ولی الرحمان ایڈووکیٹ (مرحوم)


وہ لوگ ہم نے اک ہی شوخی میں کھو دیے
ڈھونڈا تھا آسمان نے جنہیں خاک چھان کے

یوں تو چھترار خود بھی حسین ہے اور اپنی کوکھ  سے کئی حسین لوگوں کو بھی جنم دیا ہے۔ کھوار زبان میں ایک محاورہ ہے۔ جمو دینا نیکی۔ اس دنیا میں اچھے لوگ جلد چلے جاتے ہیں۔

سن 1948 مملکت خداداد کی تاریخ میں وہ برس شمار کیا جاتا ہے جب اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے نقشے میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوا تو اسی سال چھترار جیسے پسماندہ علاقے میں کئی نامور شخصیات نے جنم لیا، ان عظیم شخصیات میں ایک نام ولی الرحمان ایڈووکیٹ کا بھی تھا۔ کم گو، مہمان نواز، نفیس اور مہذب شخصیت کے مالک ولی الرحمان ایک مکمل عہد تھے۔

1953 کی دہائی میں چھترار کے خوبصورت اور چھوٹے سے گاؤں کوغذی کے ٹاٹ اسکول سے تعلیم حاصل کرنے والا ولی الرحمان نہ جانے کس عظیم مقصد کے واسطے اس دنیا میں آیا تھا۔ 1965 میں گورنمنٹ ہائی سکول چھترار میں میڑک کے امتحان میں پورے چھترار میں دوسری پوزشن حاصل کر لی۔1966 تا 1969 تک گورنمنٹ کالج پشاور سے ایف اے اور بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اسی سال قانون کی اعلیٰ تعلیم کے واسطے لا کالج میں داخلہ لے لیا ، اپنی قابلیت اور محنت کی بدولت اسکالر شپ حاصل کی، 1972 میں محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر کے امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کی اور اور بحیثیت سب انسپکٹر چارچ سنبھال لیا۔

نفیس اور مہذب ولی الرحمان جو انسانیت کی بہتر خدمت کے جذبے سے سرشار تھے انہیں انسانیت کے خدمت کے لیے دیکھے گئے اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مکمل آزادی چاہیے تھی ۔ اسی نیک مقصد کے لیے بہت جلد انہوں نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ د ے دیا۔ اور چھترار ہی میں قانون کی پریکٹس شروع کر دی۔ 1979 میں جوڈیشری کا امتحان پاس کیا اور بحیثیت ایڈیشنل سیشن جج تعنیات ہوئے اور مردان میں بہترین خدمات انجام دیں۔

اپنے شائستہ انداز گفتگو اور مہذب سلوک کی بدولت چھترار کے کونے کونے میں لوگوں کے دلوں میں اپنے لیے ایک منفرد جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے، 1981 میں بلدیاتی ایلکشن میں شاندار کامیابی حاصل کر کے ممبر ڈسٹرکٹ کونسل مقرر ہوئے اور یہ ثابت کر دیا کہ ولی الرحمان واقعی ولی ہیں۔

ولی الرحمان مرحوم کے مثبت ذہن میں گزشتہ کئی سالوں سے جو نیک مقصد تھا، اس کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آ چکا تھا۔ ولی چاہتے تھے کہ چھترار میں ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم ہو جو دور حاضر کے تقاضوں کو بھی پورا کرے اور سب کے لیے یکسان تعلیم بھی مہیا کرے، اپنے عظیم مقصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے 1980 اور 1981 میں اپنے دوستوں جن میں اس وقت شہزادہ شجاع الرحمٰن، حیدر علی شاہ اتالیق، شہزادہ سکندر الملک، ناصر احمد، میجر شمس شامل تھے، کو لے کر ماونٹین اِن ہوٹل کے باغییچے میں ایک کمیونٹی اسکول کی تعمیر کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔

کہتے ہیں اگر نیت صاف اورعمل اچھا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی نیک کام میں اپنے بندوں کا ساتھ دیتا ہے۔ شفاف اور نیک ذہنیت کے یہ سب دماغ ایک ہی مقصد کے لیے بیٹھے تھے، آخر کار ولی کے دوستوں نے مل کر ولی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر جاوید مجید کو اس ادارے کی تعمیر کے اپنے منصوبے سے آگاہ کیا۔ یہ منصوبہ سنتے ہی جاوید مجید ڈپٹی کمشنر چھترار بھی اس نیک مقصد میں شامل ہوئے اور جنگ بازار کی احاطے میں سرکاری عمارت کو سکول کے لیے استعمال کرنے کی ہامی بھر دی۔ ولی الرحمان نے ایک پھر دوستوں کی مشاورت سے اسکول کا نام سایورج پبلک اسکول رکھا اور خود سایورج پبلک سکول کے بورڈ ممبرز میں شامل ہوئے۔ اس اسکول کو آج کل لینگ لینڈ سکول کہا جاتا ہے۔

ولی الرحمان ایڈووکیٹ نے 1980 کی دہائی میں فری اسٹائل پولو کھیلنا شروع کی، ان کے گہرے دوست شہزادہ سکندر الملک کے بقول چھترار کے بہترین کھلاڑیوں میں ان کا شمار ہوتا تھا، ولی کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا ، ولی الرحمان کے دوست امیر اللہ خان یفتالی کے بقول وہ ایک بہترین شہسوار تھے، اور یاروں کے یار تھے، ولی الرحمان مرحوم چھترار اے کے کھلاڑی تھے ۔  1997 کے ڈسٹرکٹ پولو ایونٹ میں چھترار اے ٹیم نے چھترار اسکاؤٹ کو مات دی تھی،  اس ایونٹ کے مہمان خصوصی ڈیوک آف ایڈن برک پرنس پفیلپ آف انگلینڈ تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).