موہن جو دڑو سے کراچی تک


انسان پہلے پتھر کے دور میں رہا جہاں وہ جانوروں کا شکار کرتا اور جانوروں کا شکار بنتا رہا۔ پھر وہ پتھر کے دور اور غاروں سے نکلا اور زراعت کے دور میں داخل ہو گیا۔ جہاں شخصی و سماجی ضرورت کے تحت وہ بستیاں آباد کرنے لگا اور بستیوں میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے قواعد و ضوابط اور قانون وضع کرنے لگا، اس طرح انسان جنگلی اور وحشی پن چھوڑ کر تہذیب کے راستے پہ گامزن ہوا۔

چونکہ انسان فطرتاً آرام پسند واقع ہوا ہے ، اس لیے اس نے نت نئے طریقوں اور اشیاء سے اپنی زندگی آسان بنانے کی مسلسل کوشش جاری رکھی اور یہ سفر پہلے سے کہیں زیادہ سرعت سے جاری ہے۔ آج انسان ترقی اور علم کے جس مقام پہ پہنچ گیا ہے ، وہ واقعی انسان کی قابلیت اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جیسے آج کے دور میں کچھ ممالک ترقی یافتہ، کچھ ترقی پذیر اور کچھ پسماندہ ہیں ،اسی طرح پرانے وقتوں میں بھی یہ فرق موجود تھا۔

جب انسانوں کی باقاعدہ آبادیاں بھی خال خال تھیں ، تب بھی دنیا کے کچھ علاقوں میں آباد قومیں تہذیب و تمدن کی اس معراج پر تھیں جو آج بھی اکثر ممالک کے باشندوں کا خواب ہے۔ ان پرانی تہذیبوں میں سے ایک تہذیب وادی سندھ کی تہذیب کہلاتی ہے۔ جو 2500 قبل مسیح اور آج سے تقریباً 4500 سو سال پہلے دریائے سندھ کے ساتھ آباد تھی۔

ہڑپہ اور موہن جو دڑو اس کے دو انتہائی ترقی یافتہ شہر تھے، جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت آباد کیے گئے تھے۔ ان کی گلیاں کھلی اور ہوا دار تھی، سیوریج کا انتہائی اعلیٰ نظام موجود تھا۔ زیادہ تر نالیاں پختہ اور زیر زمین تھیں۔ کسی کو آنے جانے میں کوئی دشواری نہیں تھی ، راستے صاف ستھرے تھے۔

انسان ہمیشہ سے آنے والے زمانے کے متعلق متجسس رہا ہے۔ جیسے آج ہم سوچتے ہیں کہ جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی آگے بڑھ رہی ہے آج سے کئی صدیاں بعد دنیا کس قدر جدید اور بہتر ہو جائے گی۔ اسی طر ح موہن جو دڑو کے ایک باشندے (موہن) کو یہ تجسس تھا کہ آج سے چار، پانچ ہزار سال بعد دنیا کس مقام پر ہو گی۔ انسان کس قدر ترقی یافتہ اور جدید ہو گا۔ موہن کی توقعات بہت بڑی اور ترقی پسندانہ تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ ہزاروں سال بعد کے شہر انتہائی صاف ستھرے اور بہترین طرز تعمیر کا نمونہ ہوں گے۔

اگرچہ موہن جو دڑو بھی بہت خوبصورت اور صاف ستھرا شہر تھا مگر موہن کی توقعات بہت بڑی تھیں۔ وہ کچھ حیران کن اور چونکا دینے والا دیکھنا چاہتا تھا۔ اپنی اسی حسرت کو دل میں لیے وہ وقت کا سفر طے (Time Travel) کرتے ہوئے اکیسویں صدی کے کراچی میں آن پہنچا۔ کراچی کی صفائی اور سیوریج کا شاندار نظام دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ موہن سوچ رہا تھا کہ یہ شہر اتنا گندا کیوں ہے اور اس میں ہر طرف کوڑا کرکٹ اور سیوریج کا پانی کیوں پھیلا ہوا ہے۔

اپنی توقعات پر یوں گندا پانی پھرنے پہ موہن بہت دل گرفتہ تھا۔ اسے شدید مایوسی اور دکھ ہو رہا تھا۔ اسی تکلیف اور سوچ میں گم وہ چل رہا تھا کہ اس کے کانوں میں کسی کی آواز پڑی ”جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے“ ۔ اتنا سننا تھا کہ موہن نے وقت میں پیچھے کی طرف ڈور لگا دی۔ کراچی سے بھاگتے ہوئے موہن کی سماعتوں سے جو آخری الفاظ ٹکرائے وہ تھے ”جئے بھٹو“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).