کشمیر کے مجاہد اور لیاقت بلوچ کا فرزند



\"\" کچھ لوگوں کو خواب و خیال کی دنیا بے حد پسند ہوتی ہے اور ایسے لوگ دنیا کے ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ایسے جواہر موتی کثرت سے موجود ہیں جو حافظ سعید، مسعود اظہر اور صلاح الدیں سید سے جنت کے ٹکڑے کشمیر کو ہندو سرکار سے آزاد کرنے کے خواب بہت یقین سے دیکھتے ہیں۔ ان لوگوں کی دنیا بھی بہت عجیب ہوتی ہے جو جنونی گروہ کی ہر پرجوش تقریر کے بعد کشمیر کو آزاد ہوتا دیکھ لیتے ہیں۔ یہ لوگ قربانی کی کھالیں، صدقہ اور خیرات اس یقین سے دیتے ہیں کہ ان کے چندے کے روپے سے خریدی جانے والی گولی ضرور کسی دشمن بھارتی فوجی کی کھوپڑی میں گھسے گی۔ پر ان کی کھوپڑی میں یہ حقیت نہیں گھستی کہ جن جنونیوں سے یہ کشمیر آزاد کروانے کی امید لگائے رکھے ہیں وہ ان کو کشمیر کی ایک یونین کونسل تک آزاد نہیں کروا کے دے سکتے۔ رہی بات کشمیر جہاد میں حصہ لینے والے مجاہدین کی تو اس کے لیے سادہ لوح مسلمانوں کی وافر مقدار آج بھی بکثرت دستیاب ہے جو اپنا تن من دھن بھیانک نظریات رکھنے والی جہادی لیڈر شپ کے عجیب مقاصد کے لیے نچھاور کرنے لیے ہر وقت بے تاب رہتے ہیں۔

یہاں میں ایک بات کا ذکر ضرور کروں گا کہ کشمیر جہاد پر صبح شام درس دینے والوں کی منافقت بھی دیکھ لیجیے جو اپنی سگی اولاد کو بالکل اس کارخیر کے لیے اجازت نہیں دیتے کہ وہ کشمیر کی آزادی کے لیے کیے جانے والے جہاد کا حصہ بنیں۔ اس ایندھن کا شکار سادہ لوح لوگوں کی اولادیں ہمشہ بنتی چلی آرہی ہیں۔ جماعت اسلامی کی سابق امیر قاضی حسین احمد جب حیات تھے تو لاہور مینار پاکستان کے قریب کشمیر جہاد کے عنوان پر جماعت اسلامی نے ایک اجتماع کا انعقاد کیا۔ اس اجتماع میں جماعت اسلامی کے موجودہ مرکزی رہنماہ لیاقت بلوچ جو اس وقت بھی جماعت اسلامی کی مرکزی شوری کے اہم رکن تھے اپنے فرزند کے ساتھ بہت انہماک سے کشمیر جہاد پر کی جانے والی تقاریر سن رہے تھے۔ پر یہاں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ وہ یہ کے لیاقت بلوچ کے فرزند اپنے والد سے بھی زیادہ انہماک سے جذباتی تقاریر سے اپنا ایمان تازہ کر رہے تھے۔ اجتماع کے اختتام پر لیاقت بلوچ کے فرزند نے اپنے والدین کی اجازت کے بغیر ہی شمالی صوبے میں موجود کشمیر جہاد کے تربیتی کیمپ کا رخ کیا تا کہ وہ ضروری تربیت کی تکمیل کے بعد جنت نظیر وادی کو ہندوؤں کے تسلط سے آزاد کروانے کے لیے باقاعدہ جہاد میں حصہ لیں۔ دوسری جانب لیاقت بلوچ اور ان کے اہل خانہ پر اپنے جگر گوشے کی اچانک گمشدگی کی خبر سے \"\"قیامت ٹوٹ پڑی۔ میں محسوس کر سکتا ہوں کہ لیاقت بلوچ اور ان کی اہلیہ کے دل پر اس وقت کیا گزری ہو گی کیوںکہ میں نے چند ان گھرانوں کو قریب سے دیکھا ہے جن کے لعل بھی گھر سے کالج کے لیے نکلے تھے مگر ان کی لاشیں طویل تلاش کے بعد جہادی پرچموں میں لپٹی واپس آئی تھیں۔ لیاقت بلوچ تو اپنے اثر و رسوخ سے اپنے فرزند کو قومی ادارے کے ہیلی کاپٹر پر جہادی کیمپ سے ہی اپنے ہمراہ واپس گھر لے آئے تھے مگر ہزاروں ماؤں کے بچوں کی تلاش میں لیاقت بلوچ اس طرح نکلنے کا کبھی ارادہ تک نہیں کر سکتے۔

یہ ایک بھیانک حقیت ہے کہ عسکریت پسندی اور جہاد پر ابھارنے والے لیڈران اپنی سگی اولادوں کو اپنے اس کالے دھندے کی دنیا سے مکمل دور رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ صلاح الدیں سید کے بچوں کے بارے میں معلوم کر سکتے ہیں جو سرکاری ملازمت اور اعلیٰ تعلیم میں مصروف ہیں اور ان کو بالکل اجازت نہیں کہ وہ اپنے والد کی سوچ کی تقلید بھی کریں۔

کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دینے کے بعد ہمیں اس شہ رگ کے حصول کے لیے جتنی کوشش کرنی چاہیے تھی ہم وہ تو نہیں کر سکے۔ کبھی ہم جارج بش اور اب ہم ڈونلڈ ٹرمپ سے امید لگائے رکھے ہیں کہ وہ کشمیر کے مسئلے کا قابل قبول حل نکالیں۔ ہماری اس امید کے ساتھ بھی بہت برا حشر ہو گا اگر ہم نے اپنی کمزوریوں کو اس کیس سے الگ نہ کیا۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ  دنیا کشمیر کیس پر فیصلہ دیتے وقت حافظ سعید جیسوں کا کردار ضرور سامنے رکھے گی جو اس وقت ہماری سب سے بڑی کمزوری ہیں۔ اس لیے اب ان تمام جہادی ٹھیکوں کو فی الفور منسوخ کرنا بہت ضروری ہو چکا ہے جو ہم نے صرف کشمیر کی آزادی کے لیے جاری کیے تھے۔

ہمارے قومی اداروں، سیاستدانوں اور تمام باشعور رہنماؤں کو سوچنا چاہیے کہ ہم نے کس کے ہاتھوں میں کشمیر کا مقدمہ دہنا ہے۔ دنیا تو حافظ سعید کے نظریات کی الف ب بھی نہیں مان سکتی پر اگر آپ کشمیر جہاد کے لیے چندہ دیتے ہیں تو آپ کو ضرور مسعود اظہر، حافظ سعید، ٖفضل رحمان خلیل اور صلاح الدین سید سے ہی امید رکھنی چاہیے اور اگر آپ اپنے ووٹ کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور ایک قومی سوچ رکھتے ہیں تو لاکھ اختلافات کے باوجود آپ کو کشمیر کا کیس صرف اور صرف طارق فاطمی اور سرتاج عزیز کو ہی دینا ہو گا۔ ہم دنیا کو بیک وقت حافظ سعید اور سرتاج عزیز کی پالیساں دکھا کر اپنا مقدمہ کمزور کر چکے ہیں مگر اب بھی اگر ہم چاہیں تو اس سب کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ ریاست کے پاس اب بھی بہت سے دیگر راستے موجود ہیں جن سے بھارت کی بھیانک شکل ہم دنیا کو دکھا سکتے ہیں۔ ہمیں صرف اور صرف اپنے فارن آفس کے محاذ پر اپنی غلطیاں اور کمزوریاں مکمل ٹھیک کر کے اس پر کامل یقین رکھنا ہو گا کیوںکہ ہم دنیا میں کشمیر کا کیس ایک مضبوط اور درست خارجہ پالیسی کے ساتھ ہی جیت سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments