بے گناہ افغانوں کا قتل جس پر بات نہیں ہو رہی


آسٹریلوی فوج کے اعلیٰ عہدیدار جنرل آنگس کیمبل نے اعتراف کیا ہے کہ آسٹریلوی فوج نے انتالیس بے گناہ افغانوں کو قتل کیا تھا۔ اس بارے میں مختلف تفصیلات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ ان میں سے اکثر قیدیوں کو مارا گیا اور یہ کہ ایسے فوجیوں نے ان بے گناہوں کا قتل کیا جو پہلی بار کسی کو قتل کرنا چاہتے تھے یعنی انسان کو قتل کر کے سیکھنا چاہتے تھے یا پھر انسانی قتل کا مزہ لینا چاہتے تھے۔

مجھے یاد ہے جب سابق صدرجارج بش جونیئر نے کہا تھا کہ ہم صلیبی جنگ کا آغاز کر دیا ہے جس کو بعد میں کور کرنے کی کوشش تو کی گئی لیکن وقت کے ساتھ افغانستان میں ایسے ایسے مظالم کی رودادیں سننے کو ملتی رہی ہیں کہ جارج بش جونیئر کی باتیں سچ ثابت ہوئیں۔ آسٹریلیا دنیا کے نقشے پر ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن اس ملک کے نظام اور اخلاقیات کی مثالیں دی جاتی رہی ہیں مگر نائن الیون کے بعد دنیا کے اخلاقیات کے ٹھیکیداروں کے مصنوعی چہرے بے نقاب ہو گئے ہیں۔

آسٹریلیا کے انتالیس سو فوجی افغانستان میں برسرپیکار رہے ان کے جرائم کا یہ حال ہے جن کے فوجی آسٹریلیا سے زائد تھے ان کے کیا کارنامے ہوں گے؟ اور یہ کہ یہ واقعات تو وہ ہیں جو چھپائے نہیں جا سکے اس کے علاوہ کتنے جبر کیے گئے ہوں گے؟ بطور قبائلی مجھے اندازہ ہے کہ جنگوں میں عام لوگوں کو کتنی تکالیف جھیلنی پڑتی ہیں، کتنے بے گناہوں کو زندگی سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور ہم بھی اسی جنگ کے متاثرین ہیں جس کی لپیٹ سے جان ہی نہیں چھوٹ رہی لیکن اس طرح کے واقعات معاشرے میں ناقابل یقین نفرت کے نقوش چھوڑ جاتے ہیں جس کو شاید ہی کبھی مٹایا جا سکے۔

افغانستان میں آسٹریلوی فوج کی طرف سے بے گناہ افغانوں کے قتل عام پر پوری دنیا کو آواز اٹھانا چاہیے تھا لیکن یوں لگتا ہے کہ مہذب دنیا میں افغانوں کو انسان کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ آسٹریلوی وزیراعظم نے چائنیز ویری فائیڈ ٹویٹر اکاؤنٹ کی طرف سے ایک تصویر ٹویٹ کرنے پر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے لیکن ان بے گناہ افغانوں کے قتل عام کے بارے میں تاویلات پیش کر رہا ہے جو خود انہی (آسٹریلوی) تحقیقات میں ثابت ہو چکی ہیں۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے ہاں فلسطین برما یا دنیا کے جس خطے میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی واقع ہوتا ہے تو اس کی بڑی سخت مذمت ہوتی ہے جلوس نکلتے ہیں سیاہ جھنڈے اٹھائے جاتے ہیں کبھی کبھار اپنے ہم وطن بھائیوں کی املاک بھی جلا دی جاتی ہیں لیکن اس واقعے کے بارے میں ملک کے کسی اہم سیاسی لیڈر کی طرح سے مذمتی بیان دیکھنے میں نہیں آ رہا جو کہ ثابت کرتا ہے کہ ہم اصل مظالم کے بارے میں چپ رہتے ہیں معاملات کو صرف سیاسی مفادات کے تحت اٹھاتے ہیں نہ کہ کسی اسلامی جذبے یا بھائی چارے کے تحت۔

اس سلسلے میں پشتون قوم پرست لیڈرشپ میں سوائے افراسیاب خٹک کے اس حوالے سے کسی کا بیان نظر سے نہیں گزرا جو کہ اس اصولی موقف کے برعکس لگ رہا ہے جن کا ہم سنتے آرہے ہیں۔ بے گناہ افغان پشتونوں کے اس قتل پر بات ہونی چاہیے تھی۔ جو نہیں ہو رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).