”میں این آر او نہیں دوں گا“


بچپن میں ایک کہانی سنی تھی جس کا عنوان تھا ”چچا چھکن“ ۔ چچا چھکن کے 4 بھتیجے تھے۔ بہت دولت مند لیکن نہایت بیوقوف جبکہ چچا بہت چالاک اور عیار ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سفاک بھی تھے۔ انھوں نے اپنے عیاری کے فن سے اپنے بھتیجوں کی دولت کا ایک بہت بڑا حصہ ہڑپ کر لیا تھا بلکہ ان کی بیویوں تک کو اپنے بھتیجوں کے ہاتھوں جان سے مروادیا تھا۔ آخر ایک دن وہ بھتیجوں کی گرفت میں آہی گئے۔ بھتیجوں نے ان کو ایک چارپائی پر باندھ کر ان کے منہ پر ایک چادر اس طر لپیٹ دی کہ ان کی شناخت ہی نہ ہو سکے۔

اور چل دیے اپنے چچا کو دریا برد کرنے۔ جاتے جاتے ان کی چچی نے حلوہ کھلانے کے بہانے اس میں جمال گھوٹا ملادیا تھا اس لئے دریا آنے سے قبل ہی ان کو لوٹا پریڈ کے لئے دوڑ لگانی پڑی۔ اسی دوران کوئی اونٹ سوار ادھر سے گزر رہا تھا۔ وہ قریب آیا تو چچا نے ”میں شادی نہیں کروں گا“ کا ورد شروع کر دیا۔ اونٹ سوار نے ماجرا پوچھا تو بتایا کہ ان کے بھتیجے اس بڑھاپے میں زبر دستی ان کی شادی کرانا چاہتے ہیں لیکن میں شادی نہیں کروں گا۔

اونٹ سوار نے انھیں جلدی جلدی کھولا اور کہا کہ آپ مجھے باندھ دیں آپ کی بجائے میں شادی کیے لیتا ہوں۔ چچا نے ایسا ہی کیا۔ بھتیجے چچا سمجھ کر ان کو اٹھا کر چل دیے۔ جب اونٹ سوار نے دریا کے بہنے کی خوفناک آواز سنی تو وہ گھبرا گیا اور زور زور سے چلانے لگا کہ میں شادی کروں گا، میں شادی کروں گا، لیکن بھتیجوں نے ایک نہ سنی اور چچا سمجھ کر اونٹ سوار کو دریا میں پھینک ڈالا۔

موجودہ وزیر اعظم کی کہانی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ اگر جان کی امان ملے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ تمام صفات جو چچا چھکن میں موجود تھیں وہ ساری کی ساری ہمارے وزیر اعظم میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ فرق اگر ہوگا بھی تو اتنا کہ چچا نے اپنے بھتیجوں کو بیوقوف بنا کر اور ان کی جان سے کھیل کر اپنی عیاری و سفاکی کا مظاہرہ کیا جبکہ ہمارے وزیر اعظم پاکستان کے 22 کروڑ عوام کا لہو نچوڑنے اور ان کو پاگل بنانے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں اور حالات (بھتیجوں ) کی خوفناک گرفت میں آ کر چچا چھکن کی طرح میں ”این آر او“ نہیں دوں گا، میں ”این آر او“ نہیں دوں گا، کا شور مچا کر 22 کروڑ عوام کو چار پائی پر باندھ دینے کی تدبیروں میں لگے ہوئے ہیں۔

کوئی ختنہ کی تقریب ہو، مگنی کی رسم ہو، نکاح پڑھایا جا رہا ہو، مقامات مقدسہ کی زیارت پر حالت طواف میں ہوں، سونے کی کوشش میں مصروف ہوں یا رات کے کسی پہر گھبراہٹ کے عالم میں آنکھ کھل گئی ہو، غرض کوئی بھی کام ہو یا موقع، ان کے لبوں پر ہردم ایک ہی ورد جاری نظر آئے گا کہ ”میں این آر او نہیں دوں گا“ ۔

