پلاٹ الاٹمنٹ کیس: نیب نے نواز شریف کی کون سی جائیدادیں قرق کیں؟



پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی جائیداد قرق کر کے رپورٹ احتساب عدالت میں جمع کرا دی ہے۔ نواز شریف کی مجموعی طور پر قرق کی گئی زمین 1649 کنال سے زائد ہے۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی احتساب عدالت نے غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں عدالتی حکم پر نواز شریف کے تمام اثاثے قرق کر لیے ہیں اور رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی ہے۔

احتساب عدالت لاہور کے جج اسد علی نے ملزم میر شکیل الرحمٰن سمیت دیگر کے خلاف غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ ریفرنس کی سماعت کی۔

ملزمان میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور دیگر شامل ہیں۔

دورانِ سماعت احتساب کی جانب سے اسپیشل پراسیکیوٹر حارث قریشی جب کہ میر شکیل الرحمٰن کی طرف سے محمد نواز چوہدری ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

اِس کیس میں شریک ملزم نواز شریف کی جانب سے کوئی وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوا۔

نیب کے وکیل حارث قریشی نے عدالت کو بتایا کہ اس ریفرنس میں میر شکیل الرحمٰن، نواز شریف، سابق ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے ہمایوں فیض رسول اور بشیر احمد نامزد ہیں۔

نیب کے وکیل نے کہا کہ فولڈر نمبر ایک میں سے کچھ صفحات تھے جن کی کاپیاں ملزموں کو فراہم کر دی ہیں جب کہ ریفرنس کا فولڈر نمبر 2 مکمل کاپی کروا کر ملزموں کو فراہم کر دیا ہے۔

میر شکیل الرحمٰن کو حال ہی میں سپریم کورٹ نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
میر شکیل الرحمٰن کو حال ہی میں سپریم کورٹ نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ میر شکیل الرحمٰن نے اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ نواز شریف کی ملی بھگت سے لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں ایک، ایک کنال کے 54 پلاٹ رعایت (ایگزمپشن) پر حاصل کیے تھے۔ ملزم کا ایک ہی علاقے میں پلاٹ حاصل کرنا ایگزمپشن پالیسی کی خلاف ورزی تھی۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو مزید بتایا کہ میر شکیل الرحمٰن نے نواز شریف کی ملی بھگت سے دو گلیاں بھی الاٹ شدہ پلاٹوں میں شامل کر لیں۔ اپنا جرم چھپانے کے لیے پلاٹ اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر منتقل کرا دیے تھے۔

احتساب عدالت کے جج اسد علی نے استفسار کیا کہ نواز شریف کے اثاثے قرق کرنے کی رپورٹ طلب کی تھی۔ جس پر تفتیشی افسر عابد حسین نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر نواز شریف کے تمام اثاثے قرق کر لیے گئے ہیں۔ اِن کے اثاثے قرق کرنے سے متعلق محکموں کی رپورٹ بھی عدالت میں جمع کرا دی ہے۔

نیب کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق سابق وزیرِاعظم نواز شریف زرعی زمینوں، گاڑیوں، ٹریکٹروں اور مختلف صنعتوں کے مالک ہیں۔ رپورٹ کے مطابق نواز شریف 936 کنال دس مرلے، دو سو ننانوے کنال دس مرلے اور تین سو بارہ کنال چودہ مرلے زرعی زمین کے مالک ہیں۔

اِسی طرح نواز شریف صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں اٹھاسی کنال پچاس مرلے اور چودہ کنال پانچ مرلے زرعی زمین کے مالک ہیں۔

نیب رپورٹ کے مطابق سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جانب سے حاصل کردہ تفصیلات کی روشنی میں نواز شریف محمد بخش ٹیکسٹائل ملز میں 5.82 فی صد اور اتحاد ٹیکسٹائل ملز میں 0.96 فی صد شیئر کے مالک ہیں۔ اسی طرح وہ حدیبیہ انجینئرنگ کمپنی میں 10.86 فی صد اور حدیبیہ پیپرز ملز میں 3.59 فی صد شیئرز کے مالک ہیں۔

