سانحہ پشاور کو ہم نہیں بھولیں گے


دو سال قبل ہونے وا لے سانحہ پشاور کو بھولنا تو نا ممکن ہے، جب بھی دسمبر کی صبحیں سورج سجائیں گی، اس قیامت کے منا ظر یاد آئیں گے۔ ننھے شہدا کے والدین اپنے خوابوں کی کرچیوں کی چبھن محسوس کریں گے تو آنکھیں بھر آئیں گی۔ پلکوں پہ ٹھہرے آنسوؤں کا بوجھ جب پورے سال میں نہیں اترے گا تو دسمبر کی سولہ تاریخ آئے گی، ایک دفعہ آنکھیں ہلکی پڑیں گی۔ وہ سوچیں گے اور کچھ ایسے سوالات کے ساتھ نباہ کریں گے، جن کے جوابات انہیں شاید تا حیات نہ مل سکیں۔

وہ خیال کریں گے کہ ان بچوں کی عمر کا مصرف صرف یہ تھا کہ دنیا انہیں شہید اور ہمیں شہدا کے وارث شمار کرتی۔ خالق کی تخلیق کا مقصد تو اعلی ہے، کچھ بھی بیکار نہیں بلکہ ہر ذرے کا وجود اس کائنات کی خوبصورتی کا باعث ہے۔ وہ پر عزم اولاد کی اس قربانی پہ اپنی آمادگی کا اظہار کس طرح کرسکتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکے گا کہ وہ اپنی ذات کو اس دلاسے سے بہلا لیں کہ ان کے بچوں کو بہت بڑا مرتبہ ملا ہے۔ وہ خون میں لپٹے ہوئے اعزازات کے ساتھ کب تک خود کو تسلیاں دیں گے۔

بے شک بلند مرتبہ ملا ہے مگر ان کے خوابوں کی قیمت کو کوئی ادا نہیں کر سکتا، وہ خواب جن کی آس پہ نسلیں پروان چڑھتی ہیں، وہ خواب جن سے زندگی جڑی تھی۔ سپنوں کا نقصان کوں بھول سکتا ہے، اس کرب کا ذکر بھی ویسی ہی شدت سے کرنا پڑیگا کہ جس شدت سے واقعہ رونما ہوا۔ جتنی بھی تلخ اور رنجیدہ کرنے والی یاد ہو مگر اسے یاد کرنا اس لئے بہتر ہے کہ تا کہ ہمارے ہاں ہمیشہ ظلم کے خلاف نفرت موجود رہے۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ حقیقتیں ایسی بھی ہیں، کہ جو ہمارے بھولنے کی روایت کا پتہ دیتی ہیں۔ ہم نے خون کے نذرانوں کو اپنا فخر سمجھا ہے اور اس خون بہانے کی فراوانی نے ہمیں اپنا قبلہ درست رکھنے سے ہمیشہ روکا ہے۔ ہم نے اپنی دیوار سے باہر انگلیاں اٹھائی ہیں، مگر ہم نے اپنے ہاں کی علامات کو دور کرنے کا بہت کم سوچا ہے۔ دہشت کو گولی سے مار مکانے کی حکمت عملی اپنی جگہ درست ہو گی۔ لیکن گولی کی ایک حد ضرور ہے، جبکہ اس سے آگے وہ بے اثر ہے۔

شہادت کے فلسفے پہ بہت سے مکاتب فکر جامد کھڑے ہیں۔ ایک مسلمان مجاہد اور ہندو مجاہد کے معرکے میں دونوں جذبہ شہادت کے اصول پہ لڑنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ جان کو قدرت کے سپرد کرنا بھی آسان نہیں۔ گویا جذبات کو بروئے کار لا کر ہی دو ذی روحوں کی لڑائی کا انعقاد ہوتا ہے۔ پھر جیت اور ہار کے ساتھ جو رومانویت وابستہ ہے، اس کے مزے بھی بہرحال ایک خاص ذہنی کیفیت میں ہی اٹھائے جا سکتے ہیں۔ انسانیجذبات کے اس بے رحم کھیل کو جائز قرار دینے کے لئے مذہبی افکار کا استعمال ہوتا ہے۔

یعنی مخالف فکر کے ساتھ دشمنی کی ہر گنجائش موجود ہے۔ تاریخی معرکوں اور مثالوں سے اپنے دلپسند حوالاجات کے ہمراہ ایسی سوچ پروان چڑھائی جاتی ہے کہ جو نفرت جیسی غلاظت کو پاکیزہ سینوں میں محفوظ کرنے میں معان و مددگار ثابت ہوتی ہے۔ نجانے ہمیں کب یہ معلوم ہو گا کہ زندگی کا حق جب خدا نے دیا ہے تو پھر اس کی مخلوق کیوں اتنی آسانی سے موت کی تر سیل کر لیتی ہے۔ اوپر سے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں سے اس عمل کو جائز قرار دلوانے کی سہولیات بھی بکثرت دستیاب ہیں۔

اختلاف کو ختم کرنے کا مطلب انسان ختم کرنا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کسی کی دل آزاری سے ہمیں ایمانی و روحانی تشفی حاصل ہو سکتی ہے۔ ہماری یہ قاتل سوچ روز کے معمولی امور سے لے کر انسانی جان جیسے بیش قیمت قیمت تحفے کے لئے یکساں نفرت کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہمارے نظریات سے اختلاف رکھنے والے کو ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ ہر ممکن کوشش کر کے اور منصوبہ بندی کر ہم مخالف سوچ کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے کوشش کریتے ہیں۔ نقطہ نظر کا اختلاف ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے مد مقابل کی زندگی یا تو چھین لیں یا پھر اجیرن کر دیں۔

دنیا کا کوئی نظریہ انسان دشمنی نبھا کے مقبول نہیں ہو سکا، کیونکہ انسانی حمایت کے بغیر وہ اہداف کو حاصل نہیں کر سکتا۔ جبکہ حمایت کے لئے محبت ہی واحد ہتھیار ہے کہ جس سے انسانی دائرے کو وسعت دی جا سکتی ہے۔ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی سے جتنا استفادہ حاصل کر رہے ہیں، ہمیں یہ ماننا پڑیگا کہ انسانی مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ مشروط ہے۔ کسی بھی ملک اور قوم کے لئے یہ تصور کرنا کہ مستقبل میں کہیں ہم اپنی جنگی قابلیت کی بنا پہ اپنا راج قائم کریں گے تو یہ انتہائی غیر حقیقی بات لگتی ہے۔ اب تک کی داستان ہمیں یہی بتاتی ہے کہ مقام لڑکر حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ محنت اور علمی کوششوں سے ہی ممکن ہے۔

دنیا میں اگر کچھ بھولنے کی ضرورت ہے اور ایسا کرنا اگر ممکن ہے تو پھر نفرت کے اسباق کو اپنے زندگی کے نصاب سے خارج کردینا چاہیے۔ فکری درستگی یا ایمانی اعتراضات کو نہ کوئی ملک بنیاد بنا سکتا ہے اور نہ کوئی قوم ان خیالات کے ساتھ مستقبل میں کوئی بڑی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ انسان کے حقیقی مسائل نظری اختلافات سے کہیں بڑے ہیں، جہاں روحانی سطح پہ اگر کچھ قابل حل ہے تو وہ انسانی احساس ہے۔ جس کی کمی نے اتنی بڑی انسانی آبادی کو مسلسل تنہائی کا شکار رکھا ہے۔

ہم گروہوں میں رہ کر بھی انفرادیت کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ دنیا کی اب تک کی پیش رفت میں وہی قابل فخر ترقی ہے جس کا استعمال مجموعی انسانی فلاح کے لئے ہے۔ لہذا ابھی تک اگر کوئی بدنما داغ اقوام عالم کی تاریخ میں موجود ہیں تو وہ بھی مشترکہ انسانی گناہ ہے۔ علمی اثاثے میں ہر قوم کا حصہ ہے، انسانی نسل کی اجتماعی میراث کا کوئی ایک انسان مالک نہیں ہاں البتہ اگر کوئی مالک ہے تو وہ قدرت ہے، جس نے انسان کی رہنمائی کی۔

نفرت کے بیج سے صرف نفرت ہی اگتی ہے، نفرت کا لفظ انسانی تباہی اور بدامنی کا پیغام ہے۔ پسماندگی کو دور کرنے کے لئے ہمیں یاد رکھنا پڑیگا کہ پسماندگی کا نقصان نسلیں اٹھاتی ہیں۔ اس کے لئے مصلحت اور مفاد پرستی سے بالا تر ہو کے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کا پیغام امن ہے اور امن کا پیغام محبت کی زبان سے دنیا میں عام ہو سکتا ہے۔ محبت سے بہترین تبلیغ اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ انسانی تخلیق کا مقصد دوسرے انسان کی مخالفت کر کے نہیں بلکہ موا فقت پیدا کر کے ہی انسانی مرتبے کو ثابت کر سکتا ہے۔ اشرف المخلوقات بننے کے لئے صرف شکل نہیں بلکہ کچھ اور اوصاف بھی درکار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments