تحریک انصاف کا شدید احتجاج‘ اپوزیشن لیڈر کے مشورے پر اجلاس ملتوی: سپیکر کے سامنے کھڑے ہو کر نعرے بازی‘ ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی


\"\"

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + نوائے وقت رپورٹ + نیوز ایجنسیاں) قومی اسمبلی کا گزشتہ روز منعقد ہونے والا اجلاس تحریک انصاف کی شدید احتجاج اور سرکاری بنچوں کی جوابی کارروائی کے باعث بدترین ہنگامہ آرائی کا شکار ہو گیا۔ پون گھنٹہ تک ایوان کی کارروائی معطل رہی جس کے بعد سپیکر ایاز صادق کو مجبوراً اجلا س آج شام چار بجے تک ملتوی کرنا پڑا۔ وقفہ سوالات اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی تقریر کے بعد ایوان مچھلی منڈی بن گیا، نکتہ اعتراض پر بات نہ کرنے کا موقع ملنے پر تحریک انصاف کے ارکان نے سپیکر کے ڈائس کا گھیرائو کر لیا،انہوں نے ایجنڈہ اور سوالات کے تحریری جوابات کی کاپیاں پھاڑ کر سپیکر پر اچھال دیں۔ ایوان میں سیٹیاں بجائی گئیں۔ تحریک انصاف کے ارکان،’’ نواز شریف چور ہے‘‘ اور ’’ جھوٹا ، جھوٹا‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ سرکاری بنچوں سے ’’ عمران خان چور ہے‘‘ اور ’’ دنیا کا بدترین انسان، عمران خان ‘‘ کے نعرے بلند کئے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ تحریک استحقاق پیش کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ اپنے اثاثوں کے بارے میں وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں جو بیان دیا تھا اس پر سپریم کورٹ میں ان کے وکیل نے کہا تھا کہ وہ سیاسی بیان تھا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اس مقدس ایوان میں جھوٹ بولا اور قوم سے دھوکہ کیا جس پر وہ قوم سے معافی مانگیں۔ ان کی تقریر کے دوران ہی وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق جواب دینے کیلئے تین بار اٹھے تو سپیکر نے ان سے کہا کہ وہ بیٹھیں، خورشید شاہ کے بعد انکی باری آئیگی۔ جب ما ئیک خواجہ سعد رفیق کو ملا تو تو ساتھ ہی تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے بولنے کی اجازت طلب کی، تاہم سپیکر نے کہا کہ انہیں کواجہ سعد رفیق کے بعد باری ملے گی جس پر تحریک انساف کے تمام ارکان نے جمع ہو کر سپیکر کے ڈائس کا گھیرائو کر لیا۔ اس دوران پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کے تمام ارکان اپنی نشتوںپر بیٹھے رہے۔ اس دوران سپیکر ڈائس کے ساتھ ہی پارلیمانی امور کے وزیر مملکت شیخ آفتاب اور شاہ محمود قریشی کے درمیان بات چیت چلتی رہی جو ناکام رہی۔ سپیکر نے یہ صورتحال دیکھ کر کارروائی پندرہ منٹ کیلئے ملتوی کر دی۔ اس اقدام کے بعد بھی تحریک انساف اور سرکاری ارکان ٹولیاں بنا کر ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔ ایک موقع پر سپیکر کو دونوں کے درمیان تصادم کا اندیشہ لاحق ہو گیا جس پر انہوں نے وفاقی وزیر زاہد حامد کو ہدائت کی کی سرکاری بنچوں سے کوئی رکن آگے نہ بڑھے جس پر وفاقی وزراء متحرک ہوئے، ایوان کی کارروائی معطل ہونے کے بعد خواجہ سعد رفیق، پیپلز پارٹی کے راہنمائوں اور شاہ محمود قریشی کے درمیان بات چلتی رہی۔ سرکاری ارکان کے نعرے سن کر شاہ محمود قریشی نے ان سے شکوہ بھی کیا ۔ جب بھی تحریک انصاف بولنے کی اجزت طلب کرتی، سپیکر کا جواب ہوتا کہ نکتہ اعتراض پر پؤ بولنے کا حق صرف اپوزیشن کو حاصل نہیں، سرکاری ارکان بھی بات کر سکتے ہیں۔ شیخ رشید احمد، تحریک انصاف کے ارکان کے عقب میں اور اپنی نشست کے ساتھ کھڑے رہے، شور شرابے کے دوارن سپیکر نے متعدد بار کہا کہ خواجہ صاحب آپ بولیں۔ سعد رفیق نے جواب دیا کہ پہلے ان کی غنڈہ گردی تو بند کرائیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی ایوان میں خاموشی سے بیٹھے رہے۔ ایوان کی کارروائی کی معطلی کے پندرہ منٹ مکمل ہوئے تو سعد رفیق نے تقریر شروع کی لیکن اسی دوران تحریک انصاف کے ارکان نعرے لگاتے لابی سے برآمد ہوئے اور دوبارہ سپیکر کے ڈائس کا گھیرائو کر کے پھر احتجاج شروع کر دیا، سرکاری ارکان بھی میدان میں آ گئے پھر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے مشورے پر کارروائی آج تک ملتوی کر دی گئی آج تحریک انصاف کو سمجھانے کی کوشش کی جائے گی۔ سید خورشید شاہ نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو متنازعہ نہ بنایا جائے کیونکہ عوام میں سرگوشیاں ہو رہی ہیں کہ اب چیف جسٹس اپنا بندہ لگ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سیاستدانوں کیلئے سیاسی کعبہ ہے۔ جہاں عوامی امنگوں کی ترجمانی کی جاتی ہے اسی لئے پارلیمنٹ ہر ادارے سے سپریم ہے۔پارلیمنٹ پر ایک حملہ 2014ء میں حملہ ہوا تو ہم نے مقابلہ کیا۔ وزیر اعظم کے بیان سے پارلیمنٹ پر دوسرا حملہ اندر سے کیا گیا ہے۔ ہر موقع پر ہم پارلیمنٹ کے تحفظ کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن گئے اس کے بدلے میں گالیاں کھائیں، فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سنے اور کردار کشی برداشت کی۔ سپیکر ایاز صادق بولے کہ عدلیہ کو آزاد رہنے دیا جائے۔ چیف جسٹس پاکستان کا ہے کسی جماعت کا نہیں انہیں متنازعہ نہ بنایا جائے۔ خورشید شاہ نے جواب دیا کہ میں چیف جسٹس پر انگلی نہیں اٹھا رہا صرف عوام کی سوچوں کی بات کرتا ہوں کس کس کے منہ کو بند کریں گے۔ خورشید شاہ نے تقریر میں کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور عدالت مقدس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ \’ایوان میں ہمارے ایک ایک لفظ کی اہمیت ہے۔ ایک بار غلطی مان لیں ہم معاف کر دیں گے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ پانامہ پیپرز کے حوالے سے معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس حوالے سے ایوان میں بات نہیں ہو سکتی‘ قائد حزب اختلاف نے جو بات کی ہے وہ نکتہ اعتراض کے سوا کچھ نہیں‘ اس لئے اس پر تحریک استحقاق پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میں نے چیمبر میں رولز دیکھ کر رولنگ دی ہے۔ قبل ازیں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کو مشوروں کی ضرورت نہیں وہ عقل کل ہیں۔ سپیکر نے خواجہ سعد رفیق کو جوابی تقریر کرنے کیلئے کہا تو ایوان مچھلی منڈی بن گیا۔ پی ٹی آئی کے ارکان نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اپوزیشن پوائنٹ آف آرڈر مانگتے رہے لیکن سپیکر کہتے رہے کہ میں نے پوائنٹ آف آرڈر پر پہلے حکومتی ارکان کو بولنے کی اجازت دی ہے اس کے بعد آپ کو بولنے کی اجازت دوں گا۔ سعد رفیق نے کہا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ الزامات لگاتے ہیں اور جواب دینے نہیں دیتے۔ یہ لوگ اپنی تنخواہیں لینے آئے ہیں یہ جمہوریت کے دشمن ہیں جمہوریت کے خلاف سازش کرنے آئے ہیں۔ بدتمیزی برداشت نہیں کی جائے گی۔ قبل ازیں قومی اسمبلی میں پی آئی اے کے حویلیاں میں حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کرائی گئی۔ رواں اجلاس کے پینل آف چیئرپرسنز میں پرویز ملک، غلام مصطفیٰ شاہ، محمود بشیر ورک، نعیمہ کشور، جی جی جمال اور اقبال محمد علی شامل ہیں۔ نومنتخب رکن قومی اسمبلی عبدالحکیم بلوچ نے اپنا حلف اٹھا لیا۔ آن لائن کے مطابق پی ٹی آئی کے اراکین جب سپیکر ڈائس کا گھرائو کررہے تھے تو مسلم لیگ (ن) کے دس اراکین کے لگ بھگ پی ٹی آئی کے مشتعل ارکان پر حملہ کرنا چاہا لیکن سپیکر کی ہدایت پر زاہد حامد نے بیچ بچائو کرالیا۔ اور ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ احسن اقبال پی ٹی آئی کے اراکین کی فون پر ویڈیو بناتے رہے۔ پی ٹی آئی کے رکن ایم این اے امجد خان نیازی نے ایوان میں ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ ایم کیو ایم بھی احتجاج میں شریک نہیں ہوئی۔ سعد رفیق نے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی ہنگامہ آرائی کو غنڈہ گردی قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ بلیک میلنگ کی سیاست قبول نہیں کریں گے ٗعمران خان اور پی ٹی آئی کو جمہوریت کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ٗ تحریک انصاف کے چیئر مین گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں ٗ یوٹرن کے ماہر ہیں ٗ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی میں پیسے لینے آئے ہیں کیا یہ قوم کے ساتھ بد یانتی نہیں ٗ وزیر اعظم نواز شریف کے ایوان میں کیے گئے خطاب اور عدالت میں دئیے گئے جواب میں کوئی فرق نہیں ٗپانا ما معاملہ پر بحث کیلئے تیار ہیں ٗ اپوزیشن کو ہماری بات بھی سننا ہوگی ٗ بلاول بھٹو زرداری کرپشن کی چوری کھاکر جوان ہوئے ہیں ٗشاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی کے باہر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ روز ایوان میں تحریک استحقاق اور تحریک التوا جمع کرائی گئی۔ وزیراعظم نے جو موقف ایوان میں اپنایا سپریم کورٹ میں اس کی نفی کی۔ وزیراعظم قومی اسمبلی میں آکر بتائیں ان کا کونسا موقف درست ہے۔ شدومد کے ساتھ اپنا موقف پیش کریں گے۔ یہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ سب بولتے ہیں‘ پی ٹی آئی کو بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ سپیکر نے جانبدار ہونے کا ثبوت دیا۔ بند کمروں میں رولنگ نہیں دی جاتی۔ سپیکر نے چھپ کر رولنگ دی مسترد کرتے ہیں۔ آج ایوان میں کہانی وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے گزشتہ روز ٹوٹی ہے‘ اپنا موقف دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پانامہ کیس لگنے تک ہم رابطہ عوام مہم شروع کرینگے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments