باچا خان اور فلسفہ عدم تشدد


عبدالغفار خان جو عموماً باچا خان اور فخر افغان کے ناموں سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں ، وہ متحدہ ہندوستان کے لیے سرحدی گاندھی اور اپنے پیروکاروں کے لیے باچا خان، انڈیا کی تحریک آزادی کے چند اہم ترین رہنماؤں میں سے تھے۔ وہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کے علاقے اتمانزئی میں 1890 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا انتقال 1988 میں ہوا۔ ان کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق افغانستان کے شہر جلال آباد میں کی گئی۔

عدم تشدد کے علم بردار معروف پختون رہنما عبدالغفار خان نے اپنی مثالی شخصیت اور قائدانہ صلاحتیوں کی بدولت متحدہ ہندوستان میں بسنے والے پختونوں کو سیاسی اور سماجی طور پر متحرک کیا اور ان سے متاثر ہو کر لاکھوں افراد نے ان کی خدائی خدمتگار تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ لوگوں کو اتنے بڑے پیمانے پر متحرک کرنے والی یہ ایک عظیم تحریک تھی جس کے پیچھے باچاخان کی شخصیت اور فکری توانائی کار فرما تھی۔ اور یہ بھی مان لینا چاہیے کہ باچا خان پاکستان کے نہیں بلکہ تقسیم ہند کے خلاف تھے کیونکہ ان کے خیال میں ہندوستان کی تقسیم مسلمانوں کے مفاد میں نہیں تھی۔

لیکن بدقسمتی سے تقسیم ہند کے بعد بعض عاقبت نا اندیش حلقوں نے اپنے ذاتی سیاسی مفادات کی وجہ سے پاکستان میں ان کی شخصیت کو مسخ کر کے پیش کیا۔

’باچاخان نے گاؤں گاؤں جا کر آزاد سکول کے نام سے بنیادی تعلیمی ادارے قائم کیے اور انگریز استعمار کے خلاف پختون عوام میں شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو گاؤں کی صفائی جیسے رفاہ عامہ کے کام پر لگایا۔ اپنے علاقے کا خان ہونے کے باوجود انہوں نے ہاتھ میں جھاڑو پکڑی اور دوسروں کو بھی صفائی کی ترغیب دی، اور اپنی جنگجویانہ فطرت کے لیے مشہور پختون عوام کو انہوں نے جس طرح عدم تشدد اور پر امن طریقے سے اپنے مقصد کے حصول کے لیے متحرک کیا ، اس کی مثال کم ملتی ہے۔

باچا خان کی سب سے بڑی خوبی پاکدامنی اور پاک باز جوانی کے وہ ایام ہیں کہ خوانین کے بچے اکثر اس عمر میں مستیوں، شاہ خرچیوں اور رنگ رلیوں میں لگے رہتے تھے جب کہ باچا خان عین عالم شباب میں خلق خدا کے مسائل سننے اور حل کروانے میں مصروف عمل رہتے تھے۔

باچا خان نے عدم تشدد کا تصور کہاں سے لیا اور پختوں معاشرے میں اس کی ترویج کیسے ممکن ہوئی؟ سیاسی عقل و دانش رکھنے والے اس بات کو غلط مانتے ہیں کہ باچا خان مہاتما گاندھی کے فلسفۂ عدم تشدد سے متاثر تھے۔ بلکہ ان کی متفق علیہ رائے ہیں کہ ’باچا خان کے فلسفۂ عدم تشدد کی بنیادیں چار تھیں : پہلے اسلام، خاص طور سے پیغمر اسلام کی مکی زندگی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر اسلام سے عدم تشدد سیکھا۔ پھر تصوف جس کا جنوبی ایشیا میں بڑا اثر تھا، تیسرے بدھ مت جو اسلام سے پہلے اس علاقے میں بہت بڑا مذہب تھا اور چوتھے انہوں نے پختون ولی یا پختون ضابطۂ حیات میں ننہ واتے‘ یا معافی کے اصول کو اپنایا۔

باچا خان نے اپنے لوگوں سے کہا کہ دشمن کا مقابلہ پر امن طریقے سے کرنا بھی پختون ولی ہے۔ ’گو کہ جو اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں وہ بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ گو کہ باچا خان نے مہاتما گاندھی سمیت دوسرے رہنماؤں سے عدم تشدد کے حربے تو سیکھے مگر نظریہ ان کا اپنا تھا۔

سیاست اور تاریخ کے اکابرین اس بات کو بھی دلیل کے طور ہر پیش کرتے ہیں کہ افغانستان کے شہر جلال آباد میں ان کی اپنی تدفین کی وصیت بھی منقسم ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف جاری مختلف طرح کے تشدد کے خلاف ان کا پر امن احتجاج تھا۔

باچاخان کے چاہنے والے ان پر کیے جانے والے اس اعتراض پر کہ انہوں نے کیوں پاکستان کے مقابلے میں افغانستان میں دفن ہونا پسند کیا ہے، کہتے ہیں کہ باچا خان نے اپنی پوری زندگی میں اگر اس ملک سے کوئی ‘مراعات’ حاصل کی ہیں تو وہ غداری جیسے القابات اور خطابات اور پابند سلاسل ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں جبکہ اشرافیہ جو گزشتہ ستر سالوں سے زائد عرصے سے اس ملک کے وسائل پر قابض ہیں، ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہوں نے پاکستان سے باہر دفن ہونے کی خواہش کی۔

ایک نام جنرل موسیٰ کا ہے جو اس ملک کے آرمی چیف رہے، پھر گورنر بلوچستان رہے، اس ملک نے ان کو نام، پہچان، شان، عزت، عظمت، اختیارات اور مراعات دیے لیکن انھوں نے اس ملک میں نہیں بلکہ ایران میں دفن ہونے کی وصیت کی، اس کے علاوہ اور بھی بہت سی مراعات یافتہ شخصیات ہیں کہ وہ جئے تو ادھر پر دفن ہونا دیار غیر میں پسند کیا لیکن اس پر مراعاتی طبقہ بالکل خاموش ہے اور بولنے کی جسارت نہیں کرتا، پتہ نہیں کیوں؟ اور باچا خان تو دیار غیر میں نہیں بلکہ اپنے ”آبا“ کے دیار میں بنے اپنے ہی گھر کے ایک گوشے میں آسودہ خاک ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).