ہم تاریخ میں کہاں کھڑے ہیں؟


انسان آزاد پیدا ہوا ہے، لیکن وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہے۔ یہ تاریخی جملہ اٹھارہویں صدی کے مشہور فرانسیسی دانشور جان جیک روسو نے 1762 میں لکھا تھا۔ یہ جملہ اس نے اپنے ایک طویل مضمون میں لکھا جو آگے چل کر اس کی معرکۃ الآرا کتاب ’سوشل کنٹریکٹ‘ کا حصہ بنا۔ اس کتاب میں روسو نے فلسفے کو درپیش دو بڑے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ پہلا سوال یہ کہ ایک ریاست کی عمل داری کے اندر رہتے ہوئے انسان آزاد کیسے رہ سکتا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ ریاست کی طاقت کا قانونی اور اخلاقی جواز کیا ہوتا ہے۔

یہ دونوں فلسفے کے بہت پرانے سوال ہیں مگر ان سوالات کو گھسے پٹے قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کامیاب مغربی ممالک کے سنجیدہ تعلیمی اداروں میں فلسفے، سماجیات اور سیاسیات کی کلاسوں میں اب بھی ان سوالات پر بحث ہوتی ہے اور ’سوشل کنٹریکٹ‘ کو غور سے پڑھا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں، جہاں جمہوریت کو لے کر عام فکری اور نظریاتی افراتفری ہے، یہ سوال آج بھی اہم اور متعلق ہیں۔ چنانچہ روسو کی یہ ’سوشل کنٹریکٹ‘ ہمارے ”زوم ریڈنگ روم“ کے مطالعاتی سلسلے کی تیسری کتاب ہے، جس پر ہم نے تبادلۂ خیال کیا۔

کتاب میں روسو اپنے ہی اٹھائے گئے مذکورہ دو سوالات کا جواب بڑی تفصیل سے دیتا ہے۔ اس کے خیال میں شہری اپنی طاقت کو یکجا کر کے ایک عمرانی معاہدے کے تحت ایک دوسرے کے حقوق کے تحفظ اور اپنے آپ پر اپنی حاکمیت کا اختیار لیتے ہیں۔ اس طرح وہ ایک اجتماعی سماج کے اندر رہنے کے لیے کچھ آزادیوں سے دست بردار ہوتے ہیں، اور اس کے بدلے ”اجتماعی شہری آزادیاں“ حاصل کرتے ہیں۔ ریاست کا وجود صرف اس وقت جائز ہے جب اس میں رہنے والے عوام کو حق حاکمیت حاصل ہو۔

’سوشل کنٹریکٹ‘ میں جان جیک روسو نے زور دے کر کہا کہ جدید ریاستیں جسمانی آزادی پر زور دیتی ہیں، جو ہمارا پیدائشی حق ہے ’لیکن بد قسمتی سے یہ ریاستیں شہری آزادیوں کے لئے کچھ نہیں کرتیں، جس کی خاطر ہم سول سوسائٹی کا حصہ بنتے ہیں، اور سوشل کنٹریکٹ میں شامل ہوتے ہیں۔ روسو کے نزدیک ایک جائز سیاسی اتھارٹی صرف اس سوشل کنٹریکٹ سے حاصل ہوتی ہے، جس پر تمام شہری اپنے باہمی تحفظ کے لئے اتفاق کرتے ہیں۔ اس عمرانی معاہدے یا سوشل کنٹریکٹ کو ہم لوگ آج کل آئین یا دستور بھی کہتے ہیں۔

روسو تمام شہریوں کی اجتماعی گروہ بندی کو سپریم، اقتدار اعلیٰ یا حاکمیت کا نام دیتے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ یہ اجتماعی گروہ بندی ریاستی سطح پر ایک فرد کی طرح ہی سمجھی جانی چاہیے۔ اگرچہ ایک سماج میں ہر فرد کی ایک خاص خواہش یا مرضی ہوتی ہے، جس کا مقصد اپنے مفادات کا حصول ہوتا ہے، لیکن عوام کا ایک اجتماعی مقتدر گروہ ایک عمومی خواہش کا اظہار کرتا ہے، جس کا مقصد سب کی مشترکہ بھلائی ہے۔

اس طرح اس اجتماعی مقتدر گروہ کا صرف ان معاملات پر اختیار ہوتا ہے، جن کا تعلق اجتماعیت اور معاشرت سے ہو۔ اس اجتماعی شعبے میں اس کا اختیار مطلق ہے۔ یہ اختیار آئین یا سوشل کنٹریکٹ سے آتا ہے۔

روسو کے ہاں آئین یا سوشل کنٹریکٹ کو مقدس درجہ دیا جاتا ہے اور روسو اس سوشل کنٹریکٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سزائے موت تجویز کرتا ہے، یعنی آمریت کا وہ تیر بہدف علاج جو روسو نے دو سو سال پہلے تجویز کیا تھا، تیسری دنیا کے ملک آج آ کر اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں اس پر اتفاق کرنے پر تیار ہوئے ہیں اور آئین توڑنے والوں کے لیے سزائے موت پر مشکل سے اتفاق کیا ہے۔

روسو کے خیال میں عمرانی معاہدے کی وجہ سے عوام کی عمومی رائے اور مرضی کو ریاست کے عمومی اور تجریدی قوانین میں واضح اظہار مل جاتا ہے۔ ایک سماج میں تشکیل دیے جانے والے ہر قسم کے قوانین کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام کی آزادی اور مساوات کو یقینی بنائیں۔ یعنی آزادی اور مساوات پر کسی سمجھوتے کی گنجائش نہیں ہے، لیکن اس کے علاوہ جو معاملات ہیں، ان پر مقامی حالات کے لحاظ سے مختلف قانون سازی کی جا سکتی ہے۔

اگرچہ با اختیار عوام قوانین کے ذریعے قانون سازی کا استعمال کرتے ہیں، لیکن ریاستوں کو بھی روزانہ کے کاروبار اور فرائض کی انجام دہی کے لیے اور اپنی ایگزیکٹو پاور کے استعمال کے لئے حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کی متعدد شکلیں ہیں۔ ان کو عموماً جمہوریت، اشرافیہ اور بادشاہت میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

روسو کے ہاں بادشاہت حکومت کی سب سے مضبوط شکل ہے، لیکن روسو نے بعض نا قابل وضاحت وجوہات کی بنا پر بادشاہت کو صرف بڑی آبادی اور گرم آب و ہوا کے لیے ہی بہترین قرار دیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے دور میں زیادہ تر بڑی اور کامیاب بادشاہتیں گرم آب و ہوا اور زیادہ آبادی والے علاقوں پر قائم تھیں۔

اگرچہ مختلف ریاستیں حکومت کی مختلف اقسام کے لئے موزوں ہیں، لیکن روسو کا خیال ہے کہ ان میں اشرافیہ سب سے زیادہ مستحکم ہے۔ حکومت عوام سے الگ ہے، اور دونوں کے درمیان ہمیشہ ایک طرح کی کشمکش رہتی ہے۔ روسو کے خیال میں یہ تصادم یا کشمکش بالآخر ریاست کو تباہ کر دے گی، لیکن صحت مند ریاستیں تحلیل ہونے سے پہلے کئی صدیوں تک قائم رہ سکتی ہیں۔

روسو کے خیال میں جمہوری حکومتوں میں عوام باقاعدہ وقتاً فوقتاً اسمبلیوں میں اجلاس کر کے اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہیں۔ عام طور پر تمام شہریوں کو ان اسمبلیوں میں شرکت کے لئے راضی کرنا اکثر مشکل ہوتا ہے، لیکن ریاست کی فلاح و بہبود کے لئے یہ حاضری لازم ہے۔ جب شہری اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں تو اس وقت عوام کی مرضی کا احترام ضروری ہے۔ اگر عوام کی مرضی کا احترام نہیں کیا جائے گا تو ریاست خطرے میں پڑ جائے گی۔ اسمبلیوں میں ووٹ ڈالتے وقت لوگوں کو اپنے ذاتی مفاد یا پسند کے مطابق ووٹ نہیں دینا چاہیے بلکہ مفاد عامہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے۔ ایک صحت مند ریاست اور جمہوریت میں ان ووٹوں کے نتائج پر اتفاق ہونا چاہیے، ان کو بلا چوں و چرا تسلیم کیا جانا چاہیے۔

روسو نے حکومت اور خود مختار اداروں اور حکومت اور لوگوں کے مابین ثالثی کے لیے ٹریبونلز کے قیام کی سفارش کی ہے۔ سنسر کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے روسو کا کہنا ہے کہ سنسر کے دفتر کا کردار عوام کی رائے کو واضح کرنا ہے، اس کو دبانا نہیں ہے۔ روسو مذہب کو ایک طرح کا ذاتی معاملہ قرار دیتا ہے۔ اس کے خیال میں اگرچہ ہر شخص کو ذاتی طور پر اپنے ذاتی اعتقادات کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے آزاد رہنا چاہیے، لیکن روسو تجویز کرتا ہے کہ ریاست کو بھی تمام شہریوں سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ ایک ایسے مذہب کی پابندی کریں جو اچھی شہریت کی ترغیب دیتا ہے۔

روسو کے عمرانی معاہدے میں بیشتر وہ نکات زیر بحث آئے ہیں، جو بظاہر کئی سو برس پرانے ہیں، مگر بد قسمتی سے پاکستان جیسے پس ماندہ ممالک اور سماجوں میں عوام کو آج بھی ان مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل کے بارے میں پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم لوگ سماجی و معاشی انصاف اور مساوات کے باب میں ابھی تک روسو کے دور سے بھی بہت پیچھے ہیں۔ ہم فکری اور نظریاتی طور پر تاریخ میں کہیں بہت پیچھے اٹکے ہوئے ہیں۔ یہ ہماری سماجی و معاشی پسماندگی اور سیاسی انارکی کی ایک بڑی وجہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).