پی ڈی ایم کا سیاسی مستقبل


حکومت مخالف تحریک پی ڈی ایم کو عملی طور پر حکومت کے خلاف داخلی بحران کا سامنا ہے۔ پی ڈی ایم میں اصولی طور پر چار ہی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان جماعتوں میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جے یو آئی اور عوامی نیشنل پارٹی شامل ہیں۔ لیکن حکومت مخالف تحریک کے تناظر میں اس اتحاد کو حکمت عملی کے محاذ پرکئی سطح کے مسائل اور تضادات کا سامنا ہے۔ اجتماعی استعفے، سینٹ اور ضمنی انتخابات کے بایکاٹ کا فیصلہ اور تحریک عدم اعتماد سمیت فیصلہ کن حکومت مخالف لانگ مارچ پر اب تک یہ اتحاد کئی سیاسی یوٹرن لے چکا ہے۔

اگرچہ ایک عمومی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حکومت مخالف اتحاد اس نکتہ پر متفق ہے کہ عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنا ہے۔ لیکن یہ بھی تضاد سے جڑا سوال ہے۔ کیونکہ اسی اتحاد میں پیپلز پارٹی سمیت کئی جماعتوں میں شامل اہم افراد حکومت کو گھر بھیجنے کے حامی نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس اتحاد او راس سے جڑے ان کے حامی سیاسی پنڈتوں کو سیاسی پسپائی کا سامنا ہے۔

پی ڈی ایم کی قیادت نے دعوی کیا تھا کہ 31 دسمبر سے قبل حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا اور عمران خان حکومت یکم جنوری کو ملک میں نہیں ہوگی، اور ملک نئے انتخابات کی طرف گامزن ہوگا۔ لیکن دسمبر اور جنوری بھی گزرگیا مگر نہ تو حکومت جاسکی اور نہ ہی کوئی بڑا سیاسی فیصلہ پی ڈی ایم کی جانب سے سامنے آسکا۔ اب پی ڈی کا اگلہ نشانہ حکومت مخالف لانگ مارچ ہے۔ لیکن اس لانگ مارچ کے حتمی اعلان سے قبل یہ اتحاد سیاسی کنفیوژن کا شکار نظر آتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور چیرمین بلاول بھٹو نے اب ایک نیا سیاسی یو ٹرن لیتے ہوئے اتحاد کو مشورہ دیا ہے کہ لانگ مارچ کی بجائے ہمیں اپنی توجہ کا مرکز ”وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد“ کو بنایا جائے۔ یہ منطق ثابت کرتی ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت کو گرانا یانئے انتخابات کی بجائے محض وزیر اعظم کی تبدیلی کر کے ملک میں جاری سیاسی و جمہوری نظام ہی کو چلانا چاہتی ہے۔

پیپلز پارٹی اس اقتدار کے سیاسی نظام میں ایک اہم فریق ہے۔ وہ سندھ میں حکومت کر رہی ہے او رکسی صورت میں بھی نہ وہ اسمبلیوں سے اجتماعی طور پر استعفے دینا چاہتی ہے اور نہ ہی قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ کر کے وہ سندھ حکومت کی قربانی دینا چاہتی ہے۔ یہ بات سیاسی سطح پر پیپلز پارٹی کو معلوم ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں اور چیرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کہانی بھی ان کے سامنے ہے۔

پیپلز پارٹی کی یہ حکمت عملی ظاہر کرتی ہے کہ ان کی حکمت عملی مسلم لیگ نون اور جے یو آئی سے حکومت کے خلاف نہ صرف مختلف ہے بلکہ وہ بلاوجہ کسی بڑی سیاسی مہم جوئی یا دیوار سے ٹکر مارنے کا کوئی ایجنڈا نہیں رکھتے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ کے خلا ف نواز شریف، مریم نواز اور مو لانا فضل الرحمن سیاسی طور پر تنہا کھڑے نظر آتے ہیں۔

یہ ہی صورتحال پی ڈی ایم میں مسلم لیگ نون کو بھی درپیش ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کا سیاسی بیانیہ خود ان کی اپنی جماعت میں بڑی تقسیم کو پیدا کرنے کا سبب بنا ہے۔ اگرچہ یہ جماعت بظاہر متحد ہے لیکن اس کے اندر موجود مختلف دھڑوں کی سیاست بھی ظاہر کرتی ہے کہ بہت سے سیاسی راہنما بلاوجہ اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراو کے حامی نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب اسٹیبلیشمنٹ او راس سے جڑے افراد کے خلاف سخت زبان میں بھی ہمیں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

شہباز شریف اور ان کے حامیوں کا گروپ واضح طور پر مریم نواز کی سیاسی مہم جوئی سے فاصلہ رکھے ہوئے ہیں۔ لاہور کے جلسے اور الیکشن کمیشن کے باہر مظاہرے میں کم تعداد نے عملی طور پر عوامی دباو کی سیاست میں مریم نواز او رمسلم لیگ کوسیاسی محاذ پر مایوسی دی ہے۔ خود مولانا فضل الرحمن بھی ان دونوں جماعتوں کی سیاسی حکمت عملی کے باعث نہ صرف مایوس نظر آتے ہیں بلکہ وہ خود کو تنہا دیکھ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو تین محاذ پر دباو کا سامنا ہے اول پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کا طرز عمل، دوئم ان کی اپنی جماعت میں بغاوت اور بڑھتی ہوئی سیاسی کشمکش، سوئم نیب کی طرف ان پر او رکے خاندان سمیت قریبی دوستوں پر احتساب کا شکنجہ۔

پی ڈی ایم نے حکومت او راسٹیبلیشمنٹ کے خلاف دو محاذ پر دباو بڑھایا۔ اول پہلی کوشش یہ کی گئی کہ حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان دوری پیدا کی جائے اور یہ تاثر بڑھایا جائے کہ یہ ایک پیچ پر نہیں اور اسٹیبلیشمنٹ عمران خان کا متبادل سوچ رہی ہے۔ دوئم پہلی کوشش کی ناکامی کے بعد دوسری کوشش یہ کی گئی کہ کسی طرح سے فوج کے سربراہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کو ٹارگٹ کر کے ان کو ادارے سے علیحدہ کیا جائے اور یہ تاثر دیا جائے کہ ہم ادارے کے نہیں افراد پر اپنے تحفظات رکھتے ہیں۔

لیکن ان دونوں محاذوں پر سیاسی پسپائی کے بعد پی ڈی ایم کیسے اس حکومت کو گھر بھیجے گی اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں۔ اب آہستہ آہستہ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی میں فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ سیاسی محاذ پر پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم میں رہتے ہوئے اچھے کارڈ کھیلے ہیں اور وکٹ کے دونوں اطراف کھیل کر خود کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانے کی سیاست سے گریز کیا ہے۔ یہ بات آصف زرداری بھی ماضی کے تجربات کی روشنی میں اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ نواز شریف بھی ان کو سیاسی ڈھال بنا کراپنے مفاد کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔

پی ڈی ایم کی قیادت کے سامنے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اگر ہم اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرتے ہیں تو اس بات کیا ضمانت ہے کہ ہم وہاں سے حکومت گرانے یا نئے انتخابات کے اعلان پر کامیابی حاصل کرسکیں گے۔ عمومی طو رپر اس طرح کی تحریکیں کسی پس پردہ قوتوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ لیکن اس وقت کا جو سیاسی ماحول ہے اس میں اگر کوئی واقعی پس پردہ قوتیں اس اتحاد کی حمایت میں ہوتی تو یہ اتحاد عملی طور پر زیادہ مضبوط نظر آتا اور پیپلز پارٹی اس مہم جوئی میں پیش پیش نظر آتی۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ابھی تک لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دینے سے گریز کیا جا رہا ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ پہلے کچھ اشارے ملیں تو آگے بڑھا جائے۔ یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ اب پی ڈی ایم کی عملی طور پرتمام قیادت ایک پلیٹ فارم پر مختلف وجوہات کی بنیاد پر اکٹھے نظر نہیں آ رہی۔ پی ڈی ایم کی سیاسی حکمت عملیوں نے ان کو نہ صرف سیاسی طور پر تنہا کیا بلکہ عملی طور پر وزیر اعظم عمران خان کو اسٹیبلیشمنٹ کے قریب کر دیا ہے۔

جو بیانیہ نواز شریف اور مریم نواز نے اختیار کیا اسے ابتدا میں یقینی طور پر سیاسی پذیرائی ملی لیکن آہستہ آہستہ وہ پی ڈی ایم کی داخلی کشمکش اور سیاسی تضادات کی وجہ سے بھی اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔ کیونکہ مسئلہ بیانیہ کا نہیں بلکہ عمران خان دشمنی کی بنیادہے۔ ماضی میں ہم اسی طرح کی سیاسی مہم جوئی نواز شریف اور بھٹو دشمنی کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ سینٹ کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی اپنی سیاسی برتری کی بنیاد پر عملاً حزب اختلاف پر مختلف سخت قانون سازی کی بنیاد پر حاوی ہونی چاہتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی سینٹ میں نہ صرف برتری حاصل کرتی ہے بلکہ چند نشستیں زیادہ حاصل کرتی ہے تو پی ڈی ایم کو اور زیادہ سیاسی محاذ پر سیاسی پسائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).