کوئٹہ کے ہزارہ اپنے شہر کے قیدی


رضا وکیل ہزارہ کوئٹہ کی گلی کوچوں میں کھیلے کھودے، تعلیم حاصل کی، سماجی کام کیا، سیاست کی، بلوچ اور پشتون دوستوں کے غم اور خوشی میں شریک رہے مگر دہشت گردی کی لہر نے ان کے شہر کے ساتھ سارے ناتے توڑ دیے۔ اب وہ اپنے گھر اور محلے میں محصور ہو کر ایک قیدی کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔

موسیقی ان کا شوق ہے اور یہی شوق ان کا کاروبار بن گیا۔ کوئٹہ کے عبدالستار روڈ پر ان کی کیسٹوں کی دکان تھی لیکن جب اہل تشیع سے تعلق رکھنے والے ہزارہ قوم پر دہشت گرد حملے بڑھ گئے تو پولیس نے ان تک یہ خبر پہنچائی کہ وہ نشانے پر ہیں اور یہ مشورہ دیا کہ دکان بند کر کے گھر پر بیٹھنے میں ہی ان کی عافیت ہے۔

رضا وکیل نے جس دن نے دکان کو تالا لگایا اسی دن ان کی زندگی کو بھی تالا لگ گیا جس کی چابی نامعلوم افراد کی بندوق کی نلی میں مقید ہے۔ وہ پچھلے دس سالوں سے اپنے گھر اور محلے میں محصور ہیں۔ نہ کوئی روزگار ہے اور نہ ہی کہیں آ جا آسکتے ہیں۔ گزشتہ تقریباً دو دہائیوں سے شیعہ ہزارہ دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔

کسی زمانے میں کوئٹہ شہر میں ہزارہ ہر جگہ موجود دکھائی دیتے تھے۔ شہر کی بہت ساری دکانیں ان کی تھیں، سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی باچا خان چوک پر ہزارہ بچے، جوان اور بوڑھے بلا خوف و خطر ارزاں قیمت پر جیکٹ بیچا کرتے تھے، وہ بھیڑ میں سائیکل اور موٹر سائیکل پر سوار دکھائی دیتے تھے، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی میں ہزارہ لڑکے اور لڑکیاں نظر آتی تھیں۔ سرکاری دفتروں میں بیٹھے ہوئے نظر آتے تھے۔ مشاعروں میں ہزارہ دوست شریک ہوتے تھے۔ ان کی شہر کی کاروباری، تفریحی، ادبی، تعلیمی اور کاروباری زندگی پر پر ایک واضح اور خوبصورت چاپ تھا۔ دہشت گردوں نے نہ صرف ہزاروں کی زندگی اجیرن بنا کے رکھ دی ہے بلکہ کوئٹہ شہر کے ادبی اور ثقافتی رنگ کو داغدار کر دیا ہے۔ شہر کو ایک تہذیبی ورثے سے محروم کر دیا ہے۔

کوہساروں کی عطا رسم نہیں خاموشی
رات ہو جائے تو بہتا ہوا چشمہ بولے

خوف اور دہشت کی بیڑیوں میں قید رضا وزیر جب کبھی با امر مجبوری کسی کام کے سلسلے میں شہر جاتے بھی ہیں تو ہزارہ رہائشی حدود سے نکلتے ہی ان کا دل دھڑکنا شروع کر دیتا ہے اور آنکھیں ہمہ وقت کسی ممکنہ خطرے کی تاک میں رہتی ہیں۔ کوئی گاڑی یا موٹر سائیکل محض چند منٹ بھی ان کا پیچھا کرے انہیں فکر دامن گیر ہوجاتی ہے۔ انہیں اس شخص سے بھی خوف ہونے لگتا ہے جس نے سردی سے بچنے کی خاطر چادر اوڑھ رکھی ہو۔

وہ کئی سال بعد جب مری آباد سے نکل کر شہر آئے تو لوگوں کا رویہ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ ان کے ذہن میں یہی سوال گردش کرتا رہا کہ وہ تو پہلے بھی شیعہ اور ہزارہ تھے تب کیوں ان کو متعصب نگاہوں سے دیکھا نہیں جاتا تھا؟ اب تو ٹریفک کے رش میں بھی ان کو اس لئے راستہ نہیں دیا جاتا کہ وہ ہزارہ ہیں۔ ان کے بیٹے کو کالج میں بعض لڑکے شیعہ شیعہ کافر شیعہ کی آواز کس کس کر تنگ کرتے رہے اور ایک دن جھگڑا ہوا اور کالج انتظامیہ نے اس کے بیٹے کو نکال دیا۔ بہت منت سماجت کے بعد رضا وکیل نے پرنسپل کو اس بات پر راضی کیا کہ ان کے بیٹے کو ایف ایس سی کے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو مجبوراً تعلیم کے لئے کسی اور شہر بھیج دیا ہے۔

رضا وکیل اور لاکھوں ہزارہ اپنے ہی شہر کے قیدی ہیں، اپنی نسلی اور مذہبی شناخت کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ پچھلے تقریباً بیس سالوں میں ایک پوری نسل خوف اور احساس کے ساتھ بڑی ہوئی ہے۔
( عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور ریڈیو مشال کے ساتھ منسلک ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالحئی کاکڑ

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں

abdul-hai-kakar has 42 posts and counting.See all posts by abdul-hai-kakar