احتساب عدالت میں جمع کرائی گئی نیب رپورٹ کے مطابق نواز شریف کے نام پر ایک مرسیڈیز کار، ایک ٹویوٹا لینڈ کروزر جیپ اور دو ٹریکٹر شامل ہیں۔

دورانِ سماعت کیس کے تفتیشی افسر عابد حسین نے عدالت کو بتایا کہ ملزموں کو تمام کاپیاں فراہم کر دی ہیں اگر ان میں کوئی مسئلہ ہے تو ابھی دیکھ کر بتا دیں۔ جس پر جج اسد علی نے وکلا کو ہدایت کی کہ تمام صفحات کا جائزہ ابھی لے لیں۔ ریفرنس کی کاپیوں سے متعلق آئندہ کوئی درخواست قابلِ قبول نہیں ہو گی۔

توشہ خانہ ریفرنس میں نواز شریف کے اثاثوں کی قرقی کا حکم

نیب پراسیکیوٹر کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے میر شکیل الرحمٰن پر فردِ جرم عائد کرنے کے لیے 28 جنوری کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر شریک ملزم ہمایوں فیض رسول کو بھی طلب کر لیا ہے۔

واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اِس کیس کی پیروی نہیں کر رہے۔

غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں گزشتہ برس17 دسمبر کو احتساب عدالت میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی زیر ملکیت منقولہ اور غیر منقولہ اثاثوں کی تفصیلات جمع کرائی گئیں تھیں۔ اِسی کیس میں یکم اکتوبر 2020 کو نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔

مذکورہ کیس میں سابق وزیرِاعظم کے تین ستمبر 2020 کو ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جب کہ پانچ اگست 2020 کو قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

یاد رہے احتساب عدالت اسلام آباد نے بھی توشہ خانہ ریفرینس میں مئی 2020 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دسمبر 2020 کو اُنہیں العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں دائر اپیلوں پر اشتہاری قرار دے رکھا ہے۔

گزشتہ سال مارچ 2020 میں قومی احتساب بیورو لاہور نے نشریاتی ادارے جیو اور جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن کو مبینہ غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں گرفتار کیا تھا۔

احتساب سب کے لیے ہونا چاہیے: مریم نواز

نیب کے مطابق غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواز شریف نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے استثنیٰ پالیسی اور قوانین کے خلاف ملزم میر شکیل الرحمٰن کو مالی فائدہ دیا تھا۔ نیب کے مطابق استثنیٰ پالیسی کی خلاف ورزی پر ملزم نواز شریف نے قومی خزانے کو 14 کروڑ 35 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق حکومتِ پاکستان عدالت کے حکم پر نواز شریف کی قرق کی گئی جائیداد کو نیلام کر سکتی ہے اور عدالتی حکم پر ہی نواز شریف کو قرق کی گئی جائیداد واپس دی جا سکتی ہے۔

خیال رہے کہ نواز شریف کو لاہور ہائی کورٹ نے اکتوبر 2019 میں طبی بنیادوں پر علاج کی غرض سے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی تھی۔ علاوہ ازیں اسلام ہائی کورٹ نے بھی العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم کی سزا چھ ہفتوں کے لیے معطل کر دی تھی۔

حکومت نے نواز شریف کو بیرونِ ملک علاج کے لیے جانے کی غرض سے انڈیمنٹی بانڈ کی شرط رکھی تھی جسے لاہور ہائی کورٹ نے ختم کر دیا تھا۔

عدالت نے بیان حلفی کی بنیاد پر نواز شریف کو چار ہفتوں کے لیے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی تھی۔ جس کے بعد نواز شریف 19 نومبر کو لندن روانہ ہو گئے تھے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa