مرغا، قبر، ٹرین اور کارو


خان محمد کی اوطاق بھی کسی بڑے وڈیرے کی اوطاق سے کم نہ تھی ۔گاؤں کے بڑے بوڑھے، لڑکے بالے ہر شام وہاں جمع ہوتے۔ صوبے \"\"کے اس دور دراز گاﺅں میں میرا بطور اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر تبادلہ ہوا تو میں سخت پریشان ہوا کہ یہاں کس طرح گزارا کر پاﺅں گا لیکن میرے واحد ”ماتحت “ ٹکٹ کلکٹر رب ڈنو نے جو بوقت ضرورت ذاتی ملازم سے لے کر اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر کے فرائض تک انجام دے لیتا تھا، میری مشکل یوں حل کی کہ مجھے خان محمد کی اوطاق کا پتہ بتا دیا۔ خان محمد کی اوطاق پر یوں تو ہر رنگ کے لوگ بیٹھتے تھے لیکن اس میں دو کردار سب سے نمایاں تھے، ایک ولی ڈنو حجام اور دوسرا مٹھو چرچائی ( چرچائی سندھی میں جگت بازیا جملے باز کو کہتے ہیں) ولی ڈنو حجام ہمیشہ دھلے دھلائے کپڑے پہنے ہوتا، اپنی بڑی بڑی مونچھوں اور سر کے بالوں پر خضاب لگانے میں اس نے شاید کبھی ناغہ نہیں کیا تھا گفتگو کے دوران وہ اپنی بات کو اہم ثابت کرنے کیلئے اکثر دائیں مونچھ کی نوک کو منہ میں لے لیتا تھا اور ہولے ہولے اسے مزے مزے لے کر چوستا رہتا تھا۔ دوسرا کردار مٹھو چرچائی کا تھا جس کی شلوار ہمیشہ قمیض کے رنگ سے بالکل مختلف ہوتی تھی۔ لوگ اس سے بادل نخواستہ ہی ہاتھ ملاتے تھے۔ وہ کچہری کے دوران اپنے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے علاوہ باقی تمام انگلیوں سے باری باری اپنی ناک میں کچھ تلاش کرتا رہتا تھا ۔ کامیابی کی صورت میں ناک سے برآمد ہونے والی چیز کو وہ اپنی شہادت کی انگلی پر رکھتا اور پھر کچھ دیر اسے گھورتا رہتا ۔ اس کے بعد وہ شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کو ملا کر مذکورہ چیز کو پھینکنے کی کوشش کرتا اور دو تین کوششوں کے بعد اسے پھینکنے میں کامیاب ہو جاتا۔ اس کے بعد اس کے منہ سے ایک ٹھنڈی طویل سانس برآمد ہوتی اور چہرے پر کامیابی کا تاثر پھیل جاتا تھا۔ لیکن ناکامی کی صورت میں وہ اپنی ناک کے بال نوچتا رہتا تھا۔ مٹھو اور ولی ڈنو میں ہر وقت ٹھنا ٹھنی کی کیفیت جاری رہتی تھی۔ ایسا ممکن نہ تھا کہ مٹھو کوئی واقعہ سنائے اور ولی ڈنو اس کے فوراً بعد اس سے زیادہ عجیب و غریب واقعہ نہ سنا دے۔ بالکل اسی طرح اگر ولی ڈنو کوئی بات چھیڑتا تھا تو مٹھو اس سے بازی لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔اوطاق کا ایک اور کردار \"\" اﷲ وسایو تھا جو کچہری کے دوران آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سب لوگوں کی باتیں سنتا رہتا تھا۔ چونکہ اﷲ وسایو کا گھر گاؤں کے چھوٹے سے اسٹیشن کے پاس واقع تھااس لئے اوطاق کی کچہری کے علاوہ بھی وہ اکثر و بیشتر میرے دفتر میںآ کر مجھ سے گپ شپ لگاتا تھا ۔ اﷲ وسایو کی تھوڑی سی زمین تھی گذارا ہو ہی جاتا تھا، اﷲ وسایو کو لوگ اس لئے بھی زیادہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے کہ گاؤں کے سادات کے بچوں(خواتین) کو جب ریل گاڑی کے ذریعے بڑے شہر جانا ہوتا تھا تو وہ ریل گاڑی کے آنے کا انتظار اسٹیشن کی انتظار گاہ کے بجائے اﷲ وسایو کے گھر میں کرتی تھیں بعدازاں گاؤں کے سفید پوش گھرانے بھی وسایو کے گھر کو انتظار گاہ کے طور پر استعمال کرنے لگے تھے اس موقع پروسایو کے اہل خانہ مہمانوں کی دل کھول کر خاطر مدارات کرتے تھے۔ اﷲ وسایو نے مجھ سے بارہا اس بات کا اظہار کیا کہ اسے ان ریل گاڑیوں کی آواز زہرلگتی تھی جو روز صبح سویرے یا رات گئے چیختی چلاتی زور سے ہارن بجاتی گاؤں کے اسٹیشن پر رکے بغیر گذرجاتی تھیں اﷲ وسایو کے گھر کی کوئی بیرونی دیوار تو تھی نہیں، کانٹے دار جھاڑیوں کی اونچی سی باڑ ہی اس کے گھر کی بیرونی دیوار کا کام دیتی تھی، ان ریل گاڑیوں پر اسے اس وقت زیادہ غصہ آتا تھا جب علی الصبح وہ خود اور اس کے اہل خانہ اپنے بیت الخلاءمیں ہوتے تھے اور نان اسٹاپ ریل گاڑیاں وہاں سے گذرتیں ۔ اس موقع پر گاڑی کے دروازوں میں کھڑے بعض من چلے انہیں دیکھ کر سیٹیاں بجانا یا آوازیںکسنا شروع کردیتے تھے جس پر وہ بہت سیخ پا ہوتا تھا ۔ اس کے نزدیک یہ ٹرینیں اس کے گھر کی عزت کو پامال کرتی تھیں اور اس کی غیرت کو للکارتی تھیں اوطاق کے ایک جانب ایک پرانی سی کرسی دھری تھی جس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ کرسی خان محمد کے دادا کو انگریزکلکٹر صاحب نے ان کی خدمات کے عوض تحفتاً دی تھی ۔ (جبکہ خان محمد کے بغض پیشہ ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ کرسی اس وقت گاﺅں میں بسنے والے ایک بڑھئی کا کارنامہ تھی جسے خان محمد کے دادا اپنے ہمراہ لے کر شہر کے کلکٹر سے ملنے کیلئے گئے تھے وہاں کلکٹر صاحب کی کرسی دیکھ کر مرحوم خان نے بڑھئی کو پورے ایک ماہ تک حویلی کے ایک کمرے میں بند رکھ کے یہ کرسی بنوائی اور پھر اس غریب کو گاﺅں بدر کر دیا تھا) یہ کرسی 60سال پرانی ہونے کے باوجود محض رنگ و روغن نہ ہونے کی وجہ سے پرانی لگتی تھی اس پر صرف خان محمد بیٹھتا تھا، رات 8 بجے کچہری کا آغاز بی بی سی ورلڈ سروس کی اردو نشریات اور سیربین سننے کے بعد عالمی اور مقامی صورتحال پر تبصروں سے ہوتا اس کے بعد شرکا اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں واقعات سناتے، اﷲ وسایو بھی، جیسا کہ بتایا جا چکا ہے، اس کچہری کا قریب قریب مستقل حصہ تھا۔

خان محمد کی اوطاق پر ہمیشہ بحث چلتی رہتی تھی ۔گذشتہ ایک ہفتے سے ”کاروکاری“ کے موضوع پر طبع آزمائی جاری تھی، کاروکاری \"\"کے پرانے واقعات گاﺅں کے قبرستان سے کھود کھود کر نکالے جارہے تھے ۔ کارو کاری کرکے موت کی سزا پانے والوں کی ذات میں ایسی ایسی خوبیاں ڈھونڈی جارہی تھیں کہ اگر سکھر جیل میں پھانسی کا جھولا جھولنے سے قبل انہیں اپنی آدھی صفات بھی معلوم ہو جاتیں تو انہوں نے دوبارہ زندہ ہونے کی صورت میں پورا گاﺅں مار ڈالا ہوتا ۔ کاری عورتوں کے اطوار پر رسدار گفتگو میں کہیں کہیں ان کی قبروں سے آنے والی ہولناک آوازوں کا ذکر بھی چل نکلتا تو جیکب آباد کی گرمی میں کم عمر بچوں کو پسینے آنے لگتے ۔

اس دن جب اﷲ وسایو بے وقت کی ٹرینوں کو کوستا ہوا اوطاق پر پہنچا تو کچہری حسب معمول جمی ہوئی تھی ۔ کاروکاری پر معلومات افزا بحث اپنی جولانی پر تھی ہر شخص اپنی معلومات کے مطابق اس میں حصہ لے رہا تھا۔ نک چڑھا حجام ولی ڈنو بتارہا تھا کہ ان کے آبائی گاؤں میں ایک شخص نے دوسرے کو اس لئے قتل کردیا تھا کہ وہ اس کے مرغے سے ”کارا“ تھا، کچہری کے شرکا کو خاصی حیرت ہوئی اوروہ ولی ڈنو سے پورا واقعہ سنانے کی فرمائش کرنے لگے جس پر ولی ڈنو نے حسب عادت اپنی مونچھیں چوستے ہوئے کہنا شروع کیا کہ احمد علی ”خفتی“ کا مرغا بڑا جاندا رتھا اور اس نے بڑے بڑے ”مَیل “ میں حریف مرغوں کو شکست دے کر ہزاروں روپے کی شرطیں جیتی تھیں، گلو نامی ایک شخص احمد علی کے مرغے پر بڑی شرطیں لگاتا تھا اور خاصی رقم بھی جیت چکا تھا، گلو کو احمد علی کے لڑاکا مرغے سے بڑا پیار تھا اور وہ اسے گود میں بٹھا کر بڑی محبت سے اس کا سر سہلاتا تھا، گلو کی خواہش تھی کہ وہ مرغا احمد علی سے خرید لے لیکن احمد علی کو یہ منظور نہ تھا، یہ بات گاؤں کے تمام لوگوں کو معلوم تھی کہ احمد علی کا مرغا بھی گلو سے خاصی انسیت رکھتا تھا، ایک بار مَیل جیتنے کے بعد احمد علی نے مرغے کو پیار سے گود میں اٹھایا اور منہ میں ٹھنڈا پانی بھر کر اسے پھوار ماری سر سہلایا لیکن مرغا کچھ ضرورت سے زیادہ بے چین نظر آتا تھا بار بار پھڑ پھڑا کر احمد علی کے ہاتھوں سے نکل جاتا، لڑائی دیکھنے والے تماشائی سمجھ رہے تھے کہ شاید وہ مزید لڑائی کے لئے بے چین ہورہا ہے اور خود احمد علی بھی یہی سمجھ رہا تھا لیکن اچانک اسے مرغے کی بے چینی کی وجہ سمجھ میں آگئی، گلو اس دن لڑائی کے وقت کسی دوسرے گاؤں گیا ہوا تھا گلو لڑائی کے بعد اس وقت پہنچا جب مرغا بے چینی سے ادھر سے ادھر گھوم رہا تھا گلو پر نظر پڑتے ہی مرغا تیزی سے اس کی طرف دوڑا اور جب گلو نے اسے گود میں لے لیا تو وہ بالکل پرسکون ہوگیا اس موقع پر اچانک ایک تماشائی نے ازراہ مذاق کہا کہ لگتا ہے مرغا گلو سے” کارا“ ہے جس پر لوگ بہت ہنسے، بات آئی گئی ہوگئی مگر دوسرے دن احمد علی گلو کو قتل کر کے تھانے پیش ہوگیا اور اس نے پولیس کو بتایا کہ گلو اس کے مرغے کے ساتھ ”کارا“ تھا ۔

