حلقوں میں سے صرف ایک نشست پر برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

الیکشن میں بری طرح ناکامی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی قائدین نے اپنی صوبائی قیادت کی اس قدر ابتر کارکردگی کا فوری نوٹس لیتے ہوئے پارٹی رہنما امجد حسین ایڈووکیٹ کو بحیثیت صوبائی صدر مقرر کیا۔ نوجوان صدر امجد ایڈووکیٹ نے پارٹی کی صوبائی قیادت کو ایک چیلینج کے طور پر قبول کرتے وہ ہوئے صوبائی سطح پر اپنی پارٹی میں ایک نئی روح پھونک دی۔ مگر حالیہ الیکشن پر اس کا بھی کوئی خاص اثر نظر نہ آیا تاہم گزشتہ الیکشن کی نسبت اس بار زیادہ نشستیں مل گئیں۔

سال 2015 میں انتقال اقتدار کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے حکومت میں ایک دبنگ انٹری ضرور دی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی جانے انجانے میں مصلحتوں کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے حکومتی عہدے تو مناسب طریقے سے تقسیم کیے مگر اختیارات کی لگام اپنے میں ہاتھ میں رکھ کر صوبائی وزراء کو محض تنخواہوں اور مراعات تک محدود کر کے رکھ دیا۔ ان کے دور حکومت میں عوامی فلاح و بہبود اور انفراسٹرکچر کی تعمیر و ترقی پر خاصے کام ہوئے۔ مگر سرکاری ملازمتوں پر تقرریوں اور سرکاری ٹھیکوں میں مبینہ بے ضابطگیوں سمیت دیگر غیر دانشمندانہ فیصلوں کے سبب عین وقت پرنہ ان کی کابینہ کے ارکان نے ساتھ دیا نہ عوامی اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

چنانچہ نومنتخب وزیراعلیٰ خالد خورشید صاحب ماضی کے ان حکمرانوں کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی جانب اپنی سمت کا تعین کریں تو عوام کی بہتر نمائندگی کر سکتے ہیں۔ ورنہ وفاق میں اپنی جماعت کے قائدین کی جی حضوری کرتے رہیں گے تو کل کو گلگت بلتستان کا بھی وہی حشر ہو سکتا ہے جو نئے پاکستان میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).