پرویز مشرف کے الزامات۔۔۔ قانونی جواب دہی کی جائے


\"\" وزیراعظم ہاؤس کی تردید کے باوجود ملک کے اکثر لوگ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے اس دعویٰ کی تائید کریں گے کہ انہیں حال ہی میں ریٹائر ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دباؤ کی وجہ سے ملک سے جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں ایک مخصوص معاملہ میں ان کا نام ای سی ایل سے ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا۔ تاہم اسی فیصلہ میں یہ بھی واضح کر دیا گیا تھا کہ سابق صدر کے خلاف بغاوت کے مقدمہ کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت یا حکومت اگر قانون کے تحت پرویز مشرف کے سفر پر پابندی لگانے یا انہیں حراست میں لینے کا فیصلہ کرتی ہے تو وہ اس میں آزاد ہے۔ تاہم وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ سامنے آنے کے فوری بعد ذمہ داری کا سارا بوجھ سپریم کورٹ پر ڈالتے ہوئے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے ہٹا لیا اور اسی رات یعنی 18 مارچ کو وہ بیرون ملک پرواز کر گئے۔ چوہدری نثارعلی خان نے اس موقع پر اپنے فیصلہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کے حکم پر ایک مریض کو بغرض علاج چار چھ ہفتوں کےلئے ملک سے جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ حکومت اگر جانے کی اجازت دے سکتی ہے تو جب چاہے انہیں واپس بھی لا سکتی ہے۔ وزیر داخلہ کے اس بیان کے باوجود پوری قوم کو یقین تھا کہ پرویز مشرف اب کبھی ملک واپس نہیں آئیں گے کیونکہ یہاں پر ان کے خلاف آئین سے غداری کے علاوہ تین افراد کے قتل کا مقدمہ بھی قائم ہے۔

اب جنرل پرویز مشرف دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ ڈیل کی صورت میں ملک سے باہر گئے تھے جو جنرل راحیل شریف کے دباؤ کی وجہ سے طے پائی تھی۔ ان کا موقف ہے کہ سابق آرمی چیف ان کے ماتحت رہے تھے اور میں ان سے پہلے فوج کا سربراہ بھی رہ چکا تھا، اس لئے انہوں نے میری مدد کی کیونکہ میرے خلاف حکومت نے سیاسی مقدمات بنائے ہوئے تھے۔ اس بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ ملک کے عدالتیں بدقسمتی سے دباؤ میں کام کرتی ہیں۔ وہ حکومت کی مرضی کے فیصلے دیتی ہیں۔ اس لئے جب جنرل راحیل شریف نے حکومت پر دباؤ ڈال کر عدالت پر دباؤ ختم کروایا تو انہیں ملک سے جانے کی اجازت دے دی گئی۔ اس بیان سے پرویز مشرف کا یہ دعویٰ تو ثابت نہیں ہوتا کہ سپریم کورٹ نے کسی دباؤ میں فیصلہ کیا تھا بلکہ یہی واضح ہوتا ہے کہ نواز شریف کی حکومت نے سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کا موقع فراہم کیا تھا اور اس مقصد کےلئے سپریم کورٹ کے کاندھے پر بندوق رکھی گئی تھی۔ البتہ اس بیان میں پرویز مشرف جس طرح ملک کی عدلیہ پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ حکومت کے دباؤ اور اشارے پر فیصلے صادر کرتی ہے، وہ بجائے خود چونکا دینے والا معاملہ ہے اور ملک کے اعلیٰ ترین اور معزز ادارے پر کیچڑ اچھالنے کے مترادف ہے۔

ان گئے گزرے حالات میں بھی اکثر سیاسی لیڈر اور عوام ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں کہ وہاں سے انصاف میسر آ سکے گا۔ اسی لئے تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور دیگر گروہ پاناما پیپرز کے معاملہ میں وزیراعظم کے خلاف الزامات میں انصاف حاصل کرنے کےلئے سپریم کورٹ گئے ہیں۔ یہ مقدمات زیر سماعت ہیں اور نئے سال کے آغاز میں نئے چیف جسٹس ازسر نو بینچ تشکیل دے کر اس معاملہ کی سماعت کا آغاز کریں گے۔ اس موقع پر اگر یہ تاثر عام کر دیا جائے کہ سپریم کورٹ دراصل حکومت کے اشاروں پر فیصلے کرنے پر مجبور ہوتی ہے تو مملکت میں انصاف کی ساری امیدیں دم توڑنے لگیں گی۔ کسی بھی ملک کےلئے یہ صورتحال تکلیف دہ حد تک ناقابل قبول ہے۔ یہ بیان اس ملک کے 9 سال تک حکمران رہنے والے ایک سابق فوجی کمانڈر کی طرف سے دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس بیان کے ذریعے پرویز مشرف نے خود کو بھی جھوٹا ثابت کیا ہے۔ وہ بیماری کا بہانہ بنا کر علاج کروانے کےلئے خصوصی اجازت پر ملک سے باہر گئے تھے لیکن اب وہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ آرمی چیف کے ذریعے دباؤ ڈلوا کر حکومت کو مجبور کرکے ملک سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے تاکہ وہ ان مقدمات سے محفوظ رہ سکیں جنہیں وہ خود ہی سیاسی قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے اس دعویٰ سے بھی منحرف ہو رہے ہیں کہ وہ بہرصورت اپنے اوپر عائد ہونے والے ہر الزامات کا سامنا کریں گے اور مقدمات کی سماعت کے موقع پر عدالتوں میں حاضر ہوں گے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی شجاعت اور بہادری کے دعوؤں کے باوجود چند روز جیل میں گزارنے کے تصور سے ہی پرویز مشرف کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسلام آباد میں جب عدالت نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا تو وہ فرار ہر کو فوجی اسپتال پہنچ گئے تھے اور مریض بن کر گرفتاری سے بچنے کا بہانہ کیا تھا۔

تاہم پرویز مشرف کے جھوٹ کا پول کھلنے کے باوجود ملک کے دو اہم اداروں پر ان کا حملہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی چوہدری نثار علی خان بطور وزیر داخلہ اور وزیراعظم نواز شریف حکومت کے سربراہ کے طور پر اس معاملہ میں مجبور یا بے گناہ قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ جہاں تک سپریم کورٹ پر حکومت کے اشاروں پر فیصلے سنانے کے الزام کا تعلق ہے، اس کا جواب عدالت عظمیٰ کو ہی دینا پڑے گا۔ ملک میں قانون کے ماہرین مطالبہ کر چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کو اس بیان کا نوٹس لیتے ہوئے ضروری کارروائی کرنا پڑے گی۔ ایک ایسی صورت میں جبکہ سپریم کورٹ ملک کی تقریباً متحدہ اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم پر کرپشن کے الزامات کی سماعت کر رہی ہے تو اسے یہ واضح کرنا ہوگا کہ حکومت کسی بھی طرح عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے وزیر داخلہ کو طلب کرکے ان سے دریافت کیا جائے کہ عدالت کی واضح ہدایت کے باوجود انہوں نے ایک ایسے شخص کو ملک سے جانے کی اجازت کیسے دی جن کی گرفتاری کےلئے زیریں عدالتوں سے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہو چکے تھے۔ یہ ایک ایسا سنگین جرم ہے جس کی جوابدہی کے علاوہ سخت سزا ملنا بھی ضروری ہے۔ اگر سپریم کورٹ اپنے چہرے پر پوتی گئی کچھ سیاہی صاف کرنا چاہتی ہے تو وہ چوہدری نثار علی خان کو توہین عدالت کے علاوہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ملزم کو فرار ہونے کا ذمہ دار قرار دے اور انہیں قرار واقعی سزا دینے کا اہتمام کرے۔

وزیراعظم ہاؤس نے سخت الفاظ میں پرویز مشرف کے الزامات کی تردید کی ہے۔ لیکن یہ تردید ناقابل اعتبار اور بے وقعت ہے۔ حکومت کو اس اسکینڈل کی پوری ذمہ داری قبول کرکے ذمہ داروں کا تعین کرنا ہوگا۔ وزیر داخلہ حال ہی میں سامنے آنے والی جسٹس فائز عیسیٰ کمیشن رپورٹ میں ہونے والی تنقید پر چیں بچیں ہوتے رہے ہیں۔ بدنصیبی سے کابینہ کے دیگر ارکان بھی ٹاک شوز اور اسمبلی میں چوہدری نثار علی خان کی تائید و حمایت کرنے میں مصروف رہے ہیں۔ اب وزیراعظم ہاؤس صرف تردید کے ذریعے اپنے وزیر داخلہ کی غلط کاریوں اور بد اعمالیوں پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔ حکومت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ وزیر داخلہ نے قانون کی خلاف ورزی کی تھی اور پرویز مشرف کو ملک سے جانے کی اجازت دینا، ان کے قانونی اختیار سے باہر تھا۔ ایسا قانون شکن شخص حکومت کا حصہ نہیں رہ سکتا۔ اس کے باوجود وزیراعظم اگر نثارعلی خان سے استعفیٰ طلب نہیں کرتے تو اس کا صرف یہ مطلب لیا جائے گا کہ نواز شریف خود اس افسوسناک سازش کا حصہ ہیں۔

پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے علاوہ فوج کو ایک ادارہ کے طور پر مطعون کیا ہے۔ ملک میں عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ فوج برسر اقتدار نہ ہونے کے باوجود سول حکومت کو اپنے دباؤ میں رکھتی ہے اور اہم خارجہ و سکیورٹی امور پر نہ صرف یہ کہ اپنی رائے دیتی ہے بلکہ حکومت کے فیصلوں پر اپنی مرضی مسلط کرتی ہے۔ عام تاثر ہے کہ کوئی وزیراعظم کسی آرمی چیف کی مرضی کے بغیر کوئی اہم فیصلہ نہیں کر سکتا۔ یہ تاثر بھی ملکی نظام اور جمہوری اداروں کی صحت کےلئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے لیکن اب ایک سابق آرمی چیف علی الاعلان یہ بیان کر رہا ہے کہ فوج کا سربراہ کس طرح وزیراعظم اور حکومت کو اپنی مرضی سے فیصلے کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ اس بیان میں جنرل راحیل شریف کا نام لے کر کہا گیا ہے کہ ان کے دباؤ کی وجہ سے آئین سے غداری کا مرتکب شخص ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا تھا۔ یہ ایک سنگین الزام ہے۔ جنرل راحیل شریف کو بہرصورت اس الزام کا جواب دینا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کو کسی بھی قیمت پر پرویز مشرف کو ملک واپس لا کر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ملک کے آئین و قانون اور آئینی اداروں پر الزام تراشی کرنے کے بعد یہ شخص سزا سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔

اگرچہ پرویز مشرف ملک سے باہر ہیں لیکن ریاست کو بے شمار ذرائع اور وسائل میسر ہوتے ہیں۔ انہیں بروئے کار لاتے ہوئے پرویز مشرف کو واپس لایا جائے اور اس بار انہیں اپنے پرتعیش گھروں میں رہنے کی اجازت دینے کی بجائے سیدھا جیل روانہ کیا جائے۔ نواز شریف کی حکومت اگر یہ اقدام کرنے سے قاصر رہتی ہے تو وہ اپنا رہا سہا اعتبار بھی کھو بیٹھے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments