کہانی بے ذائقہ چاولوں کی


کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ کسی چیز کی اچانک قلت ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وقتی طور پر مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ یہ مشکل اچانک اور ایسے وقت میں پیش آتی ہے کہ انسان یہ سوچنے سے قاصر رہتا ہے کہ اب اس پر قابو پانے کی کیا تدبیر کی جائے۔ اگر شہر میں رات کو کوئی کھانے کی چیز ختم ہو جائے تو کمرے یا گھر سے باہر نکل کر میسر ہو جاتی ہے لیکن دور دراز کے دیہات میں یہ مشکل پیش آ جائے تو پریشانی ہوتی ہے اور زیادہ تر یہی امکان ہوتا ہے کہ رات بنا کچھ کھائے ہی گزارنی پڑے گی۔

صبر و قناعت کے سوا چارہ بھی نہیں ہوتا۔ جب فاقے کی نوبت آتی ہے تو بھلے مانس خدا کا نام لے کر پانی کے دو گھونٹ پی کر سو جایا کرتے ہیں۔ ہاں اگر پاس میں ہی کسی دوست کا گھر یا کمرہ ہے ، جہاں کھانے پینے کی چیزیں وافر مقدار میں ہیں اور وہ دوست اکیلے پن کی وجہ سے آپ کے ساتھ ہی رہتا ہے تو پریشانی کا حل نکل آتا ہے۔

ایک دن آٹھ ساڑھے آٹھ کے قریب کچھ بھوک جیسی کیفیت ہم پر طاری ہوئی تو ہم مصمم ارادہ کر کے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ذہن میں یہی تھا کہ حسب معمول ہم چاول پکائیں گے اور وہ کھانے کے بعد گھوڑے بیچ کر سو جائیں گے لیکن جوں ہی ہم کچن شریف میں تشریف لے گئے تو پتا چلا کہ چاول ختم ہوئے ہیں۔ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اب کیا کیا جائے۔ ذہن میں مختلف تدبیروں اور مختلف خیالوں نے گردش شروع کر دی ۔

آخر کار یہ تدبیر سوجھی کہ آٹھ دس دن سے جو مہمان دوست ساتھ رہ رہا ہے ، اسی کو یہ تکلیف دی جائے کہ وہ قریب ہی اپنے کمرے میں جا کر مشکل کشائی کرے۔ مناسب بھی یہی جانا اور دوست کے قریب ہو کر عرض کی کہ جہاں پناہ اپنے دولت خانے پہ جا کر ایک دو کلو چاول لے کر آئیں۔ اس کا جواب سن کر ہوش اڑ گئے۔ کہنے لگے کہ میاں وہ چاول بے ذائقہ ہیں۔

چاول یا تو برف کی طرح سفید ہو سکتے ہیں یا خون کی طرح سرخ۔ پکانے کے بعد اگر خراب ہو جائیں تو ہو سکتا ہے کہ بے ذائقہ نکلیں۔ بنا پکائے اور بنا کھائے کوئی چاولوں کو بے ذائقہ گردانے تو یقیناً کوئی راز ہی ہے جو گھر کے بھیدی کو ہی پتا ہو گا۔ ہم نے تسبم ہونٹوں پر پھیلا کر کہا کہ جیسے بھی ہیں لے کر آؤ۔ اس نے لمبی سانس کھینچ کر لمبی ہاں میں جواب دیا کہ ابھی لاتا ہوں لیکن وہ یہ مسلسل کہہ رہا تھا کہ چاول بے ذائقہ ہیں۔

ہم بھی ڈھیٹ نکلے اور بے چارے کو ایذا دی کہ جیسے بھی ہیں لے آؤ۔ وہ بادل نخواستہ اٹھا اور اپنے کمرے کا رخ کیا جو کچھ ہی دوری پر تھا، جہاں یہ بے ذائقہ اور لذت سے عاری چاول پڑے تھے۔ وہ چاول لانے گیا مگر دیر تک واپس نہیں آیا حالانکہ زیادہ دور بھی نہیں جانا ہے۔ ان خدشات اور وسوسوں کے بیچ رات کے شباب پر آنے سے قبل وہ واپس آیا مگر خالی ہاتھ۔

میرے ماتھے پر شکن آئی اور تیوری چڑھا کر میں نے سوال کر ہی دیا کہ میاں چاول کہاں ہے؟ وہ تھوڑا ہڑبڑایا اور پھر خود کو درست حالت میں لا کر بولاـ ’میں لانا بھول گیا۔‘ میں نے بھی پیچھا نہ چھوڑا۔ اگر بھول گئے تو آج پھر ہم سب کو کھانا بھولنا پڑے گا۔ اگر فاقہ نہیں کرنا ہے تو جلدی سے واپس جاؤ اور چاول کے بنا واپس مت آنا۔ بادل نخواستہ وہ پھر سے اٹھا اور واپس چلا گیا اور دو منٹ کے وقفے کے بعد ان چاولوں کے ہمیں درشن کرائے جو بقول اس کے بے ذائقہ تھے۔

طے یہ ہوا کہ چلو جو بھی ہو ، آج بے ذائقہ چاول پکانے کے بعد چکھ کر بھی دیکھ لیتے ہیں کہ آخر یہ ذائقے دار چاول کے جیسے ہونے کے باوجود اتنے ایسے کیوں ہیں کہ بے ذائقہ نکل آتے ہیں اور چاولوں کے نام پر دھبہ لگاتے ہیں۔ کھانا پکانے کی کوفت سے نجات ملی لیکن یہ ڈر اور کھٹکا ضرور تھا کہ اب بے ذائقہ چاول کھانے پڑیں گے۔ کھانا پروسنے کے بعد عام دنوں کی طرح یہ چاول بھی ویسے ہی مزے دار تھے جیسے روز ہوا کرتے تھے۔ اب ہم سارا معاملہ سمجھ گئے گویا بندے نے ان ذائقہ دار چاولوں کو بے ذائقہ اس لیے کیا تاکہ وہاں سے لانے نہ پڑیں۔

انکار کرنے کی سو صورتیں ہوتی ہیں اور کوئی چیز نہ دینے کے لیے سو بہانے بنائے جا سکتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو کوئی چیز نہ دینی ہو تو صاف انکار کیا جا سکتا ہے کہ بھائی میں معذرت خواہ ہوں ، میں یہ نہیں دے سکتا۔ بہانے بنانے، حیلے تراشنے اور جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم ذائقہ دار چیزوں کو تہمت لگا کر بے ذائقہ صرف اس لیے کہہ دیں کہ کہیں دوسروں کو نہ دینی پڑ جائیں۔ جو شخص سادگی سے زندگی بسر کر رہا ہو، دوسروں پر بھروسا اور یقین کرتا ہو ، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ بے وقوف ہے۔ اگر وہ اندھا بھروسا کر رہا ہے تو اس کے بھروسے کی لاج رکھنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).