زائر حرمین ___ اذن سفر اور سفر پر روانگی



اذن سفر سے کوئی سوا دو سال قبل ہم نے رب کعبہ کے حضور حاضری کا قصد کیا۔ آغاز میں عمرہ پر جانے کے متمنی افراد کی تعداد چار تھی جو ’لوگ آتے گئے، کارواں بنتا گیا‘ کے مصداق گیارہ ہو گئی۔ تیاری ہونے لگی۔ لیکن واقعات کا تسلسل کچھ یوں بنا کہ ہم جا نہ سکے۔ پلان میں ترمیم کر کے دیکھا پھر بھی بات نہ بنی تو یہ سوچ کر خود کو تسلی دینے کی کوشش کی کہ شاید ابھی بلاوا ہی نہیں آیا اور یہ کہ کون ہے جو وہاں بلاوے کے بغیر جا سکے۔ لیکن باوجود خود کو دی گئی اس تسلی کے، جب جب کسی کے عمرہ پر جانے کا سنتے تو اک اداسی دل کا احاطہ کر لیتی کہ پتا نہیں ہم کیوں نہیں جا پا رہے۔ معلوم نہیں کب جا سکیں گے۔

اور پھر۔ تقریباً اچانک ہی ہمیں ارض مقدس جانے کا اذن مل گیا اور محض سات یا دس دن میں ویزا، ٹکٹس اور دوسرے تمام معاملات نمٹ گئے۔ ضروری اشیاء کی خریداری ہو گئی اور روانگی کا دن بھی آن پہنچا۔

اب ہم کل چھ افراد تھے۔ میں، امی، بھائی، بھابھی اور ان کے دو چھوٹے چھوٹے بچے۔ محمد اور مریم۔ امی اور بھائی کو پہلے بھی شرف زیارت حاصل تھا۔ امی کی خوشی کا سبب یہ تھا کہ وہ قریباً تیس سال بعد دوبارہ خانہ کعبہ کو دیکھ سکیں گی۔ میں اور بھابھی اس لیے پرجوش تھے کیونکہ یہ ہماری پہلی حاضری تھی۔

روانگی چار فروری کی صبح چار بجے تھی۔ ضوابط کے تحت بین الاقوامی روانگی سے چار گھنٹے قبل ائرپورٹ پر موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔ سو رات بارہ بجے ہم اسلام آباد انٹرنیشنل ائرپورٹ پر تھے۔ ائرپورٹ پر یخ بستہ ہواؤں نے ہمارا استقبال کیا۔ امیگریشن، بورڈنگ پاس وغیرہ کے حصول سے فراغت پا کر یونہی گرد و نواح کا مشاہدہ کرنے لگے تاوقتیکہ فلائٹ کی اناؤنسمنٹ ہو گئی اور ہم خراماں خراماں جہاز کی طرف بڑھنے لگے۔ میرا خیال تھا جہاز میں بیٹھے ہی نیند آ جائے گی کیونکہ گھڑی پر نظر آنے والا وقت میرے سونے کے مقررہ اوقات سے تجاوز کر چکا تھا۔

لیکن ایسا نہ ہوا۔ عمرہ کے احکامات و ہدایات سے متعلق کتاب نکال کر ورق گردانی شروع کر دی۔ بالآخر خوابوں کی وادی میں اترنے لگی کہ اچانک محمد نے، جو ابھی تک پر سکون نیند سو رہا تھا، رونا شروع کر دیا۔ معلوم ہوا اسے حرارت ہونے لگی تھی۔ باقی کا سارا سفر اسی طرح گزر گیا۔ اور ساری رات میں آدھے گھنٹے سے زیادہ کی نیند نہ لے پائی۔ صبح کی پو پھوٹنے لگی تو توجہ اپنے سامنے سیٹ میں نصب سکرین پر کر لی۔ سکرین پر درج مختلف آپشنز کا جائزہ لیا۔

سب سے دلچسپ اپنے طیارے کی اڑان کی تفصیلات دیکھنے کی آپشن لگی۔ گاہے بگاہے سکرین پر نظر ڈالتی رہی۔ جب طیارہ طائف کے اوپر محو پرواز تھا تو خیال آیا کہ یہ وہی شہر ہے جہاں نبی کریم ﷺ پر پتھر برسائے گئے تھے۔ اتنے کہ وہ لہولہان ہو گئے تھے۔ کیا اب بھی اس شہر کی مٹی میں آپ ﷺ کے لہو مبارک کے آثار، اس کے نقوش باقی ہوں گے؟! معلوم نہیں۔

جہاز اپنی مخصوص رفتار سے پرواز کرتا جدہ لینڈ کر گیا۔ وسیع و عریض ائرپورٹ پر بے شمار طیارے دیکھ کر محمد نے خوشی کا بھرپور اظہار کیا۔ صبح کے قریباً ساڑھے آٹھ بجے کا وقت ہو گا۔ صاف شفاف نیلے آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے اور فضا میں ایک خوشگوار خنکی تھی۔

امیگریشن وغیرہ سے فارغ ہو کر ائرپورٹ کے دوسری جانب نکلے تو مختلف سعودی ٹیلی کام کمپنیوں کے نمائندے اپنے پیکجز کے ساتھ موجود تھے۔ ابتدائی طور پر ایک سم لے کر اپنے بک کردہ ڈرائیور کو کال کر کے اپنی آمد سے مطلع کیا۔ مختصر انتظار کے بعد ہی ہماری گاڑی آ موجود ہوئی۔ سامان لوڈ کیا گیا اور ہم جدہ سے مکہ کی جانب روانہ ہو گئے۔

٭٭٭٭             ٭٭٭٭

عروج احمد۔ کرکٹ، کمپیوٹر، سیاست، فوٹوگرافی اور سیاحت سے شغف ہے۔ کتابوں سے رشتہ بہت پرانا ہے۔ لکھنا شوق ہے اور فلیش فکشن میں طبع آزمائی کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ گاہے گاہے بلاگ بھی لکھتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).