غریبی بھگاؤ قاعدہ: ش سے شہد، ز سے زیتون


وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں درخت اگاؤ مہم کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے متعدد مسائل پر گفتگو کی ہے اور ملک سے بیروزگاری کے خاتمے ، آلودگی سے پاک ماحول فراہم کرنے اور برآمدات میں اضافہ کے منصوبوں کا انکشاف کیا ہے۔ ان کے معاون خصوصی برائے ماحولیات ملک امین اسلم نے اعداد و شمار سے یہ ثابت کیا کہ اس منصوبہ کے مطابق ملک 43 ارب روپے کا شہد برآمد کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ البتہ منصوبہ کی ’تکمیل ‘ کی تاریخ نہیں دی گئی۔

اسلام آباد میں منعقد ہونے والی یہ تقریب ’شہد کے لئے ایک ارب درخت‘ نامی منصوبہ کے حوالے سے منعقد ہوئی تھی۔ یہ منصوبہ اس سے پہلے ’بلین ٹری سونامی منصوبے‘ کا حصہ ہے۔ اس منصوبہ کے تحت حکومت پانچ برس میں دس ارب درخت لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں بھی بلین ٹری سونامی منصوبہ کا تذکرہ ہؤا تھا جس کے دوران اس منصوبہ کے لئے مختص کئے گئے 120 ارب روپے میں خرد برد کے الزامات بھی سامنے آئے تھے۔ چیف جسٹس نے شجر کاری مہم پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں تو اسلام آباد یا کسی دوسری جگہ کوئی درخت لگے ہوئے دکھائی نہیں دیتے‘۔ یہ معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر غور ہے۔

وزیر اعظم نے آج جس منصوبہ کا ذکر کیا ہے اس کے تحت ملک بھر میں ایک ارب ایسے درخت لگائے جائیں گے جن پر شہد کی مکھیوں کے چھتے لگیں گے اور ان سے شہد پیدا کرکے برآمد کیا جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس منصوبہ کے متعدد فائدے گنوائے ہیں۔ ایک تو اس سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی ہوگی، ملک میں سبزہ دکھائی دینے لگے گا جبکہ سابقہ حکومتوں نے ملک کے ستر فیصد جنگلات ختم کرکے کنکریٹ کی عمارتیں کھڑی کردی تھیں۔ اب ماحول دوست حکومت اس رجحان کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک سے آلودگی کا خاتمہ اور صاف ستھرا ماحول فراہم کرنا ان کی حکومت کی ’ذمہ داری‘ ہے۔ وزیر اعظم نے البتہ یہ نہیں بتایا کہ یہ جنگلات کہاں لگیں گے۔ کیا سابقہ جنگلات میں بدعنوان لیڈروں کی بنائی ہوئی عمارتیں گرا کر نئے درخت اگا ئے جائیں گے اور شہد کی پیدا وار کا اہتمام ہو گا؟

اس منصوبہ سے دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ لوگوں کو شہد کی پیداوار کے کام پر لگایا جائے گا۔ اس طرح مقامی لوگ جب درختوں پر شہد کی مکھیوں کے چھتے لگا کر ان کی فروخت سے روپے کمانے لگیں گے تو وہ خود ہی جنگلات کے محافظ بھی بنیں گے۔ یعنی ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہوجائے گا۔ ایک تو ملک میں جنگلات میں اضافہ ہوگا اور دوسرے ان جنگلات کی حفاظت کی در سری بھی ختم ہوجائے گی۔ جو لوگ شہد پیدا کرنے کے کاروبار سے وابستہ ہوں گے ، وہی جنگلات کی حفاظت کریں گے کیوں کہ یہ صرف درختوں کی نگہداشت نہیں ہو گی بلکہ ان کا روزگار بھی انہی درختوں پر شہد کی مکھیوں کے چھتوں کی صورت میں لٹک رہا ہوگا۔

ایک تیسرا فائدہ برآمدات میں اضافہ اور ملک کے زر مبادلہ کے مسائل کو ختم کرنے کا بھی ہوگا۔ وزیر اعظم کا خیال ہے کہ شہد کے درخت لگنے اور پیداوار میں اضافہ سے علاقے کے نوجوانوں کو بیروزگاری سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ شہد کے کاروبار سے منسلک ہوکر وہ اپنی غربت اور علاقے کے مسائل ختم کرنے میں کردار ادا کریں گے۔ وزیر اعظم کی تصدیق کے لئے ان کے معاون خصوصی برائے ماحولیات ملک امین اسلم نے اعداد و شمار کے ذریعے اس منصوبہ سے حاصل ہونے والے فوائد کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ارب درخت لگنے اور ان پر شہد کی مکھیوں کے چھتے اگانے کا کام مکمل ہونے کے بعد ملک میں 70 ہزار میٹرک ٹن شہد پیدا ہوگا۔ اس سے 87 ہزار لوگوں کو روزگار ملے گا اور یہ سب ’گرین جابس‘ ہوں گی یعنی اس پیشہ سے وابستہ لوگ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ نہیں کریں گے۔ حکومت پاکستان کے ’کوالٹی سرٹیفکیٹ ‘ کے ساتھ یہ شہد برآمد کرنے سے ملک کو 43 ارب روپے کا زر مبادلہ حاصل ہوگا۔ بس وہ اس منافع بخش سہانے پروگرام کی میعاد بتانا بھول گئے کہ جب تک ایک ارب درخت جوان اور شہد کی پیدا وار شروع ہوگی اس وقت تک کتنی دہائیاں بیت چکی ہوں گی اور پاکستانی معیشت کو مزید کتنے نفوس کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔

وزیر اعظم اگرچہ شہد پیدا کرو مہم کے افتتاح کے لئے آئے تھے لیکن انہوں نے اپنی بے پناہ ذہانت کو ارزاں کرتے ہوئے ملک کو مالا مال کرنے اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے ایک اورمنصوبہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ملک میں زیتون کے درخت لگانے چاہئیں۔ زیتون کی پیداوار سے ملک خوردنی تیل کی ضرورت میں خود کفیل ہوگا ۔ وزیر اعظم نے انکشاف کیا کہ پاکستان ہر سال 3 ارب ڈالر کا خوردنی تیل درآمد کرتا ہے۔ زیتون کی پیداوار سے ایک تو پاکستان اس ضرورت میں خود کفیل ہوجائے گا اور دوسرے اضافی تیل دوسرے ملکوں میں بھیج کر پاکستان خوب دولت بھی کما سکتا ہے۔ عمران خان نے آووکاڈو کے درخت اگانے کا مشورہ بھی دیا اور بتایا کہ وہ زیتون اور آووکاڈو کے درخت خود بنی گالہ میں اگا چکے ہیں، اس لئے جانتے ہیں کہ پاکستان میں یہ درخت اگا کر ان سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ایسے رہنما کے بارے میں اگر ان کے حامی یہ کہتے ہیں کہ ’ایسا ہوتا ہے لیڈر اور ایسا ہوتا ہے ویژن‘ تو کیا غلط کہتے۔ عمران خان منتخب تو سیاسی رہنمائی کے لئے ہوئے تھے لیکن انہوں نے جس باریک بینی سے معیشت و زراعت کا ’مطالعہ و مشاہدہ‘ کیا ہے، اس کی بنیاد پر وہ قوم کو غربت اور بے چارگی سے بھی نجات دلوادیں گے۔ بس ہمت نہ ہارنا شرط ہے۔ غربت بھگاؤ قاعدہ تو تیار ہوگیا، اسے ازبر کرکے پھل کا انتظار باقی ہے۔

وزیر اعظم کی باتیں اور منصوبے درست اور جائز ہوں گے لیکن فرق صرف یہ ہے کہ مملکت پاکستان، وزیر اعظم کا بنی گالہ میں سینکروں کنال پر بنا ہؤا گھر نہیں ہے جہاں صرف چند افراد رہتے ہیں۔ اس ملک میں 22 کروڑ افراد آباد ہیں اور آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ آبادی اور اس کی کفالت یعنی ان کی غذائی ضرورتوں کو پورا کرنا شاید ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن یہی وہ واحد مسئلہ ہے جس پر بات کرتے ہوئے بڑے سے بڑے لیڈر کے بھی پر جلتے ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں ابھی تک کوئی لیڈر یا حکومت مولوی کے اس دعویٰ کا جواب نہیں دے سکی کہ ’جو زندگی دیتا ہے، وہی اس کا رزق پیدا کرتا ہے‘۔ مولوی کی بات اپنی جگہ شاید درست ہو لیکن یہ رزق پیدا کرنے کے لئے جس تدبیر اور کاوش کی ضرورت ہوتی ہے، پاکستان میں اس کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ عمران خان کی بصیرت کے مطابق اگر درخت اگانے اور شہد و تیل پیدا کرنے کا انتظار کیا گیا تو اس وقت تک ملک بیرونی قرض اور آبادی کے ایک ایسے بوجھ تلے دب چکا ہوگا جس سے نکلنا ناممکن ہوجائے گا۔

تحریک انصاف کی حکومت ملک کو معاشی طور سے خود کفیل کرنے، قرض نہ لینے ، پیداوار ی معیشت استوار کرنے، بدعنوانی کے خاتمہ ، شفاف، آزاد اور صحت مند معاشرہ تعمیر کرنے کے وعدے پر برسر اقتدار آئی تھی۔ اس انقلابی منصوبہ کو نیا پاکستان اور پھر مدینہ ریاست کا نام دیا گیا۔ عمران خان کے سیاسی منشور کے مطابق حکومت کی پہلی پانچ سالہ مدت میں غریبوں کو 50 لاکھ گھر بناکر دینے اور ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بیروزگار لوگوں کی تعداد پونے دو کروڑ تک پہنچ چکی ہے، ملک کی پیداواری صلاحیت منفی ہوگئی ہے، قرضوں کو لعنت اور سابقہ حکومتوں کی چوری قرار دینے والے ہونہار عمران خان کی حکومت کے اڑھائی سال میں 23 ارب 60 کروڑ ڈالر کے نئے قرضے لئے گئے ہیں۔ صرف اس مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران پاکستان کو مزید ساڑھے چار ارب ڈالر کا زیر بار کیا گیا ہے۔ یہ قرض کسی ترقیاتی یا پیداواری منصوبہ میں نہیں لگے گا بلکہ اس سے قرضوں پر سود اتارا جائے گا یا زر مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیا جائے گا۔ پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ اب کراچی کے جزیروں پر تعمیرات اور لاہور میں راوی ریور سٹی کی تکمیل سے منسلک کردیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کسی ناکامی کو تسلیم کرنے اور اصلاح کی گنجائش پیدا کرنے کے کسی اصول کو نہیں مانتے کیوں ’وہ سب جانتے ہیں‘ اور انہیں عقل کے علاوہ اپنی ہٹ دھرمی پر بھی بھروسہ ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ معاشی حساسیات ضد اور انا کو نہیں مانتیں ۔ اس کے لئے منصوبہ بندی، معروضی صورت حال کی درست تفہیم اور ٹھوس مگر درست منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔

معاشی احیا کے لئے عمران خان کا منصوبہ سیاسی مخالفین کو چور اچکے قرار دے کر لشٹم پشٹم ملک کو گھسیٹنے تک محدود ہوچکا ہے۔ باقی ماندہ وقت مرغیاں پالنے، انڈے فروخت کرنے یا اب شہد اور زیتون پیدا کرنے کے مشورے دینے پر صرف کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم معاشی و سماجی بحران کا ادراک کرنے اور خود کو درپیش سیاسی چیلنج کو سمجھنے سے انکار کرتے ہیں۔ وہ شاید تہ دل سے سمجھتے ہیں کہ مذہبی نعرے بازی، روحانیت کی برکات، بھارت کے خطرے کا ڈھول پیٹنا اور کامیابی کا ڈھونگ، انہیں ابدی سیاسی زندگی دے سکتا ہے۔ ان کی حکومت یقیناً پانچ سال کی مدت پوری کرسکتی ہے لیکن ان کا انداز حکومت معیشت و سیاست کے علاوہ قومی سلامتی اور خارجہ تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کی تلافی کون اور کیسے کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali