خان عبدالولی خان کی لطیف مزاجی


\"\"خان عبدالولی خان کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک ان کی بے مثل لطیف مزاجی بھی تھی۔ عبدالولی خان 70ءمیں علاج کے لیے لندن جا رہے تھے۔ اس وقت بھٹو، یحییٰ اور شیخ مجیب کی محاذآرائی جاری تھی۔ پشاور ایئر پورٹ پر ایک صحافی نے ولی خان کو بھٹو کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ وہ کہتا ہے کہ جو بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ جائے گا، ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ ولی خان نے اس صحافی کو اپنی ٹانگیں دکھاتے ہوئے کہا کہ، تم نے اتنی لمبی ٹانگیںکبھی دیکھی ہیں۔ یہ ٹانگیں انگریز اور اس کے باقی ماندہ آمر اور ڈکٹیٹر نہ توڑ سکے تو بھٹو کیا توڑ دے گا۔
ایک دفعہ اسمبلی میں بھٹو نے سوشلزم، حکومتی پالیسیوں اور اپنے آپ کی بڑی تعریف کی اور ولی خان کو ہدف تنقید بنایا توولی خان نے کھڑے ہو کر اس کا تفصیلی جواب دیا اور آخر میں کہا کہ ”آپ سب نے دیکھا ہو گا کہ جب کوئی جانور مر جاتا ہے تو اس کے گوشت پر کتے مزے کرتے ہیں۔ اور ایک ہوشیار اور تجربہ کار کتا یہ سمجھتا ہے کہ اوپر تو صرف کھال ہے اصل مال تو اندر ہے، تو وہ کوشش کرتا ہے اورا س وقت تک آرام سے نہیں بیٹھتا جب تک اس مردہ جانور میں اپنے لیے ایک راستہ نہ بنا لے تاکہ اندر کے مال تک اپنے آپ کو پہنچائے۔ آج جب میںآپ اور آپ کے پیپلز پارٹی کے ساتھیوں کو دیکھتا ہوں تو تم لوگ بھی اس ہوشیار کتے کی طرح مردہ جانور کے اندر گھس گئے ہواور ملک کی دولت، وسائل اوراچھے برے کو لوٹ رہے ہو۔اگر دیکھا جائے تو وہ کتا جو مردہ جانور میں سر اندر کر دیتا ہے اس کا پیٹ تو بھر جاتا ہے، چونکہ اس کا سر اندر ہوتا ہے تو اس کی آنکھیں، کان، دماغ اور زبان سب کچھ اندر ہوتا ہے۔ باہر تو صرف اس کا دم رہ جاتا ہے اور دم سے نہ تو وہ کچھ دیکھ سکتا ہے، نہ سن سکتا ہے اور نہ کچھ سوچ سکتا ہے۔اور نہ بھونک سکتا ہے۔ تم لوگ اس مردہ جانور پر حملہ آور کتوں کی طرح ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ہو۔ یہ آنکھیں صرف ذاتی فائدہ دیکھتی ہیں۔ یہ کان صرف اپنی خیر کی باتیں سنتے ہیں۔ یہ دماغ صرف انفرادی فائدے کا سوچتا ہے اور یہ زبان صرف اپنے مخالفین سے اپنے آپ کو بچانے کے کام میں مصروف ہے۔ قوم کا تو اس وقت پوچھا جائے گا جب تم لوگوں کو ذرا اس مردہ جانور سے صبر آ جائے گا۔
خان عبدالولی خان جب حیدرآباد جیل میں تھے تو ایک دن کمرے کی مرمت کے لیے آدمی آئے۔ انہوں نے آپ سے پوچھا کہ خان صاحب آپ کی اس چکی کو کون سا رنگ دیا جائے، جو آپ کو پسند ہو، تو ولی خان نے کہا کہ یہ تو بھٹو سے پوچھا جائے کہ اسے کونسا رنگ دیا جائے۔ کیونکہ میں تو یہاں چند دنوں کا مہمان ہوں البتہ بھٹو صاحب یہاں مستقل طور پر رہیںگے اور جب بھٹو گرفتار ہوئے اور اسی کمرے میں قید ہو گئے تو ایک دن وہی ملازم جو خود بھی سندھی تھے، ولی خان کے پاس آئے اور کہا کہ خان صاحب آپ کو پہلے سے کیسے معلوم تھا کہ بھٹو اسی کمرے میں آئیں گے جبکہ اس وقت بھٹو وزیراعظم تھے۔ ولی خان نے ازراہ مذاق میں کہا سندھی لوگ مرے ہوئے ولیوں اور پیروں پر یقین رکھتے ہیں تو زندہ ’ولی‘ پر کیوں یقین نہیں کرتے۔
ریفرنڈم کے دنوں میں ولی خان کا ایک مسلم لیگی آشنا آئے اور کہنے لگے”مانتے ہو یا نہیں“ کیسے باندھ لیا؟ اب تم لوگ ادھر پھنس گئے ہو اور ہندوستان ادھر رہ گیا اور درمیان میں پنجاب گھس گیا اور اس وجہ سے ریفرنڈم میں یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کریںگے۔ ولی خان ہنسے اور کہا” مسلم لیگی ہو نا! ملکوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور حصے بخرے کرنا تم اور تمھارے باپ داد انگریز کا کام ہے۔ ہم بنایا کرتے ہیں توڑتے نہیں۔ اگر آپ کی طرح سیاست ہم کرتے تو یہ بات کیوں بھولے ہو کہ تمھارے اور مشرقی پاکستان کے بیچ کتنا فاصلہ ہے؟ تم اپنی سرحد سے ڈیڑھ ہزار میل دور ملک کو شریک بنا سکتے ہو تو میرے لیے تو صرف تین سو میل بھی نہیں ہیں۔اور یہ کہ تمھارے مغربی اور مشرقی پاکستان کے بیچ تمھارے کہنے کے مطابق تو ایک کافر اور دشمن ملک موجود ہے ،میرے پڑوس میں تو مسلمان بھائی پنجابی ہو گا۔
گول میز کانفرنس میں شیخ مجیب نے 22صفحات کا بیان پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد ولی خان کی باری آئی تو ولی خان نے کہا ”جناب صدر! یہ بیچارہ 54فیصد والا چیخ رہا ہے کہ میرے حقوق کا تحفظ کیا جائے ، یہ 46فیصد سے تحفظ چاہ رہا ہے“ وقفے کے دوران شیخ مجیب بھاگ کر ولی خان کے پاس آئے اور کہا کہ ولی خان آپ نے وہ بات ایک جملے میں کہہ دی جو میں 22 صفحات میں واضح نہ کر سکا۔
وراثت کے حوالے سے ولی خان اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب ہم مسلم لیگی کارکنوں کے ساتھ مذاقاً بحث کرتے تو وہ ہم طعنے کے طور پر ’©ہندو کے بچے‘ کا خطاب دیتے تھے۔ ہم جواب میں کہتے کہ ہندووں اور سکھوں کی رہ جانے والی بنگلوں ، گھروں، دکانوں، جائیداد اور تجارت پر مسلم لیگیوں نے قبضہ کر لیا اور اس کو اپنا حق سمجھا ، تو دنیا کا یہ قانون ہے کہ باپ کا جائیداد بیٹوں کو وراثت میں ملتا ہے۔ تو مسلم لیگی بتائیں کہ وہ ہندووں کے بچے ہیں یا خدائی خدمت گارَ اور جب انگریز نے یہ اعلان کیا کہ میری رہ جانے والی جائیداد اور تمام معاہدات کا وارث مسلم لیگ کی حکومت ہے تو اس وجہ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ قانون کی روح سے چونکہ باپ کے جائیداد کی وراثت کا دعویٰ صرف ایک بیٹا ہی کر سکتا ہے، تو اس طرح مسلم لیگ بھی یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے اور بابا فرنگی کے رہ جانے والی جائیداد کی وراثت کا دعویٰ کرتا ہے۔

ایک مرتبہ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ قیوم خان نے الزام لگایا کہ ولی خان کے لیے کابل سے ایک کروڑ روپے بھیجے گئے ہیں۔ اخبارات میں یہ بیان پڑھ کر ولی خان محظوظ ہوئے۔ پشاور کچہری کے بار روم چلے گئے اور وہاں موجود وکلاءصاحبان سے کہا کہ کابل سے بھیجی گئی رقم راستے میں کسی نے غائب کر دی ہے، از راہ کرم یہ رقم دلانے کے لیے مقدمہ دائر کریں اور وکلاءصاحبان سے وعدہ کیاکہ یہ رقم دلا دی گئی تو آدھی رقم مقدمہ لڑنے والے وکلاءصاحبان کی خدمت میں پیش کر دی جائے گی۔ مقدمہ دائر ہو گیا جس میں قیوم خان کو فریق بنایا گیا۔ مقدمے کی کاروائی میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ کابل سے بھیجی گئی رقم کی ترسیل اور اس کی وصولی کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا اور الزام لگانے والوں کو منہ کی کھانی پڑی۔
1965کے صدارتی انتخابات میں جنرل ایوب کے مقابلے میںصدارتی امیدوار کے لیے متحدہ اپوزیشن کو متفقہ امیدوار کا مسئلہ پیش آیا۔ متوقع امیدواروں میں ایک نام فاطمہ جناح کا بھی تھا لیکن وہ اس کے لیے تیار نہیں تھیں۔ اس سلسلے میں نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی کونسل کا اجلاس مولانا بھاشانی کی زیر صدارت شاہی باغ میں ہو رہاتھا۔ اس دوران ولی خان نے مذاقاً کہا کہ ہمارے پڑوس کے گاوں والے اپنے پچھلے ممبر سے تنگ آ چکے تھے۔ اس بار انہوں نے اس پپو نامی شخص کے مقابلے میں ایک عورت کو کھڑا کر دیا اور کہا کہ اگر پپو جیتے تو ایک عورت سے جیت جائے گا اور کوئی نام نہیں کما سکے گا اور اگر ہار گیا تو اس کے لیے اس سے بڑی شرم کی بات کوئی نہیں ہو گی۔ ولی خان نے کہا کہ اگر کوئی میری بات مانتا ہے تو ہمیں بھی اس پپو (جنرل ایوب) کے مقابلے میں اس عورت( فاطمہ جناح) کو کھڑا کر دینا چائیے۔
حیدر آباد سازش کیس کے دوران ولی خان کو دانتوں کے علاج کے لیے راولپنڈی لے جایا گیاجہاں ایک لیڈی ڈاکٹر نے پہلے معائنہ کے دوران ہی ولی خان کا ایک دانت نکال دیا اور دو ہفتے بعد دوبارہ آنے کو کہا۔ دو ہفتے بعد اس لیڈی ڈاکٹر نے ولی خان کا دوسرا دانت بھی نکال دیا۔ حالانکہ دانت صرف متاثر تھا۔ اس پر ولی خان نے اس ڈاکٹر سے کہا کہ ”ڈاکٹروں کا کام دانتوں کو بچانا ہے نکالنا نہیں۔ اگر بات نکالنے کی ہے تو میں ابھی تمھارے 32دانت نکال دیتا ہوں“۔ پھر پیار سے کہا کہ اگر تمھارا خیال ہے کہ میں بھٹو کا مخالف ہوں تو تم میرے دانت نکال لو گی تاکہ میں اس کو کاٹ نہ سکوں۔ دیکھو! اگر میرے دانت نہیں ہوں گے بھی تو میں تمھارے بھٹو کا علاج کر سکتا ہوں۔
کشمیر پر ایک مرتبہ بحث ہو رہی تھی۔ قاضی حسین احمد صاحب اٹھے اور کہا کہ جب تک ہم لال قلعہ پر اسلام کا جھنڈا نہیں لہرائیں گے تو بات نہیں بنے گی۔ اور پھر کہنے لگے کہ دیکھیں اسلام کی قوت ایمانی نے کس طرح برلن کی دیوار توڑ کر کھ دی۔ ولی خان اٹھے اور قاضی صاحب سے پوچھا۔ قاضی سنا تھا، آپ سکول میں استاد تھے۔ اگر آپ کی علمی استعداد یہ ہے تو پھر آپ بچوں کو کیا سیکھاتے رہے ہیں۔ یہ برلن ہے کدھر؟ قاضی صاحب نے جواب دیا وہی قوتیں جنہوں نے یہاں دیوار کھینچی تھی جسے ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں۔ اسی طرح انہی قوتوں نے برلن میں لائن کھینچی اور اسے زیادہ مضبوط بنانے کے لیے وہاں دیوار بنا دی۔ ولی خان نے بتایا کہ میں گیا ہوں اس دیوار کے آس پاس وہاں جا کر میں نے دیکھا کہ اس دیوار کے دونوں جانب جرمن آباد ہیں۔ وہ بھی کافر یہ بھی کافر، اسلام آپ نے کہاں سے ان میں گھسیڑ دیا؟
وفات سے چند دن پہلے سنگین ولی نے مہمانوں کی موجودگی میں ولی خان سے کہا کہ بابا آپ ہمارے لیے دعا کریںکہ ہم قوم کی خدمت کر سکیں۔ جواب میں ولی خان نے ہنس کر کہا دعائیں دینا تو ملاوں کا کام ہے ، کیوں میں آپ کو ملا دکھائی دیتا ہوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments