سانحہ آرمی پبلک اسکول۔۔۔ اتنے سال بعد بھی معاملہ جوں کا توں


سانحہ آرمی پبلک اسکول کو دو برس بیت گئے۔ مجھے یاد ہے کہ اس دن 12 بجے خبر آئی کہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں دہشت گرد گھس گئے ہیں پھر اپ ڈیٹس آتی رہیں۔ کئی گھنٹے گزرنے کے بعد مرنے والوں کی تعداد معلوم ہوئی تو پتہ چلا کہ 132 بچوں اور اساتذہ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا، اسی دن کی بات ہے کہ میں اپنی بیٹی کو اسکول لینے جا رہی تھی اور نہ جانے کس ادھیڑ بن میں تھی کہ لڑکھڑا کر سڑک پر گر گئی۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میری بیٹی تو اپنے اسکول میں محفوظ ہے لیکن ان والدین کا کیا حال ہوا ہوگا جب انہیں معلوم ہوا ہوگا کہ جس اسکول میں ان کا لخت جگر پڑھنے گیا ہے وہاں دہشت گرد گھس گئے ہیں اور قتل عام کر رہے ہیں۔

وہ ماں جس کا اکلوتا بیٹا اس سے صبح صبح فرمائش کر کے گیا ہوگا کہ امی جی آج بھنڈی کھاؤں گا، بہت دن سے آپ نے نہیں پکائی یا پھر امی آپ مجھے آج آلو کے پراٹھے پکا دیجیے گا مجھے بہت پسند ہیں۔

کوئی بچہ دیر سے اٹھا ہوگا اور اپنے پرندوں کو دانہ پانی دیے بغیر اسکول چلا گیا ہوگا یہ سوچ کر کہ کوئی بات نہیں 1 بجے تک گھر آجاؤں گا پھر پانی پلا دوں گا۔

ایسے کتنے کام ہوں گے جو ماؤں نے اپنے بچوں کے لئے رکھ چھوڑے ہوں گے۔ لیکن ان گھروں میں اب صرف حسرت و یاس ہے!

ان گھروں سے 132 لاشے نہیں اٹھے بلکہ ان لاشوں کے ساتھ ساتھ ان کے ماں باپ بھی زندہ درگور ہوگئے۔ ان بچوں کی بد نصیب مائیں اپنے بچوں کے کپڑوں کی خوشبو سونگھتی ہوں گی۔ ان کی پتھرائی آنکھیں اس انتظار میں ہیں کہ کاش ایک جھلک اپنے زندہ بیٹے کو مسکراتے دیکھ لوں یا پھر کہیں سے اس کی ہنسی کی آواز ہی سن لوں۔

 بچے کو تکلیف ہوتی ہے تو وہ اپنی ماں کو ہی یاد کرتا ہے، میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اسکول میں قتل عام کے وقت بچے اپنی ماؤں کو ہی پکار رہے ہوں گے، ان کی چیخیں آج بھی والدین کے کانوں میں گونجتی ہوں گی۔ پتہ نہیں ان والدین کے دل کو کیسے قرار آیا ہوگا، وہ والد جس نے چلنا سکھایا اس والد نے کیسے اپنے بیٹے کا جنازہ اٹھایا ہوگا۔

کسی صحافی نے ٹی وی پر کسی ماں سے پوچھا کہ آپ کا بیٹا شہید ہوگیا آپ کیسا محسوس کر رہی ہیں۔ تو جانتے ہیں اس ماں کا کیا جواب تھا؛ اس ماں نے کہا کہ کیا شہید شہید لگا رکھا ہے میں نے اپنے بیٹے کو اسکول بھیجا تھا، محاذ پر نہیں!

شاید اس ماں کا یہ کہنا کبھی آن ائیر بھی نہیں ہوا لیکن وہ والدین آج بھی اسی پل میں زندہ ہیں۔

سانحہ اے پی ایس نے پوری قوم کو ہلا کے رکھ دیا، حکومتی سطح پر پالیسیوں میں کافی تبدیلیاں آئیں، نیشنل ایکشن پلان بنا جس کے تحت پورے ملک میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں عمل میں آئیں، جب کہ 21ویں آئینی ترمیم کے بعد دہشتگردوں کے جلد ٹرائل اور سزا کے لئے فوجی عدالتیں قائم ہوئیں، تاہم لواحقین پھر بھی مطمئن نہ ہو سکے۔

سولہ دسمبر 2014 کے دن سے ہی شہداء کے والدین اور رشتہ دار انصاف کے لئے سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہوئے، واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے لئے لواحقین نے کورٹ سے لے کر وزیراعظم ہاؤس تک کا دروازہ کھٹکھٹایا، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

والدین کہتے ہیں کہ حکومت واقعے کی جوڈیشل انکوائری کی بجائے ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔

سانحہ کوئٹہ جہاں سول ہسپتال میں خود کش دھماکے میں بسیووں افراد جان بحق ہوگئے تھے اس پر سپریم کورٹ کی جانب سے انکوائری رپورٹ پیش کی گئی جس نے وزارت داخلہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ، صوبائی وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ نے غلط بیانی کی۔ کمیشن کے مطابق حکومت دہشت گردوں سے لڑائی کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہے۔ نیشنل سکیورٹی پالیسی پر عمل نہیں کیا جارہا جب کہ قومی لائحہ عمل کے اہداف کی مانیٹرنگ بھی نہیں کی جاتی۔

رپورٹ میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جامع حکمت عملی ترتیب دینے اور اداروں کو فعال کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی سرحدوں پر موثر نگرانی نہ ہونے کے باعث دہشت گرد باآسانی ملک میں داخل ہو رہے ہیں۔

اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اب یہی کہا جاسکتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن ضرب عضب کا اللہ ہی حافظ ہے!

وہ ماں ٹھیک ہی کہتی تھی کہ بچوں کو پڑھنے بھیجا تھا کسی محاذ پر نہیں! کیونکہ سانحہ اے پی ایس کے بعد کئی سانحے ہوئے، مذمتیں آئیں، سوگ منایا گیا، دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے بھی کیے گئے، لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ ہم جہاں تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں اور منتظر ہیں سانحہ آرمی پبلک جیسے ایک اور سانحے کے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments