پاکستان میں گیس کی قلت: کیا درآمد میں تاخیر سے بحران پیدا ہوا؟


پاکستان میں گزشتہ کئی ہفتوں سے گیس کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ جس کی وجہ سے صنعتی شعبے کے بڑے حصے کو گیس کی فراہمی تعطل کا شکار ہے۔ جہاں کئی کارخانے اپنی ضرورت کے لیے گیس کی مدد سے بجلی بنانے سے قاصر ہیں وہیں ان کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے جس کا اثر برآمدی آرڈرز پر پڑنے کا بھی خدشہ ہے۔

پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو برآمدات میں اہم مقام حاصل ہے اور ملک کی برآمدات میں اس کا سب سے بڑا حصہ ہوتا ہے۔

ٹیکسٹائل برآمدات کے شعبے سے وابستہ ‘جے بی’ انڈسٹریز کے سربراہ جاوید بلوانی کا کہنا ہے کہ حکومت نے گیس کے نرخ بڑھانے کے عوض سردیوں میں گیس کی کمی کو پورا کرنے کا وعدہ کیا تھا جسے صنعت کاروں نے بخوشی قبول کر لیا تھا۔

اُن کے بقول اس کی وجہ یہ تھی کہ گزشتہ چند ماہ سے خوش قسمتی سے ہمارے پاس کافی اچھے آرڈرز آئے تھے۔ انہیں امید تھی کہ آرڈرز کو پورا کرنے کے لیے اگر بلا تعطل اور بھرپور پریشر کے ساتھ گیس مل جائے تو یہ سودا برا نہیں تھا۔

ان کے مطابق حکومت نے برآمدی سیکٹر کو ہفتہ بھر گیس دینے اور دیگر صنعتوں کو سوائے اتوار کے بلاناغہ گیس دینے کا وعدہ کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس لحاظ سے اکتوبر اور نومبر تو بہت اچھے گزرے مگر دسمبر کے آخر میں گیس کی لوڈشیڈنگ یا پریشر میں کمی کے مسائل شروع ہوئے جو اب تک جاری ہیں۔

جاوید بلوانی کا کہنا تھا کہ ایکسپورٹ سیکٹر کے علاوہ دیگر سیکٹرز کو گیس بند کرنے کا نقصان بھی اسی شعبے کو پہنچتا ہے کیوں کہ 20 سے 25 صنعتیں ان کو خام مال سپلائی کرتی ہیں۔

جاوید بلوانی کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ‘آر ایل این جی’ بروقت درآمد نہ کرنے کی وجہ سے فراہمی میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ہمیں امید تھی کہ شاید اس بار ٹیکسٹائل سیکٹر کو ان مسائل سے نجات مل جائے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔

متوقع گیس بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟

جاوید بلوانی کا کہنا تھا کہ اس حکومت سے ہمیں کافی توقعات تھیں مگر ہمارے مسائل اب تک حل نہیں ہوئے۔

ایک اور صنعت کار اور کورنگی ٹریڈ اینڈ انڈسٹریز کے صدر سلیم الزمان کا کہنا ہے کہ صنعتوں کو گیس کی سپلائی معطل کرنے سے ان کی پریشانیاں بہت بڑھ چکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پہلے کہا گیا تھا کہ نان ایکسپورٹ انڈسٹریز ہی کی گیس معطل کی جائے گی مگر اس میں ان انڈسٹریز کو بھی گیس کی فراہمی بند کر دی گئی جو ایکسپورٹ سیکٹر کی سپلائی چین کا حصہ تھی۔

جاوید بلوانی نے مزید کہا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے نئے نوٹی فکیشن کے تحت 13 جنوری سے ایکسپورٹ سیکٹر کو بھی پاور جنریشن کے لیے گیس کی فراہمی بند کر دی گئی ہے۔ اس سے ایک گھمبیر بحران پیدا ہو گیا ہے جس سے صنعتیں بے حد متاثر ہو رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جن انڈسٹریز کو اب بھی گیس مل رہی ہے وہاں بھی گیس پریشر نہ ہونے کے برابر ہے۔ بعض جگہوں پر پریشر ڈیڑھ سے دو پی ایس آئی تک پہنچ چکا ہے جب کہ آئیڈیل گیس پریشر آٹھ پی ایس آئی تک ہونا چاہیے۔ ایسی صورتِ حال میں پلانٹس آپریٹ نہیں کیے جا سکتے۔

گیس کے بحران کے معاملے پر حکومت پر جہاں صنعت کار اور تاجر تنقید کر رہے ہیں وہیں اپوزیشن بھی ایسے موقع پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہے اور اسے حکومت کی نااہلی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔

سندھ کے صوبائی وزیر توانائی امتیاز شیخ کہتے ہیں کہ گیس کی قلت کی وجہ سے عوام کے چولہے بھی ٹھنڈے پڑے ہیں اور صنعتوں میں بھی تالے لگ چکے ہیں۔

اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ بروقت گیس خریداری میں غفلت کا مظاہرہ کیا گیا اور پھر مہنگی ایل این جی خرید کر قومی خزانے کو 122 ارب کا نقصان پہنچایا گیا۔

پاکستان میں گیس کی طلب اور رسد کتنی ہے؟

پاکستان اکنامک سروے کے مطابق ملک میں یومیہ تقریباً چار ارب کیوبک فٹ گیس پیدا ہوتی ہے جب کہ یہاں چھ ارب کیوبک فٹ یومیہ گیس کی طلب ہے۔ ملک میں 96 لاکھ کے قریب گیس صارفین کی ضرورت پوری کرنے کے لیے 12 ہزار 971 کلو میٹر ٹرانسمیشن اور ایک لاکھ 39 ہزار کلو میٹر سے زائد کا وسیع ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک موجود ہے۔

ملک میں گھریلو صارفین کی سردیوں میں گیس کی کھپت ڈھائی گنا تک بڑھ جاتی ہے۔

دوسری جانب حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک میں گیس کی پیداوار میں مسلسل کمی کا سلسلہ جاری ہے اور سالانہ کمی نو سے ساڑھے نو فی صد تک ہو رہی ہے اور اگر نئی دریافتوں کو بھی ملا دیا جائے تو بھی یہ فرق پانچ سے سات فی صد تک بنتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس فرق کو ایل این جی منگوا کر پورا کیا جاتا ہے۔ پاکستان اپنی گیس کی ضرورت کا 25 سے 30 فی صد ایل این جی کی درآمد کر کے پورا کر رہا ہے۔ ملک میں اس وقت گیس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے گزشتہ حکومت کے دور میں ایل این جی یعنی مائع قدرتی گیس کی درآمد کا منصوبہ شروع کیا گیا۔

درآمد شدہ ایل این جی کو اسٹور کرنے اور اسے دوبارہ سے گیس میں تبدیل کرنے کے لیے دو ٹرمینلز کام کر رہے ہیں جن کی استعداد 1200 ایم ایم سی ایف ڈی ہے اور اس گنجائش کی استعداد ہی کے حساب سے ہی درآمدات کی جاتی ہیں۔

گیس کم تھی تو ایل این جی بروقت کیوں نہیں منگوائی گئی؟

مقامی صنعت کاروں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ حکومت کو معلوم تھا کہ ملک میں سردی میں گیس کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے تو ایسے میں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ایل این جی کم کیوں منگوائی گئی۔

اسی طرح یہ سوال بھی تواتر سے اٹھایا گیا کہ جب عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت کم تھی تو اس وقت اسے خریدنے کے لیے ٹینڈر جاری کیوں نہیں کیا گیا اور اب جب اس کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے تو تاخیر سے اسے درآمد کیے جانے کا آرڈر کیوں کیا گیا؟

اس پر وزیرِ اعظم کے خصوصی مشیر برائے پیٹرولیم ندیم بابر کا کہنا ہے کہ گیس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے دسمبر میں بھی ایل این جی ٹرمینلز اپنی مکمل استعداد کے مطابق ہی کام کرتے رہے۔

اُن کے بقول جنوری کے لیے بھی 1200 ملین کیوبک فٹ کے آرڈر کیے گئے ہیں اور اس مقصد کے لیے 12 کارگو شپس کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان خریداری کے لیے طویل المیعاد معاہدوں کے ساتھ ‘اسپاٹ پرچیزنگ’ کے تحت ایل این جی منگواتا ہے۔ لیکن قیمت کے تعین کے لیے اسپاٹ پرچیز (موقع پر خریداری) اور طویل المیعاد کنٹریکٹس کا آپس میں موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے بتایا کہ سال 2020 میں طویل المیعاد کنٹریکٹ کے ذریعے منگوائی گئی ایل این جی کی اوسط قیمت آٹھ ڈالر چھ سینٹ فی یونٹ رہی جب کہ سال بھر کے اسپاٹ پرچیز پر قیمت چھ ڈالر 84 سینٹ فی یونٹ رہی ۔ اس طرح یہ فرق 18 فی صد کا بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنا مناسب بات نہیں۔

مشیر برائے پیٹرولیم ندیم بابر کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ دورِ حکومت میں ایل این جی کی اسٹوریج کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا اور اس کے ساتھ اسے پیٹرولیم مصنوعات ڈیکلیئر کیا گیا۔ ان اقدامات کی روشنی میں ایل این جی کو درآمد کرنے کے بعد اسے چار سے پانچ روز میں استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اسے زیادہ دیر تک اسے نہیں رکھا جا سکتا کیوں کہ اس کے بعد دوسرے جہاز کو اس ٹرمینل پر لنگر انداز ہونا ہوتا ہے۔

اس سوال پر کہ آیا گرمیوں کے موسم ہی میں ایل این جی کا سودا کیوں نہیں کر لیا گیا؟ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ گرمیوں کے موسم میں ایل این جی کی قیمت محض چار ڈالر تک تھی مگر حقیقت میں گرمیوں میں ایل این جی کی جس قدر ضرورت تھی اسے خریدا گیا، اسی طرح بجلی کے کارخانوں کو بھی مناسب مقدار میں ایل این جی دی گئی۔

فنانشل ایڈوائزر کمپنی کیپیٹل اسٹیک میں ہیڈ آف ریسرچ سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ایل این جی کی طلب میں اضافے کی وجہ سے اس کی کمی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سوئز کینال اور پانامہ کینال بند ہونے کی وجہ سے ایل این جی کے کارگوز پوری دنیا میں کم ہیں۔

اُن کے بقول اس کے ساتھ ساتھ کرونا وبا کے بعد دنیا بھر میں مختلف ممالک میں کاروبار اور معیشتیں کسی حد تک کھلنے کی وجہ سے بھی طلب پوری نہیں ہو پا رہی۔

ان کے خیال میں شمالی ایشیا میں اس بار سردیوں کی شدت میں اضافے کی وجہ سے طلب میں اضافے کے باعث بھی ایل این جی کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ معاشی حالات میں قدرے بہتری اور سردیوں کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں ایل این جی کی قیمت مئی میں دو ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھ کر 14 امریکی ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے لگ بھگ ہے۔

سمیع اللہ طارق کے خیال میں قطر اور آسٹریلیا جو ایل این جی کے بڑے سپلائر تسلیم کیے جاتے ان کی سپلائی چین متاثر ہونے سے بھی عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت میں اضافے کا رحجان ہے۔

سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ پاکستان موقع پر طویل المیعاد منصوبوں کے بجائے ایل این جی کی موقع پر خریداری کی پالیسی اس لیے اپناتا ہے کہ ہمارے ہاں طلب کا رحجان موسم سے جڑا ہوا ہے اور گرمی بڑھنے سے گیس کی ڈیمانڈ میں کمی دیکھی جاتی ہے۔

پاکستان کا کوئلے سے بجلی پیداوار کے مزید پلانٹس نہ لگانے کا فیصلہ، ذخائر کا مستقبل کیا ہو گا؟

سردیوں میں اس کی طلب میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اسی لیے حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ڈیمانڈ بڑھنے پر ہی ایل این جی خریدی جائے گی جب کہ ڈیمانڈ گر جائے گی تو ایل این جی نہیں لی جائے گی۔

سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ صنعتوں کو فرنس آئل کے مقابلے میں گیس پر پلانٹ چلانا قیمت اور پلانٹ کی کارکردگی کے لحاظ سے مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ اسی لیے صنعتیں گیس کے استعمال پر انحصار زیادہ کرتی ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کی گیس کی کمی سے ایکسپورٹ سیکٹر اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

ان کے خیال میں حکومت اس بحران پر کسی حد تک قابو پا سکتی ہے۔ اگر پاور جنریشن پلانٹس سے گیس مکمل طور پر ہٹا کر ایکسپورٹ سیکٹر اور گھریلو صارفین کو دی جائے تو اس بحران سے کسی حد تک نمٹا جاسکتا ہے۔

تاہم طویل المعیاد بنیادوں پر پاکستان کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ان کے خیال میں توانائی کے متبادل ذرائع کی جانب جانا ہی ہو گا۔ سمیع اللہ طارق کے خیال میں اس مقصد کے لیے توانائی کی ضرویات پوری کرنے کے لیے مقامی کوئلے، پانی، شمسی اور ہوا سے بجلی کے صاف اور متبادل ذرائع پر انحصار کرنا ہو گا۔

سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے گیس سیکٹر میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں گیس کی پیداوار کے ذرائع اور قیمتوں کا کوئی جوڑ نہیں بنتا۔

اُن کے بقول صنعتوں کے لیے گیس کی قیمت گھریلو صارفین کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ گھریلو صارفین کو گیس سبسڈی کے ساتھ دی جاتی ہے۔

اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں کھانا پکانے کے لیے گیس پائپ لائن میں نہیں دی جاتی لیکن ہم نے 27 فی صد کے لگ بھگ آبادی کو گیس پائپ لائنز کے ذریعے فراہم کی تو اس سے بھی مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

سمیع اللہ طارق کے خیال میں حکومت نے اس شعبے میں بہتری کے لیے کچھ اقدامات تو کیے ہیں جس میں صارفین کے لیے گیس کی قیمت بڑھائی گئی ہے۔ تاہم یہ مشکل فیصلہ تھا لیکن لوگوں کو گیس کی بچت اور متبادل ذرائع استعمال کرنے پر راغب کرنے کے لیے یہ ضروری تھا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa