قصہ کچھ امتحانات کا


آج کل امتحانات کا ذکر ہو رہا ہے تو مجھے بھی کچھ امتحانات یاد آ رہے ہیں جو آن لائن نہیں تھے۔ امتحانات کا انعقاد طلبہ اور انتظامیہ کے مابین اکثر و بیشتر نزاع کا سبب بن جاتا ہے۔ ان کا پرامن انعقاد اور بدعنوانی کی روک تھام کرنا کافی صعوبت طلب مشقت بن جاتی ہے۔

جب امتحانات سالانہ ہوا کرتے تھے اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات میں واک آؤٹ کا بہت رواج تھا۔ لا کالج خیر سے اس معاملے میں کافی نیک نام تھا۔ کمرہ امتحان میں پرچہ تقسیم ہوتا تو ایک آواز بلند ہوتی، آؤٹ آف کورس۔ کبھی یہ بھی کہا جاتا، آؤٹ آف گائیڈ۔ چنانچہ واک آؤٹ ہو جاتا۔

جب میں ایم اے (1974) کا امتحان دے رہا تھا تو گورنمنٹ کالج لاہور کے بوائز سنٹر میں ہم دو ہی طالب علم تھے۔ اس زمانے میں ہوتا یہ تھا کہ تین پرچوں کے انٹرنل ممتحن پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ سے اور تین گورنمنٹ کالج سے ہوتے۔ دونوں شعبوں کے اساتذہ اپنے طالب علموں کو گیس دیتے اور ساتھ تلقین کرتے کہ ادھر والوں کو نہیں بتانا۔ لیکن دونوں طرف کے طالب علم ان کا باہمی تبادلہ کر لیتے تھے۔ پہلا پرچہ نفسیات کا تھا۔ اس کے ممتحن پنجاب یونیورسٹی سے تھے جن کا دیا ہوا گیس ہمارے پاس بھی پہنچ چکا تھا۔ خیر جب پرچہ سوالات سامنے آیا، اس کو دو تین بار پڑھا لیکن گیس میں بتایا گیا کوئی سوال نظر نہیں آ رہا تھا۔ میرے ساتھی نے پوچھا کیا کرنا ہے۔ اچھا یونین بازی میں حصہ لینے کے باوجود یہ خیال میرے ذہن میں کبھی نہیں آیا تھا کہ امتحان کا بائیکاٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔ میں نے اسے کہا خاموشی سے پرچہ حل کرو، باقیوں کو ہم سے زیادہ آتا ہے۔

اسی اثنا میں چودھری محمد یعقوب صاحب، جو ان دنوں پنجاب یونیورسٹی کے ایکٹنگ کنٹرولر امتحانات تھے، بخاری آڈیٹوریم میں دورے پر آ گئے۔ مجھے دیکھ کر میرے پاس آئے اور پوچھا کیا پرچہ آوٹ آف کورس ہے؟ میں نے دل میں سوچا میری بلا جانے کورس کیا ہے۔ سکستھ ایر کا سارا سال یونین کی نذر ہو گیا تھا، پورا سال کوئی کلاس نہیں پڑھی تھی۔ جواب دیا مجھے نہیں پتہ ۔ کہنے لگے لڑکیوں کے سنٹر میں گورے رنگ کی ایک لڑکی ہے جو سٹیمر کرتی ہے، وہ بہت شور مچا رہی ہے۔ میں نے کہا وہ سٹیمر تو نہیں کرتی لیکن پیپر دیکھ کر کرنا شروع کر دیا ہو گا۔ بہرحال جیسے تیسے کرکے پانچ سوالات کے جواب لکھے۔ پرچہ حوالے کرکے ہال سے باہر نکلے تو پتہ چلا کہ لڑکیوں نے واک آوٹ کر دیا ہے۔ پروفیسر شاہد حسین صاحب اپنے آفس میں سخت پریشان بیٹھے تھے کہ اب کیا ہو گا۔ اتنے میں خبر ملی کہ پنجاب یونیورسٹی میں بھی واک آؤٹ ہو گیا ہے۔ اس پر کچھ تسلی ہوئی کہ اب اس مسئلے کا کوئی حل نکل آئے گا۔

ایک دو روز بعد میں پروفیسر خواجہ غلام صادق صاحب کے گھر گیا تو وہاں جاوید ہاشمی بھی بیٹھا ہوا تھا۔ ہاشمی ہم سے ایک سال سینیر تھا لیکن امتحان ہمارے ساتھ دے رہا تھا۔ وہ پیٹ رہا تھا کہ میں پرچہ حل کرنا چاہتا تھا لیکن مجھ سے زبردستی شیٹ چھین لی گئی۔

 اس پرچے کے ایکسٹرنل ممتحن استاذ الاساتذہ پروفیسر قاضی محمد اسلم تھے۔ جب بورڈ کی میٹنگ ہوئی تو قاضی صاحب ڈٹ گئے۔ انھوں نے خواجہ صاحب سے کہا کہ وہ بتائیں کونسا سوال خارج از نصاب ہے۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ کوئی سوال نصاب سے باہر نہیں تو بورڈ نے فیصلہ کیا کہ پرچہ دوبارہ نہیں لیا جائے گا۔ اس فیصلے کے سبب بہت سے اچھے طلبہ و طالبات فرسٹ ڈویژن سے محروم رہ گئے۔ اس سال صرف دو سٹوڈنٹس فرسٹ ڈویژن لینے میں کامیاب ہو سکے جن میں ایک یہ خاکسار تھا۔ لطف کی بات یہ ہے اس پرچے میں میرے نمبر باقی سب پرچوں سے زیادہ تھے۔

پرچہ دوبارہ نہ لینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئندہ دو دہائیوں تک فلسفے کے سٹوڈنٹس نے کبھی کسی امتحان میں واک آؤٹ نہیں کیا تھا۔ کوئی بیس برس بعد یہ واقعہ دوبارہ پیش آیا۔ میں ایک روز صبح جب شعبے میں پہنچا تو ڈاکٹر ابصار احمد صاحب نے مجھے بلایا۔ ان کے کمرے میں کچھ سٹوڈنٹس موجود تھے۔ پتہ یہ چلا کل ہونے والے پرچے میں واک آؤٹ ہو گیا ہے۔ وہ پرچہ ابصار صاحب پڑھاتے تھے اور وہ اس صورت حال پر کافی پریشان تھے۔ سٹوڈنٹس نے کہا اب کیا ہو گا؟ میں نے جواب دیا ہونا کیا ہے، آپ لوگ جا کر سپلیمینٹری امتحان کی تیاری کریں۔ سٹوڈنٹس نے کہا “وہ” کہتے ہیں پیپر دوبارہ ہو جائے گا۔ یہاں “وہ” سے مراد جمعیت والے تھے۔ میں نے کہا بھول جائیں، پیپر دوبارہ نہیں ہو گا۔ میرا جواب سن کر وہ صدر شعبہ کے پاس چلے گئے۔ ڈاکٹر عبد الخالق صاحب نے ان کی بات سن کر کہا آپ لوگ ایک درخواست لکھ دیں، ہم بورڈ آف سٹڈیز کے سامنے رکھ دیں گے۔ خیر جب وہ درخواست بورڈ کی میٹنگ میں پیش ہوئی تو سب نے بالاتفاق اسے رد کر دیا اور پرچہ دوبارہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کی وجہ سے فلسفے کے امتحانات میں پھر کبھی کوئی واک آؤٹ نہیں ہوا تھا۔ میں پنجاب یونیورسٹی کے دیگر شعبوں کے سربراہوں کو فلسفہ کی مثال دے کر کہا کرتا تھا کہ آپ پرچہ دوبارہ لینا بند کر دیں تو واک آؤٹ کے مسئلے سے مستقل نجات مل جائے گی۔

ایک واقعہ امتحانی بدعنوانی کا بھی یاد آ رہا ہے۔ لگ بھگ پینتیس برس پرانی بات ہے۔ ان دنوں پنجاب یونیورسٹی میں سالانہ امتحانات کا رواج تھا۔ ایم اے میں ہر پرچے میں ایک انٹرنل اور ایک ایکسٹرنل ممتحن ہوتا تھا۔ میں ان دنوں مسلم فلسفہ کا پرچہ پڑھا تا تھا۔ میں بالعموم ایکسٹرنل ممتحن کی مارکنگ سے اختلاف نہیں کیا کرتا تھا۔ جوابی کاپیوں پر اصل رول نمبر تبدیل کیے ہوتے تھے۔ میں سٹوڈنٹس کو پرچے دکھا دیتا تھا کہ اپنا اپنا پرچہ پہچان کر اپنے نمبر دیکھ لیں، لیکن ان پر کوئی گفتگو نہیں ہو گی۔ اس برس ایسا ہوا کہ جب میں نے جوابی کاپیاں چیک کیں تو مجھے شبہ ہوا کہ ایکسٹرنل ممتحن نے شاید خود مارکنگ نہیں کی کیونکہ مختلف رنگوں کی پنسلیں استعمال کی ہوئی تھیں۔ ایک سوال کا جواب سبھی نے غلط لکھا ہوا تھا لیکن کچھ کو نمبر دیے ہوئے تھے اور کچھ کو کوئی نمبر نہیں ملا تھا۔ چنانچہ مجھے اپنی مارکنگ کرنا پڑی اور بہت سے پرچوں میں نمبر کم کرنا پڑے۔ اس وجہ سے میں نے سٹوڈنٹس کو پرچے نہ دکھائے لیکن ان سے پوچھا کہ ایک شیٹ ایسی ہے جس پر صرف امتحانی پرچہ نقل کیا ہوا ہے۔ وہ پرچہ کس کا ہے؟ سبھی نے ایک طالب علم کا نام لیا کہ اس کا ہے۔ جب رزلٹ آیا تو وہ طالب علم پورے دو سو نمبر لے کر پاس تھا۔ مجھے حیرت ہوئی، سٹوڈنٹس بھی شکوہ کناں تھے کہ یہ کس طرح پاس ہو گیا ہے۔

میں نے اپنے صدر شعبہ، ڈاکٹر عبد الخالق صاحب سے بات کی۔ وہ بہت ہی شریف النفس انسان ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا ایسا کس طرح ہو سکتا ہے۔ آپ ان طالب علموں میں کی باتوں میں نہ آئیں، یہ ایسے ہی الٹی سیدھی ہانکتے رہتے ہیں۔ خیر کچھ دن بعد رزلٹ کارڈ آئے تو میں نے وہ سب خود چیک کیے۔ اب میرے پرچے میں کوئی بھی فیل نہیں تھا۔ میں نے پھر ڈاکٹر صاحب سے ذکر کیا کہ وہ نہیں تو کسی اور کو فیل ہونا چاہیے تھا لیکن انھیں میری بات کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس کے بعد اس طالب علم نے اپنے پاس ہونے کی خوشی میں تمام شعبے کو پارٹی دینے کا اعلان کر دیا۔ اب مجھے لگا کہ اس کا ارادہ ہماری تذلیل کرنے کا ہے۔ سٹوڈنٹس سوچ سکتے تھے کہ اساتذہ نے کوئی حرکت کی ہے۔

ان دنوں شعبہ امتحانات اولڈ کیمپس میں ہوا کرتا تھا۔ ایک روز میں نے ڈاکٹر عبد الخالق صاحب کو کہا کہ آپ میرے ساتھ شعبہ امتحانات چلیں۔ ہم دونوں وہاں گئے اور سیکریسی برانچ میں جا کر پرچہ نکلوایا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں پرچہ ہی نہ تبدیل کر دیا گیا ہو۔ لیکن وہ پرچہ بالکل خالی تھا اور اس پر صفر نمبر لگا ہوا تھا۔ اس کے بعد ہم رزلٹ سیکشن میں گئے۔ کلرک سے کہا رزلٹ شیٹ نکالو۔ اس پر دیکھا تو 42 نمبر لگے ہوئے تھے۔ میں نے کہا اس پرچے کی ایوارڈ لسٹ لاؤ۔ اس پر صفر نمبر تھا۔ اس پر میں نے کہا پہلے پرچے کی ایوارڈ لسٹ لاؤ۔ وہاں بھی وہی صورت حال تھی کہ ایوارڈ لسٹ پر صفر اور شیٹ پر نمبر لگے ہوئے تھے۔ اب میرا پارا چڑھنا شروع ہو گیا۔ میں نے کہا سبھی پرچوں کی ایوارڈ لسٹ لے کر آؤ۔ یہ سنتے ہی اس نے میرے گھٹنے پکڑ لیے کہ سر معاف کر دیں، مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔ میں نے کہا او بے شرم انسان! یہ کل پچاس ساٹھ پرچے ہیں، تم ان میں ہماری آنکھوں میں مٹی ڈال رہے ہو، جہاں ہزاروں پرچے ہوتے ہیں وہاں تم کیا کرتے ہو گے۔ اس کے بعد جب میں نے امتحانی حاضری چیک کی تو پتہ چلا تو تین پرچوں میں موصوف ویسے ہی غیر حاضر تھے۔ چنانچہ اس کا پہلا رزلٹ نوٹیفکیشن کینسل کروا کر نیا نوٹیفکیشن جاری کروایا۔ اس کے بعد آئندہ کئی برسوں تک ہمارا یہ معمول رہا کہ امتحانی بورڈ کی میٹنگ میں ایوارڈ لسٹیں منگا کر خود چیک کرتے تھے کہ نمبر ٹھیک پوسٹ کیے گئے ہیں۔ اس ذرا سی محنت سے ہم نے رزلٹ میں ہیراپھیری کا دروازہ سختی سے بند کر دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).