کرونا کی یلغار، مریم کی للکار


اس وقت جب حکومت اور اپوزیشن کے مابین سیاسی لڑائی عروج پر پہنچتی دکھائی دیتی ہے۔ اپوزیشن کو مارچ سے پہلے پہلے حکومت کو گھر بھیجنے کی جلدی ہے۔ اور یہ جلدی کیوں نہ ہو مارچ میں ہونے والے سینٹ الیکشن کے بعد جب پی ٹی آئی سینٹ میں اکثریتی جماعت بن چکی ہوگی تو عمران خان مزید مضبوط ہو چکے ہوں گے تب اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ وہ مزید بے رحمانہ انداز سے ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے اور ان کے لیڈروں کا جینا دو بھر کر دیں گے۔ اس وقت نیب سے زیادہ اینٹی کرپشن اپوزیشن کے خلاف فعال ہوئی ہے۔ ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے نون لیگ سے وابستہ متحرک سیاستدانوں کے پرانے ریکارڈ کنگھالے جا رہے ہیں۔

نون لیگی چونکہ پچھلی کئی دہائیاں اقتدار کے مزے لوٹتے آئے ہیں اور اقتدار میں آ کر لوگ احتساب کو بھول جاتے ہیں اور ان سے کئی غلطیاں بھی سر زد ہو جاتی ہیں تو اب ان کی ایسی غلطیاں یا غیر قانونی کاموں کو چن چن کر ان پر مقدمات بنائے گئے ہیں۔ شیخو پورہ سے تعلق رکھنے والے ایک ایم این اے کی اسی سالہ والدہ پر بھی ایک ایف آئی آر کاٹی گئی۔ لاہور کے کھوکھر برادران، گوجرانوالہ سے دستگیر فیملی ملتان سے غفار ڈوگر سرگودھا سے رضوان گل اور نوید وڑائچ لیہ سے ثقلین شاہ اور اعجاز اچلانہ سمیت پورے پنجاب میں اپوزیشن ارکان کے خلاف مقدمات کی بھر مار کی گئی ہے۔

تاہم ان مقدمات کے ملزمان کی ضمانتیں باآسانی ہو جاتی ہیں چونکہ ملزمان طاقتور ہوتے ہیں اور بڑے بڑے وکلا ان کی پیروی کے لئے آن موجود ہوتے ہیں۔ حکومت کے پاس اس چیز کا کوئی توڑ نظر نہیں آ رہا۔ اپوزیشن ارکان کے خلاف مقدمات سے سیاسی ماحول ضرور گرم ہو رہا ہے اور ان کارروائیوں کو سیاسی انتقام کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ مریم نواز حکومت کو خاطر میں بہرحال نہیں لا رہیں کہ ان کے جاں نثار ہر طرف نظر آتے ہیں۔

سیاسی درجہ حرارت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ کرونا کی دوسری لہر نے بھی ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ابھی حال ہی میں کئی اہم شخصیات اس بیماری کی نذر ہو چکی ہیں۔ سندھ حکومت کے ایک اور مشیر جاں بحق ہوئے ہیں۔ فیڈرل سروس کمیشن کے چئرمین، ایک معروف صحافی، احتساب عدالت کے سابقہ جج، ایک ریٹائرڈ جنرل، اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ کیسز کی تعداد کم نہیں ہو رہی اور نہ ہی اپوزیشن اپنی سیاسی تحریک ملتوی کرنے کو تیا ر ہے۔

عوامی جانوں کو سیاسی اقتدار کے کھیل میں بالکل بھی اہمیت نہیں مل رہی۔ حیرتناک طور پر لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے کے بارے میں حکومت اور اپوزیشن کا موقف الٹ ہو چکا ہے۔ کرونا کی پہلی لہر کے دوران اپوزیشن تنقید کر رہی تھی کہ حکومت انسانی جانوں کے تحفظ سے لاپروا ہو کر لاک ڈاؤن کی طرف نہیں جا رہی اب اپوزیشن سماجی فاصلوں کے ایس او پیز کو پامال کر رہی ہے اور حکومت ان اجتماعات کے ذریعے کرونا کے مزید پھیلانے کا الزام اس پرلگا رہی ہے۔

