چند خبریں، بلا تبصرہ


گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستان میں ہم گلا پھاڑ پھاڑ کر ایک دوسرے کو گالیاں دینے، چور، ڈاکو، لٹیرے قرار دینے میں مصروف ہیں، جبکہ دیگر ممالک اپنے عوام کو کووڈ۔ 19 سے محفوظ رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت نے اس معاملے میں بہت سے ترقی یافتہ مغربی ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 2020 میں بھارت دنیا میں سب سے زیادہ ویکسین تیار کرنے والا ملک بن گیا تھا۔ اس وقت بھارت کا دوا ساز ادارہ، ”سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا“ دنیا میں سب سے زیادہ ویکسین بنانے والا ادارہ ہے، جو ایک ماہ میں کئی لاکھ خوراکیں تیار کر رہا ہے۔

بہت جلد وہ ایک کروڑ ماہانہ کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ کی انتظامیہ کہتی ہے کہ یہ مقدار سالانہ ڈیڑھ ارب خوراکوں تک بڑھائی جا سکے گی۔ ایک اور بھارتی کمپنی ”بھارت بائیو ٹیک“ بھی کاواکسن (COVAXIN) ویکسین کی تیاری میں مگن ہے۔ بھارت دنیا کو ویکسین برآمد کرنے والا ملک بھی بن چکا ہے۔ صرف سیرم انسٹی ٹیوٹ کو برازیل، مراکش، سعودی عرب، بنگلہ دیش، میانمار، جنوبی افریقہ سے کروڑوں ویکسین خوراکوں کے آرڈر موصول ہو چکے ہیں۔

بنگلہ دیش بھی بھارت سے چھ مرحلوں میں تین کروڑ خوراکیں درآمد کرنے کا معاہدہ کر چکا ہے۔ 50 لاکھ خوراکوں کی پہلی کھیپ اسی ماہ آ رہی ہے۔ جبکہ پاکستان کا حال دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ اس معاملے میں ہم بنگلہ دیش سے بھی کہیں پیچھے ہیں۔ چند دن پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں ایک وفاقی وزیر  نے بتایا تھا کہ پاکستان چین کی تیار کردہ ویکسین کی گیارہ لاکھ خوراکیں حاصل کرنے کا پروگرام بنا چکا ہے اور توقع ہے کہ فروری میں ہم ویکسی نیشن شروع کر سکیں گے۔

لیکن وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے ایک بیان سے وفاقی وزیر کی اس اطلاع کی بھی تردید ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر فیصل نے واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان نے ابھی تک دنیا کے کسی بھی ملک کو ویکسین کی فراہمی کا آرڈر نہیں دیا۔ نہ ہی کسی ملک نے اب تک ہمارے کسی رابطے یا استدعا کا جواب دیا ہے۔ اس خبر یا اطلاع پر کسی نوع کے تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔ آدمی ایسی خبر پر کیا تجزیہ اور تبصرہ کرے؟ بس اللہ پاک ہمارے ملک پر رحم فرمائے۔ پاکستانی عوام پر رحم فرمائے۔ آمین۔

بد قسمتی سے آئے روز پاکستان کے بارے میں ایسی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں جنہیں دیکھ کر نہایت دکھ ہوتا ہے۔ خیال آتا ہے کہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ملک بھارت کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ پاکستان کے بطن سے جنم لینے والا بنگلہ دیش بھی بہت سے شعبوں میں ہم سے آگے نکل گیا ہے۔ خانہ جنگیوں کا شکار افغانستان بھی کچھ معاملات (مثلاً کرنسی کی قدر) میں ہم سے آگے کھڑا ہے۔ ایک ہم ہیں، جو تیز رفتاری سے ڈھلوان کے سفر پر گامزن ہیں۔ آج کل بھی کچھ افسوسناک خبریں گردش کر رہی ہیں۔ یہ خبریں کسی تجزیے کی محتاج نہیں۔ آج کا کالم بلا تبصرہ ان خبروں کی نذر۔

ملائشیا نے عدالتی حکم پر ہماری قومی ائیر لائن، پی۔ آئی۔ اے کا ایک طیارہ اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ کوالالمپور ہوائی اڈے پر ملائیشین حکام  نے پی۔ آئی۔ اے کے طیارے کو ٹیک آف سے قبل روکا۔ طیارے کو قبضے میں لیا۔ تمام سوار مسافروں کو جہاز سے اتارا۔ اطلاعات کے مطابق طیارے کو لیز کی عدم ادائیگی کی بنیاد پر قبضے میں لیا گیا۔ جہاز کا اٹھارہ رکنی عملہ بھی ملائشیا میں پھنس گیا ہے۔ جسے اب چودہ دن قرنطینہ میں گزارنے ہیں۔

پی۔ آئی۔ اے  نے گزشتہ چھ ماہ سے لیز کی رقم ادا نہیں کی تھی۔ یہ رقم مبینہ طور پر چودہ ملین ڈالر ہے۔ لیز کی رقم کی عدم ادائیگی طیارے کے روکے جانے کا باعث بنی۔ اطلاعات کے مطابق ملائشیا کی عدالت نے قومی ائیر لائن کے دو طیارے روکنے کا حکم دیا تھا۔ لیزنگ کمپنی نے پی۔ آئی۔ اے کے دونوں طیاروں پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ ان میں سے ایک کے ملائشیا شیڈول ہونے کی اطلاع ملتے ہی کمپنی نے ملائشین عدالت سے رجوع کیا۔ قبضے کا عدالتی حکم حاصل کیا اور طیارہ قبضے میں لے لیا۔

اخباری اطلاعات کے مطابق، پاکستان یہ معاملہ سفارتی محاذ پر اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس خبر کے حوالے سے پاکستان کے ایک سینئر صحافی نے خبر دی ہے کہ لیز کے چودہ ملین ڈالر کی رقم ادا کرنے کے بجائے پی آئی اے انتظامیہ یہ رقم پی آئی اے کو ہونے والے منافع کے طور پر ظاہر کرتی رہی۔

قومی ائیر لائن ہی کے حوالے سے ایک خبر یہ ہے کہ ہمارے دوست ملک چین نے پی آئی اے کی چین جانے والی تمام پروازوں پر تین ہفتوں کے لئے پابندی عائد کر دی ہے۔ چین جانے والے دس مسافروں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہونے کے بعد چینی حکام نے پاکستانی پروازوں کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔

دنیا کے مختلف ممالک کے پاسپورٹوں کی درجہ بندی کرنے والے ادارے ہنری اینڈ پارٹنرز  نے سال 2021 کی درجہ بندی جاری کر دی ہے۔ اس انڈیکس کے مطابق جاپان کا پاسپورٹ دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس بھی جاپان کا پاسپورٹ دنیا کا بہترین پاسپورٹ تھا۔ جاپانی شہری دنیا کے 191 ممالک میں بغیر ویزہ لگوائے سفر کر سکتے ہیں۔ بھارتی پاسپورٹ 85 ویں نمبر پر ہے۔ بھارتی شہری دنیا کے 58 ممالک میں بغیر ویزے کے سفر کر سکتے ہیں۔

پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے بدترین پاسپورٹس میں شامل ہے۔ یہ ایک سو ساتویں نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس بھی پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے بدترین پاسپورٹس میں شامل تھا۔ بنگلہ دیش کا پاسپورٹ پاکستان سے پانچ درجے اوپر یعنی ایک سو ایک ویں نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس صومالیہ کا پاسپورٹ، پاکستانی پاسپورٹ کے برابر کھڑا تھا۔ اس سال صومالیہ کا پاسپورٹ پاکستان سے ایک درجہ اوپر ہے۔ پاکستان سے نیچے صرف تین ممالک کے پاسپورٹس آتے ہیں۔ یہ ممالک شام، عراق اور افغانستان ہیں۔

لندن ہائی کورٹ میں کیس ہارنے کے بعد نیب نے براڈ شیٹ کو 28.7 ملین ڈالرز یعنی تقریباً 4 ارب 58 کروڑ پاکستانی روپے کی ادائیگی کر دی۔ نیب کے وکیل ایلن اور اووری ایل ایل پی کو لیگل فیس کی ادائیگی کے بعد یہ رقم 7 ارب 18 کروڑ پاکستانی روپے تک پہنچ جائے گی۔ 17 برس قبل نیب نے درجنوں پاکستانیوں کے مبینہ غیر ملکی اثاثے تلاش کرنے کے لئے براڈ شیٹ کی خدمات حاصل کی تھیں۔ ان پاکستانیوں میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کا خاندان بھی شامل تھا۔تاہم کسی ایک بھی پاکستانی کے اثاثوں کا پتہ نہیں لگایا جا سکا۔

لندن ہائی کورٹ کی فنانشل ڈویژن نے 17 دسمبر کو آخری تھرڈ پارٹی آرڈر جاری کیا تھا جس میں نیب کے سابق کلائنٹ براڈ شیٹ کو 30 دسمبر تک ادائیگی کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ رقم کی عدم ادائیگی کے بعد برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کا اکاؤنٹ منجمد کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے سے پاکستانی ٹیکس دہندگان کو اربوں روپے کا بوجھ اٹھانا پڑا۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).