مثبت اقدار کی عملی تجسیم اہم ہے



ہم جن اقدار کی تبلیغ کرتے ہیں ان کے مطابق زندگی نہیں گزارتے اور جن اقدار کے مطابق جیتے ہیں ، ان کا اظہار کرنا مناسب نہیں سمجھتے ۔ قول و فعل کا تضاد یہی ہے۔ ہم اپنی تقریر و تحریر میں قومی مفادات کو مقدم رکھنے کو افضل گردانتے ہیں لیکن میدان عمل میں ذاتی مفادات کے لیے قومی مفادات کو قربان کر دیتے ہیں۔

اپنے سرکاری و نجی اداروں میں ہم سب اکٹھے مل کر کام کرنے کو پیداوارانہ صلاحیتوں میں اضافے کا باعث سمجھتے ہیں لیکن ہم نے جزا و سزا کا ایسا نظام بنایا ہوا ہے جس میں پھندا کسی ایک فرد کے گلے کا ہی ہار بنتا ہے۔ تقریری مقابلوں میں فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں/ موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں سنا کرخوب داد سمیٹی جاتی ہے جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ہر موج تنہائی اور بے بسی کی صورت حال سے دوچار ہے اور مگر مچھ دریا کے بلاشرکت غیرے مالک بنے بیٹھے ہیں۔

دیانت، سچائی، جدت، ٹیم ورک اور زبان کو دل کا رفیق بنانے جیسی اعلیٰ اقدار کا خوب چرچا کیا جاتا ہے لیکن جب سچ بولنے کا وقت آتا ہے تو یہ جانچ پڑتال شروع ہو جاتی ہے کہ کہیں اس جرات رندانہ کے نتیجے میں ہماری مادی منفعتوں کو کوئی نقصان پہنچنے کا احتمال تو نہیں۔ ہمارا مخاطب اگر ہمیں نفع و ضرر پہنچانے کی قدرت رکھتا ہے تو ہم حرف حق کو زبان پر لانے سے اجتناب کرتے ہیں اور وہی کچھ کہتے ہیں جو اہل سطوت و حشمت سننے کے متمنی ہوتے ہیں۔ ہماری میٹنگز بھی کرسی صدارت پر براحمان ہستیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منعقد کی جاتی ہیں۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ اقدار تو وہی ہوتی ہیں جو عمل کی بنیاد بنتی ہیں۔ باقی ساری اقدار تو زبانی جمع خرچ کا ایندھن بننے کے لیے ہوتی ہیں اور دوسروں کو اپنے زہد و تقوی ٰ کا یقین دلانے کے لیے اسکرین کی زینت بنائی جاتی ہیں۔

ہمارے کاروباری اداروں میں افرادی قوت کو اثاثہ کہا جاتا ہے۔ یہ اور بات کہ جب منافع کی شرح کسی صورت کم ہونے کا امکان بھی ہو تو افرادی قوت کے یہ بیش قیمت اثاثے ردی کی ٹوکری کی نذر ہو جاتے ہیں۔ تکریم انسانیت کی اعلیٰ انسانی قدر زبانی کلامی قدربن کر رہ جاتی ہے اور سرمایہ کا تحفظ وہ جادو بن جاتا ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اجتماعی دانش سے بند گلی میں بھی راستہ مل جاتا ہے لیکن ہماری عملی قدر ہمیں حاکم و محکوم کے جبری رشتوں میں جکڑ دیتی ہیں۔

ہم اپنے ہر انسانی تال میل میں اپنی فتح کا علم بلند کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہماری زبانی کلامی قدر سب کو ساتھ لے کر چلنے کا اعلان کرتی رہتی ہے۔ ہم جانتے ہیں ایک اکیلا دو گیارہ ہوتے ہیں لیکن ہماری عملی قدر یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کو ہر ٹیم سے ماورا سمجھتے ہیں۔ ہم دل سے سمجھتے ہیں کہ ہماری ٹیم ہماری وجہ سے ہے اور ہم اپنی ٹیم کے سبب سے نہیں ہیں۔ اسی لیے کسی بھی مشکل کی گھڑی میں ہمیں اپنی ٹیم کے اراکین کو تاش کے پتوں کی مانند تتر بتر کرنے میں دیر نہیں لگتی۔

ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی عملی اقدار میں ہمیں نفسانفسی، آپا دھاپی، جو ہاتھ لگے لوٹ لو، اپنی بوٹی کے لیے کسی کا بکرا ذبح کر دو جبکہ زبانی کلامی اقدار میں بھائی چارہ، دوسروں کے لیے وہی طلب کرنا جس کی چاہت اپنے لیے ہو، وطن پرستی وغیرہ خاصی مقبول ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ قدر وہی باقی رہتی ہے جسے عمل کی شہادت نصیب ہو جائے۔ قدر جب کسی جیتے جاگتے انسان کے روپ میں مجسم صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے تو پھر وہ اپنے قرب و جوار میں موجود لوگوں کا رخ تبدیل کرنے کی سکت رکھتی ہے۔

کسی عاجز انسان سے ملاقات کے نتیجے میں ہی عاجزی کی سمجھ آتی ہے۔ مثبت عمل کیا ہوتا ہے اس کی تفہیم بنی نوع انسان کو اس وقت ہوئی جب وادی طائف میں پیغمبر آخرالزماں ﷺ نے اپنے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کو نہ صرف معاف کیا بلکہ ان کی آنے والی نسل کے اندر امکانات کی ایک دنیا بھی دیکھ لی۔ ہمارے وطن عزیز میں اور عالمی سطح پر ان دنوں رد عمل کی نفسیات عملی قدر کی شکل اختیار کر چکی ہے اور قومی یکجہتی محض زبانی کلامی قدر کا چولا پہن چکی ہے۔

آگ لگانے سے آگ لگتی ہے، بجھتی نہیں ہے۔ دل دکھانے سے دل دکھتا ہے، راضی نہیں ہوتا ہے۔ ہمیں اپنا قومی وجود سلامتی کے ساتھ قائم رکھنے کے لیے اپنی عملی و زبانی کلامی اقدار کے مابین دوئی کو ختم کرنا ہو گی۔ وہ دیکھنا ہو گا جو عالم اخفا میں ہے اور اگر ہمارا طرزعمل اینٹ کا جواب پتھر سے دینے تک ہی محدود رہا تو پھر شاید ہم زندہ تو رہیں گے لیکن ہمارے اندر زندگی کی حرارت عنقا ہوتی چلی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).