ہمیں نہ تو ان کے اس تکیہ کلام سے کوئی غرض ہے جو وہ ہر بات شروع کرنے سے قبل اور ختم ہونے پر دہرانے کی عادت کا شکار ہو گئے ہیں اور نہ ہی اس سے کوئی مطلب کہ کون ان سے این آر او مانگ رہا ہے اور کس کو وہ این آر او کسی بھی صورت نہیں دیں گے۔ ہم 22 کروڑ عوام تو ان سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ وہ کسی کو این آر او نہ دینے کی سزا عوام کو دینے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ ”میں این آر او نہیں دوں گا“ ، پٹرول مہنگا، ”میں این آر او نہیں دوں گا“ ، گیس نہ صرف مہنگی بلکہ سی این جی پمپ بند۔

”میں این آر او نہیں دوں گا“ ، بجلی کے فی یونٹ نرخوں میں اضافہ۔ ”میں این آر او نہیں دوں گا“ ، کھانے پینے کی تمام اشیا عوام کی پہنچ سے دور۔ ”میں این آر او نہیں دوں گا“ ، ٹیکسوں میں ہوشربا اضافہ۔ ”میں این آر او نہیں دوں گا“ ، ملازمتوں سے برطرفیاں۔ ”میں این آر او نہیں دوں گا“ ، بستیوں اور بازاروں کی مسماریاں۔ ”میں این آر او نہیں دوں گا“ ، ہر شے پر سبسڈی کا خاتمہ۔ غرض جتنی بار بھی جناب کی جانب سے ”میں این آر او نہیں دوں گا“ کا نعرہ مستانہ بلند ہوتا ہے عوام پر سو پچاس مصیبتوں کے بم اور برس پڑتے ہیں اور صابر عوام ہیں کہ ہر بار دریا میں پھینکے جانے کے خوف سے ”میں شادی کروں گا، میں شادی کروں گا، اس اونٹ سوار کی طرح چیختے چلاتے دریا برد ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس کو مکار چچا چھکن نے شادی کا جھانسہ دے کر چار پائی سے باندھ دیا تھا۔

وزیر اعظم پاکستان صاحب سے دست بستہ گزارش ہے کہ آپ ”میں این آر او نہیں دوں گا“ کا بے شک ورد جاری رکھیں۔ کسی چور اچکے، لٹیرے اور ڈاکوں کو بے شک این آر او نہیں دیں اور ان کی توندیں چاک کر کے ان میں بھری دولت کو باہر نکالنے کے جس عزم کو لے کر چلے ہیں اس کو جس طرح بھی ہو سکے پورا کریں لیکن خدا کے لئے اس کی سزا ہم عوام کو نہ دیں۔ مہنگائی کو اپنےدعووں کے مطابق بے شک نہ لائیں لیکن وہاں تک واپس تو لے آئیں جہاں لٹیرے چھوڑ کر گئے تھے۔

پٹرول فی لیٹر 63، آٹا فی کلو 35 اور ڈالر 94 روپے تک لے آئیں۔ قوم پر ٹیکسوں کے بوجھ کم کریں، ادویات 400 فی صد کم پر لے آئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ایسا کبھی نہیں کر سکیں گے اس لئے کہ آپ میں اور چچا چھکن میں کسی قسم کا کوئی فرق ہم عوام کو نظر نہیں آتا اور سچ پوچھیں تو اب نہ تو آپ کے اس نعرے میں کوئی اثر رہا ہے اور نہ ہی عوام کے لئے اس میں بھلائی کی کوئی صورت نظر آتی ہے کیونکہ آپ جو کچھ بھی مذاق قوم و ملک کے ساتھ کر رہے ہیں وہ قوم کو ہر بڑھتے قدم کے ساتھ خوفناک دریا کی جانب لیتا چلا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).