اپوزیشن کی اس تحریک کی وجہ سے انتظامیہ الجھ کر رہ گئی ہے اور پہلی لہر کے دوران جو فعال کردار ادا کیا گیا تھا اب ایسی فعالیت کہیں نظر نہیں آتی۔ تمام انتظامیہ اپوزیشن کے جلسوں کو ناکام کرنے پر جتی ہوئی ہے۔ پہلے کی طرح نہ تو غیر ملکی پروازوں پر آنے والے مسافروں کو کوارنٹائن کیا جا رہا ہے نہ ہی ہسپتالوں کی استعداد کار بڑھانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر آتی ہے۔ یقیناً اس حکومتی عدم کارکردگی کا ملبہ اپوزیشن پر بھی گرے گا۔

حکومت نے ان شہروں کے اعداد و شمار کی تشہیر کی ہے جہاں اپوزیشن نے عوامی اجتماعات کیے ہیں وہاں پر کرونا کے کیسز میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ان حالات میں لگتا ہے کرونا کے کیسز اس حد تک بڑھ جائیں گے کہ اپوزیشن کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں بچے گا کہ وہ اپنی تحریک کو جاری رکھ سکے اور خاص کر اسلام آباد کے یخ موسم میں ایک طویل دھرنا دے کر پی ٹی آئی کے ماضی کے دھرنے کی تاریخ دہرا سکے۔ اس صورت میں اپوزیشن کے پاس ایک ہی بڑا ہتھیار بچے گا کہ وہ اجتماعی طور پر اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائے۔

تاہم اس دوران اپوزیشن جماعتوں کو اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا سامنا ہو سکتا ہے اسی طرح شاید پیپلز پارٹی سندھ حکومت چھوڑنے پر بھی آمادہ نہ ہو پائے۔ اس وقت مولانا فضل الرحمان اپنی سیاسی کاریگری استعمال میں لاتے ہوئے تمام اپوزیشن جماعتوں سے استعیفے اکٹھے کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنی جماعت کے استعفے انھوں نے پہلے ہی اپنی واسکٹ کی جیب میں ڈالے ہوئے ہیں۔ مولانا صاحب عمران حکومت کو ہٹانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے ذہن بنا چکے ہیں جس کی ایک جھلک وہ ملتان میں دکھا چکے ہیں۔

اجتماعی استعفوں کے باوجود بھی آئینی طور پر حکومت کو سینٹ الیکشن کرانے سے روکا نہیں جا سکتا لہذا اس وقت اپوزیشن سخت قسم کے مخمصے میں پھنسی نظر آتی ہے ایک طرف تو اس کو کرونا پھیلانے کے الزام کا سامنا ہوگا اور اگر حکومت سینٹ کے الیکشن کرا گئی تو عمران خان کافی طاقتور بن کر سامنے آئیں گے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کرونا کی دوسری لہر اچانک غائب ہو جائے اور اپوزیشن ایک بھرپور دھرنا دے کر حکومت کو پسپائی پر مجبور کر دے۔

اس سلسلے میں کچھ طاقتوں کی مداخلت سے ایک عبوری معاہدے کی بازگشت بھی سنائی دی جا رہی ہے جس کے تحت سینٹ کے الیکشن کروا کر پی ٹی آئی کو اکثریت تو مل جائے گی تاہم اس کے بدلے اپوزیشن کو راضی کرنے کے لئے مڈ ٹرم الیکشن کرا دیے جائیں گے اور یہ الیکشن غیر جانبدار ایمپائر کروائیں گے۔ لگتا ہے اپوزیشن کا سارا زور اسی دوسرے ٹارگٹ کو حاصل کرنے پر لگا ہوا ہے۔ تاہم اس انتظام میں کرونا کا بھی ایک اہم رول ہو گا۔ کرونا کی یلغار خوفناک حد کراس کر گئی تو تمام فارمولے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).