اپوزیشن بمقابلہ اپوزیشن


اُمید ایسا رشتہ ہے جو حال کو مستقبل سے جوڑ دیتا ہے اور وقت کو حالات سے بے خبر حوصلہ دیتا ہے۔ یہ اُمید ہی ہے جو ان دیکھے خوابوں کو راہ اور تعبیر کا سامان فراہم کرتی ہے۔ میرے لیے آج کل سب سے بڑا سوال ہی یہ ہے کہ کیا عوام نا اُمید ہو رہے ہیں؟

نظام کب مرتے ہیں جب عوام کو معاشی، سیاسی اور عدالتی انصاف پر یقین ختم ہو جاتا ہے۔ بظاہر سب ٹھیک ہوتا ہے، لوگ ہر طرح سے شریک ہوتے ہیں لیکن بے یقینی کے ساتھ، متحرک ہوتے ہیں مگر بغیر تحریک کے۔ ہائبرڈ نظام شہریوں کو ایک روبوٹ بنا دیتا ہے جو چلتے پھرتے ہیں مگر سوچ سمجھ سے عاری۔

پاکستان کے موجودہ حالات میں ایک تحریک کے تمام جزیات بدرجہ اَتم موجود ہیں لیکن کیا حزب اختلاف کی تحریک اپنے اثرات مرتب کر پا رہی ہے۔ بیس ستمبر کو حزب اختلاف کی کل جماعتی کانفرنس کے بعد سے اب تک اپوزیشن کس حد تک اپنا بیانیہ عوام تک پہنچا پائی ہے؟ اور کیا یہ بیانیہ عوام میں پذیرائی حاصل کر پایا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو سیاست کے طالبعلم کے طور پر پوچھے جاتے ہیں۔

یوں سمجھیے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی نے پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس کو وہ تمام لوازمات فراہم کر دیے جو ایک کامیاب عوامی تحریک کا موجب بن سکتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں بجائے حکومت کو دفاعی صورت حال سے دوچار کرنے کے خود مدافعانہ حیثیت اختیار کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ میڈیا اور عوامی محاذ پر غیر روایتی جنگ کا روایتی انداز سے دفاع ہے۔

تحریک انصاف کی خراب معاشی کارکردگی، اسٹیل مل، پی آئی اے، ریلویز جیسے بڑے اداروں کی زمین بوسی، چینی، ادویات، گندم، پٹرول اور ایل این جی جیسے بڑے اسکینڈلز، روٹی، اشیائے خورد و نوش میں افراط زر اور روز بروز بڑھتی مہنگائی جیسی تیار ڈشوں کے باوجود اپوزیشن حکومتی دیگوں کا چڑھاوا بن رہی ہے۔

اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے ترجمان یا تو عدم دستیاب ہیں یا بیانیہ کے بوجھ تلے دبے دکھائی دیتے ہیں۔ شام سات سے رات گیارہ بجے ٹی وی چینلوں پر حکومت کو رگڑا لگانے کی بجائے کسی حکومتی ترجمان کی چھوٹی سی اڑنگی پر لڑکھڑا کر گر پڑتے ہیں۔۔۔ بظاہر جیتے ہوئے مناظروں کو حکومتی ترجمان یوں چیلنج کرتے ہیں کہ اپوزیشن منھ چھپا کر نکل لیتی ہے۔ یا تو اپوزیشن جماعتوں کے ترجمانوں میں ایک صفحے پر ہونے کے باوجود رابطے کا فقدان ہے یا وہ اس ’بدتہذیب ڈبے‘ اور ہتھیلی میں موجود ڈبیا سے آلے کے سامنے بظاہر بے بس دکھائی دیتی ہے۔

مانا کہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے جس کا اظہار وزیراعظم بارہا کر چکے ہیں، عدالتیں بھی کوئی زیادہ مسئلہ نہیں جیسا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دور میں دیکھنے میں آتا رہا۔۔ تاہم عوامی تحریک کے چند لوازمات پر اپوزیشن کو ضرور غور کرنا ہو گا۔

اپوزیشن جماعتوں کا بیانیہ سازی کے لیے کیا لائحہ عمل ہے اور جلسوں کے علاوہ اپوزیشن عوام کی ذہن سازی میں کیا کردار ادا کر رہی ہے۔ حال ہی میں ایک تحقیق نظر سے گزری جس میں عوام کو متوجہ کرنے کے لیے لفاظی نہیں ’انگیجمینٹس‘ پر زور دیا گیا یعنی بڑے گروپس کے بجائے چھوٹے اور موثر گروپس کے ذریعے کس طرح رائے سازی کی جاتی ہے جو تحریکوں کا اہم خاصہ ہوتا ہے۔

کیا اپوزیشن نے کسانوں، مزدور یونینوں، طالب علموں اور سیاسی ورکروں کی مستقل شمولیت کا کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا ہے؟ جلسے جلوس، ریلیاں کسی حد تک عوامی جذبات کی عکاس ہوتی ہیں تاہم تحریکوں کو آگے بڑھانے کے لیے بیانیے کا موثر انداز سے پرچار بھی ضروری ہوتا ہے۔

اپوزیشن جماعتیں پہلی بار اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ لے کر سڑکوں پر آئی ہیں۔ بلوچستان سے گلگت بلتستان اور کراچی سے خیبر تک سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے مگر کیا پھر بھی اپوزیشن لانگ مارچ تک مطلوبہ عوامی حمائت حاصل کر پائے گی؟

دوسری جانب بڑی کامیابی سے خود اپوزیشن میں شامل جماعتوں نے استعفوں کے معاملے کا رخ پیپلز پارٹی اور سندھ اسمبلی سے استعفوں کی جانب موڑ دیا ہے حالانکہ دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی استعفے نہ دے کر لفاظی نہیں انگیجمینٹ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

پیپلز پارٹی پر ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کا بڑھتا دباؤ سینٹ انتخابات میں تحریک انصاف کی یک طرفہ جیت کی صورت نکل سکتا ہے اور پارلیمان میں اپوزیشن جماعتیں اپنی حیثیت کھو سکتی ہیں۔ لہٰذا اپوزیشن کو پیپلز پارٹی کی بات کو سمجھنا چاہیے۔

یہ تو طے ہے کہ کپتان کی حکومت کی میڈیا اسٹریٹجی کامیاب ہے۔ اپوزیشن کا مقابلہ غیر روایتی حریف سے ہے جو حکومت میں رہ کر بھی جارحانہ سٹروک کھیل رہی ہے جبکہ اپوزیشن مدافعانہ۔ اب سب نگاہیں اپوزیشن کے لانگ مارچ کی جانب ہیں، اپوزیشن مایوس عوام کی امیدوں کا محور نہ بن سکی تو سویلین بالادستی اور حقیقی جمہوریت کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).