بہت سے لوگ جنہیں پڑھنا چاہیے، لکھ رہے ہیں!


\"\"

لکھنا ایک فن ہے، سکون اورباعث نجات بھی، بہت سی پریشانیوں، ڈپریشن سے نجات کا ذریعہ، یہ ایسے ہی ہے جیسے خود کلامی، خود سے ایک گفتگو، اپنی آواز صرف خود ہی سننا اور خود ہی مسکرا بھی دینا، یا پھر چپکے سے بغیر آنسو کے رولینا، آنسو ہی ہیں جنہیں کاغذ پر ڈھال دیا جائے تو ایک شاندار تحریر منظر عام پر اجاتی ہے، آنسو ہی نہیں مسکراہٹ بھی، کسی کی لکھی گئی تحریر، کسی کے بکھیرے گئےآنسو، کسی کی قلمی شرارت، آپ کو ہنسنے پر بھی مجبور کر سکتی ہے اور رونے پر بھی۔ ایک اچھا افسانہ پڑھ کر گرمیوں میں سردی اور سردیوں میں گرمی کو بھی محسوس کیا جاتا سکتا ہے، یہ احساس ہی کی تو بات ہے، اور پھر اظہار احساس۔

مجھ سمیت اکثر نوجوانوں کو اظہار خیال میں سب سے بڑی رکاوٹ املا کی پیش آتی ہے، اچھی تحریر اپنی اہمیت اس وقت کھو دیتی ہے جب املا درست نا ہو، میری ناقص رائے میں گریجویٹ ہوجانے کے بعد تحریر میں املا کی غلطی کرنا میرے لیے شرمناک تو ہے ہی، یہ میرے ملک کے تعلیمی نظام اور میرے اساتذہ کی قابلیت پر سوال بھی اٹھاتا ہے۔ اگر مجھے اپنے اساتذہ اور پاکستان کے تعلیمی نظام کی بنائی گئی پراڈکٹ تصور کرلیا جائے، تو کہیں نا کہیں جرم کے مرتکب مجھے پڑھانے، سکھانے، بنانے والے بھی ہوئے، اور میری کوتاہی، نالائقی، کے کسی حد تک ذمے دار بھی۔

کیسی عجب بات ہے نا سولہ برس کوئی شخص اردو پڑھے، اس زبان کے امتحانات دے، ان امتحانات میں کامیاب ہو، یہی زبان اس کی قومی زبان بھی ہو لیکن اس سب کے باوجود اس زبان کو لکھنے کے ڈھنگ سے وہ آشنا نہ ہو، املا غلط ہو۔

ایسا ہوتا کیوں ہے؟ میرے خیال میں اکثر طالب علموں نے پڑھنے کے بجائے سننا شروع کردیا ہے، یہ ایک غلطی ہے، ایک تو پڑھے بغیر لکھنا بہتر نہیں ہوتا، آپ کو قلم سے الفاظ رقم کرنے سے قبل اس مین الفاظ کا اندراج بھی کرنا ہوتا ہے، چونکہ ہم پڑھتے نہیں تو ہم الفاظ کا اندراج سماعت سے کرتے ہیں۔ میں نے ایک لفظ بار بار سنا، مجھے وہ باور ہوگیا، اس کے لفظی و لغوی معنے جانے بغیر، لفظ کا طرز تحریر جانے بغیر میں آئندہ کسی بھی جگہ محض سماعت کی بنیاد پر وہ لفظ یا جملہ تحریر کردوں گا، تحریر نا بھی کروں اگر جملہ سن کر محض ادا ہی کردوں تو بھی زبان بگڑ سکتی ہے۔ میں نے اکثر انگریزی سے مکمل نا بلد لوگوں کو اردو میں انگریزی کی آمیزش کرتے دیکھا ہے، جیسا کہ یہ چیز بہترین ہے کو وہ لو یہ چیز بیسٹ ہے کہتے سنائی دیتے ہیں، ایسا کیوں؟ انہوں نے تو انگریزی کبھی پڑھی ہی نہیں، پھر یہ بیسٹ نے بہترین کو کیسے رد کردیا؟ سماعت! سنا اور زبان میں شامل کرلیا، اگر پڑھ رہے ہوتے تو کسی بھی کتاب میں اس طرح اردو مین انگریزی کی آمیزش نہیں ہوتی، زبان بچ جاتی۔

میرا رشتہ کتاب سے استوار ہوگا میں نے الفاظ کو اپنے دماغ کے کسی گوشے میں نقش کر رکھا ہوگا تو املا میں غلطی کے امکانات کم ہوجائیں گے، مجھے سمیت کئی نالائق طالب علم ہم آواز حروف میں اکثر املا کی غلطی زیادہ کرتے ہیں، جیسا کہ ذ، ز، ظ، ض وغیرہ میں فرق۔ میری ناقص رائے میں اس مسئلے کا واحد حل مطالعے کو وسیع کرنا، کتب سے رشتہ استوار کرنا اور سماعت کے کلچر سے نکل کر پڑھنے کے کلچر کی طرف راغب ہونا ہے۔ پڑھ کر لکھنے سے نا صرف ہم املا کی غلطی سے بچ سکتے ہیں بلکہ تحریروں میں غیر میعاری و غیر ٖضروری الفاظ کے استعمال سے بھی بچ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments