وزیراعظم ہاؤس کا لان اور سازشوں کا دھواں


ریاستی و حکومتی امور سے واقفیت رکھنے والے حلقے بخوبی آگاہ ہیں کہ ریاست کے آئینی حکمران یعنی وزیراعظم اور اس کے ماتحت اداروں کے سربراہان کے مابین ملاقاتوں کا ایک پروٹوکول اور آئینی طریقہ کار موجود ہے جس کی پابندی پچھلے تہتر سالوں میں فریقین کرتے رہے ہیں ۔

یہ ملاقاتیں اور گفت و شنید دفاتر میں ہوتی ہیں جن میں نہ صرف نوٹ ٹیکر یعنی ان ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کے نکات تحریری و دستاویزی شکل میں لکھنے والے بلکہ ان کے معاونین بھی موجود ہوتے ہیں تاکہ ادارہ جاتی اور محکمہ جاتی فیڈ بیک مختلف معاملات پر لیا جا سکے اور اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک و ریاست کو درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔ ایسے فیصلے کیے جا سکیں جو ملکی مفاد میں ہوں نہ کہ کسی ایک شخص یا چند اشخاص کی محدود عقل و دانش کو کلیشے سمجھا جائے اور اس کے مطابق ملک و ریاست کے معاملات کو چلانے کی کوشش کی جائے۔ ہمیشہ وہی ممالک ، ریاستیں و معاشرے اپنے مفادات کے تحفظ کے قابل رہتے ہیں اور ترقی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں جہاں اجتماعی دانش کو بروئیےکار لایا جاتا ہے۔

ہونا یہ چاہیے کہ جن موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جائے، جو بھی پالیسی وضع کی جائے وہ تحریری شکل میں ہو تاکہ کسی قسم کے ابہام کا امکان نہ رہے ، اس پالیسی پر عمل درآمد کیا جا سکے اور فریقین میں سے کوئی بھی بعد ازاں کسی معاملہ میں موقف تبدیل نہ کر سکے اور اپنی چین آف کمانڈ کو واضح ہدایات دے سکے۔

یہ سب کچھ تاریخ میں رقم ہو جانا چاہئے جس سے صحافتی حلقے بھی استفادہ کر سکیں اور عوام تک بھی حقائق پہنچ سکیں مگر موجودہ کٹھ پتلی نظام میں اس طریقہ کار کو یکسر فراموش کر دیا گیا ہے اور یہ کسی غلطی یا کوتاہی کا نتیجہ نہیں بلکہ دانستہ کیا جا رہا ہے تاکہ سازشوں کا راز صرف چوٹی کے حلقے تک محدود رہے اور ان کی بھنک اپوزیشن یا عوام یا عالمی و مقامی میڈیا تک نہ پہنچ سکے۔

ایسا کرتے ہوئے یہ فریقین یہ بھول گئے ہیں کہ وہ نہ صرف آئینی و قانونی طریقہ کار کو پامال کر رہے ہیں بلکہ مزید شکوک و شبہات کو جنم دے رہے ہیں اور ان الزامات و خدشات کی تصدیق کر رہے ہیں جو موجودہ نظام پر اپوزیشن، عوام اور غیر جانبدار حلقے لگاتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی ساکھ کو مزید مجروح کر رہے ہیں۔ ہوس اقتدار اور اسے قائم رکھنے کی تگ و دو میں یہ فریقین اپنے ہی قائم کردہ کٹھ پتلی نظام پر خود کش حملہ کر رہے ہیں۔

ابھی بھی وقت ہے کہ یہ فریقین ہوش کے ناخن لیں اور دانشمندی سے کام لیتے ہوئے کوئی بھی قدم اٹھانے سے قبل اس کے مضمرات پر غور و فکر کر لیا کریں تو شاید مزید رسوائی کے چھینٹے ان کے دامن کو داغدار نہ کر سکیں۔ مگر یہ امکان یہی ہے کہ یہ اپنا مکروہ کھیل اسی طرح کھیلتے رہیں گے کیونکہ شرمندگی و ندامت کے الفاظ ان کی لغت میں نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).