 واقعہ سننے کے بعد چند لمحوں تک تو حاضرین پر سکتہ طاری رہا مگر بعد میں سب نے یک زبان ہوکر احمد علی کی غیرت کی داد دی ۔ مٹھو چرچائی نے کاروکاری کا ایک اور واقعہ سنا کر کچہری کے شرکا کو حیران کردیا۔ مٹھو کے مطابق بالائی سندھ کے سرحدی ضلع میں ایک وڈیرے کے بیٹے کو ”روحانی پرواز“ کا شوق تھا اور وہ راتوں کو کئی کئی گھنٹے قبرستانوں میں بیٹھ کر وظیفے پڑھتا رہتا تھا جس کی وجہ سے اس کی شخصیت گاؤں میں ایک پراسرار رنگ اختیار کرگئی تھی تجسس کے مارے اسی گاؤں کے چار نوجوان دوستوں نے ایک رات طے کیا کہ وہ یہ دیکھیں گے کہ آخر وڈیرے کا بیٹا وظیفے کیسے پڑھتا ہے، ایک رات یہ چاروں دوست وڈیرے کے بیٹے کا پیچھا کرتے ہوئے قبرستان پہنچے اور باہم طے کیا کہ چار مختلف سمتوں سے قبرستان کا جائزہ لیں اور ٹھیک 15 منٹ بعد وہ سب قبرستان کے مرکزی دروازے پر واقع ”امیدوں بھرے سائیں “ کی درگاہ پر ملیں گے ابھی انہیں گئے دس منٹ ہوئے ہوں گے کہ قبرستان کی سنسان فضا چیخوں سے گونج اٹھی ڈر کے مارے یہ دوست جس کا جہاں منہ اٹھا اس طرف بھاگ لئے اور ایک دوسرے سے ملے بغیر ہی اپنے گھروں کو پہنچ گئے دوسری صبح گاؤں میں یہ خبر گرم تھی کہ گذشتہ رات وڈیرے کے بیٹے کو کسی نے قبرستان میں سرکچل کر قتل کردیا تھا اور کھوجی نے پیروں کے نشان گذشتہ رات قبرستان کو جانے والے چار میں سے ایک دوست کے گھر تک پہنچائے اور جب پولیس وہاں پہنچی تو اس نوجوان نے وڈیرے کے بیٹے کے قتل کا اعتراف کرلیا جب اس سے وجہ پوچھی گئی تو اس نے بتایا کہ وڈیرے کا بیٹا ”کارا“ تھا ۔ گاؤں والوں کو بڑی حیرت ہوئی، پورا گاؤں جانتا تھا کہ اس نوجوان کی شادی نہیں ہوئی تھی اور اس کی والدہ اور اکلوتی بہن گذشتہ بارشوں میں ہیضہ کی وجہ سے ہلاک ہوگئی تھیں سوال یہ تھا کہ وڈیرے کا بیٹا کس کے ساتھ کارا تھا ؟ مٹھو نے یہ کہہ کر حاضرین کے چہروں کی طرف ایک سوالیہ نظر دوڑائی اور کسی پختہ کار کہانی کار کی طرح خاموش ہوگیا ۔ تجسسس میں ڈوبی کچہری نے گویا بہ یک زبان پوچھا ”آخر وہ کس سے ”کارا“ تھا؟“، مٹھو دوبارہ گویا ہوا ” نوجوان نے پولیس کو بتایا کہ وڈیرے کا بیٹا جن قبروں کے پیچھے بیٹھ کر وظیفہ پڑھ رہا تھا وہ اس نوجوان کی مرحومہ بہن اور والدہ کی قبریں تھیں“ ! یہ سنتے ہی حاضرین چند لمحوں کیلئے گنگ ہوگئے اور پھر اوطاق نوجوان کی غیرت کے لئے توصیفی کلمات سے گونج اٹھا ۔

یوں تو خان محمد کی اوطاق پر کچہری کے موضوعات بدلتے رہتے تھے لیکن کاروکاری کا موضوع ایسا شروع ہوا کہ کئی دن اس پر کچہری \"\"جاری رہی۔ اس بظاہر گھمبیر مگر در پردہ لذیذ حکایت کا ہر راوی گویا الف لیلہ کا شہر زاد تھا جو سننے والوں کو اپنے طلسم میں یوں باندھتا تھا کہ کچہری میں بیٹھنے والوں کے منہ چڑیا کے پیاسے بچوں کی طرح کُھلے رہتے تھے ۔ اﷲ وسایو کا شمار ان حاضرین میں ہوتا تھا جو بولتے کم اور سنتے زیادہ تھے۔ گفتگو کے دوران اس کے چہرے سے مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ان ”غیرتی کرداروں“ کے بارے میں سوچتا رہتا تھا ۔ ایک دن جب ہم کچہری سے لوٹے تو بات چیت کے دوران مجھے لگا کہ کاروکاری کے غیرت مند کردار اﷲ وسایو کے اعصاب پر کچھ زیادہ ہی سوار ہو رہے تھے ۔ بلکہ ایک بار تو اس نے ڈھکے چھپے لفظوں میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ کاش وہ بھی ایسا کوئی کارنامہ انجام دے کر تاریخ میں اپنا نام لکھوالے ۔

ایک رات میں اور اﷲ وسایو جمن شاہ کی درگاہ سے گیارہویں شریف کی نیاز کھا کر واپس لوٹے تو وہ بہت بے چین تھا۔ ہم ریلوے اسٹیشن کے احاطے میں واقع میرے کوارٹر پر پہنچ کر بیٹھے ہی تھے اور مٹھو گفتگو کا آغاز کرنے والا تھا کہ اچانک رات والی نان اسٹاپ ٹرین کا ہارن سنائی دیا ۔ چند لمحوں بعد ٹرین چیختی چنگھاڑتی ہوئی اسٹیشن سے گزر گئی۔ ٹرین کے گزرنے تک ہماری گفتگو کا سلسلہ منقطع رہا ۔ اس دوران خان محمد منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتا رہا ۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ ٹرین کو گالیاں دے رہا ہو۔ رخصت ہونے سے قبل کئی بار اﷲ وسایو نے گھڑے سے ٹھنڈا پانی پیا اور اس دوران وہ مجھے کچھ غائب دماغ سا محسوس ہوا، کچھ دیر بعد اس کے چہرے پر سکون پھیل گیا اور وہ مجھ سے رخصت ہو کر گھر روانہ ہو گیا۔

 شام کو اﷲ وسایو کو دفنانے کے بعد میں اور اس کے تمام دوست حسب معمول خان محمد کی اوطاق پر بیٹھے اﷲ وسایو کی ناگہانی موت پر تبصرہ کررہے تھے، میزبان خان محمد جو اﷲ وسایو ہی کی طرح کچہری میں کم گو سمجھا جاتا تھا پہلی بار گویا ہوا، ” اﷲ وسایو کے جانے کے دن نہیں تھے آخر اس نے ریل گاڑی سے خودکشی کیوں کی؟ ” ولی ڈنو حجام نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ” لکھی کو کون ٹال سکتا ہے سائیں“ ۔ کچہری کے شرکا ان تمام جملوں کی جگالی کر رہے تھے جو ہزاروں مرتبہ بعداز مرگ دہرائی جا چکی ہیں ۔ اتنے میں مٹھو اوطاق میں اس اطلاع کے ساتھ وارد ہوا، ”بھائی باقی سب تو خیر ہے لیکن مجھے غفور کے لڑکے نے جو اس وقت اسٹیشن پر موجود تھا، بتایا ہے کہ اﷲ وسایو جب کلہاڑی لے کر ٹرین کی جانب بھاگا تو زور زور سے چلا رہا تھا”کارو ہے !کارو ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments