کشمیر پالیسی میں تبدیلی یا وزیر اعظم کی بدحواسی؟


یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر کوٹلی میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریر سے کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کو شدید گزند پہنچے گی۔ عمران خان شاید دنیا کے پہلے قومی لیڈر ہوں گے جنہوں نے ایک متفقہ قومی پالیسی میں ’تبدیلی‘ کا اعلان کرنے کے لئے ایک جلسہ عام میں جوشیلی تقریر کرنا ضروری سمجھا ہے۔ عام طور سے اس قسم کا فیصلہ حکومتی یا پارلیمانی کمیٹیوں میں سنجیدہ مشاورت کے بعد کیا جاتا ہے۔

وزیر اعظم نے کوٹلی کے جلسہ میں کشمیری عوام سے یکجہتی کا اظہار کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی قرارداروں، بھارتی حکومت کے استبداد، مودی حکومت کی طرف سے مذاکرات کی بجائے تشدد اور تصادم کا راستہ اختیار کرنے کی حکمت عملی سمیت کشمیری عوام کے عزم اور جد وجہد کا ذکر کیا۔ تاہم اس تقریر کا اہم ترین نکتہ یہ اعلان تھا کہ ’میں کشمیر کے لوگوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انشااللہ جب آپ کو آپ کا حق ملے گا۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر، جب آپ اپنی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔آپ کشمیر کے لوگ جب انشااللہ پاکستان کے حق میں فیصلہ کریں گے، اس کے بعد پاکستان کشمیر کے لوگوں کو وہ حق دے گا، ان کو وہ رائٹ دے گا کہ آپ آزاد رہنا چاہتے ہیں یا آپ پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں، یہ آپ کا حق ہو گا‘۔

قیاسات پر مبنی اس بیان کی دیگر کمزوریوں کے علاوہ وزیر اعظم نے دہائیوں سے کشمیر کے سوال پر اختیار کئے گئے پاکستانی مؤقف سے گریز کا اعلان کیا ہے۔ پہلی مرتبہ حکومت کا کوئی سربراہ یہ اعلان کر رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لئے خود مختار کشمیر کا آپشن قبول کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت یکساں طور سے اس آپشن کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ بھارت نے 1948 میں کشمیر میں ریفرنڈم کروانے کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو تسلیم کیا تھا اور کچھ عرصہ تک مناسب ماحول میں رائے شماری کے آپشن پر آمادگی ظاہر کی جاتی رہی تھی۔ لیکن اب نئی دہلی کا دوٹوک مؤقف یہ ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ حکمران بھارتی جنتا پارٹی کے ترجمان تو پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کو بھی بھارت کا حصہ بنانے کی بات کرنے لگے ہیں۔ اس حوالے سے متعدد بار حکومتی عہدوں پر فائز لوگوں کی طرف سے طاقت کے زور پر آزاد کشمیر کو پاکستان سے چھین لینے کی بات بھی کی جاتی رہی ہے۔

اس کے برعکس پاکستان نے ہمیشہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ 1948 میں سلامتی کونسل میں منظور کی گئی ان قراردادوں کے تحت پاکستانی اور بھارتی فوجوں کو تمام کشمیری علاقوں سے واپس بلایا جائے گا جس کے بعد کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے رائے شماری کا حق دیا جائے گا تاکہ کشمیری خود یہ فیصلہ کرسکیں کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان ہمیشہ یہ سمجھتا رہا ہے کہ کشمیر میں چونکہ مسلمان اکثریت میں آباد ہیں، اس لئے وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے لیکن نہ تو سلامتی کونسل کی قراردادوں میں اور نہ ہی اس کے بعد پاکستان کے مؤقف میں کشمیر کے معاملہ کو مذہبی بنیاد پر حل کرنے کی بات کی گئی تھی۔ لیکن سابق فوجی حکمران جنرل ضیا کے دور میں مقبوضہ کشمیر میں اسلامی جہادی گروہوں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور مسئلہ کشمیر کو مسلمان شناخت دینے کی کوششیں شروع کی گئیں۔ یہ عنصر اب پاکستان کی کشمیر پالیسی میں بنیادی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔

پاکستان جب کشمیر کے سوال پر بھارت سے مذاکرات کی بات کرتا ہے تو خارجہ پالیسی کے نقطہ نظر سے دراصل وہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایسے حالات پیدا کرنے کے لئے لائحہ عمل کی بات کر رہا ہوتا ہے جن میں کشمیریوں کو ریفرنڈم میں پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ مستقل الحاق کرنے کا حق دیا جائے۔ عملی طور سے دیکھا جائے تو مذاکرات میں بنیادی طور پر اس بات پر اتفاق کرنا مقصود ہوگا کہ کشمیری علاقوں سے پاکستانی اور بھارتی فوجوں کے انخلا کا کیا طریقہ کار ہو۔ فریقین جانتے ہیں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کئے بغیر اپنے زیر انتظام علاقے سے فوج نکالنا کسی بھی ملک کو قبول نہیں ہوگا۔ اس لئے مذاکرات کا شور مچا کر حل تلاش کرنے کی بات کی جاتی ہے۔

پاکستان نے کبھی کشمیر کو خود مختار ملک کے طور پر قبول کرنے کا اصول تسلیم نہیں کیا۔ خود مختار کشمیر کی جد و جہد کرنے والے لبریشن فرنٹ کے ساتھ پاکستانی حکومت کا رویہ ہمیشہ سخت گیر رہا ہے اور پاکستان نواز عناصر نے مقبوضہ کشمیر میں بھی لبریشن فرنٹ کی مخالفت میں ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اگرچہ گزشتہ دو دہائیوں سے سفارتی طور سے درپردہ یہ اشارے ضرور دیے جاتے رہے ہیں کہ کشمیری عوام کی خواہش ہوگی تو پاکستان خود مختار کشمیر کے آپشن پر بھی غور کرسکتا ہے۔ اس مؤقف کو کبھی خارجہ پالیسی کے مسلمہ اصول کے طور پر پیش نہیں کیا گیا۔ البتہ سابق فوجی حکمران پرویز مشرف جب 2001 میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری باجپائی کے ساتھ آگرہ مذاکرات کے لئے گئے تو انہوں نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے جو فارمولا پیش کیا تھا ، اس میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دونوں ملکوں کےدرمیان معاملات طے کرنے کی بات کی گئی تھی۔ یہ سربراہی کانفرنس بھارتی وفد میں اختلاف کی وجہ سے کسی باقاعدہ اعلامیہ یا معاہدے کے بغیر ختم ہو گئی تھی۔

مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مشرف فارمولا سے معروف یہ حل چار نکات پر مشتمل ہے۔ اول: لائن آف کنٹرول کو قائم رکھتے ہوئے دونوں طرف آباد کشمیریوں کو میل جول اور سفر کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ دوئم: کشمیریوں کو مکمل آزادی کی بجائے علاقائی خود مختاری دی جائے۔ سوئم: تمام کشمیری علاقے سے بتدریج فوجیں واپس بلائی جائیں۔ فوجوں کی مرحلہ وار واپسی کے بعد کشمیر کو غیر فوجی زون میں تبدیل کردیا جائے۔ چہارم : باہم رضامندی سے کشمیر کے معاملہ کو حل کرنے کے لئے روڈ میپ تیار کیا جائے۔ اس فارمولا میں بھی خود مختار کشمیر کی بات نہیں کی گئی تھی بلکہ پاکستان کی طرف سے یہ پیش کش کی گئی تھی کہ اگر بھارت اس کے ساتھ معاملات طے کرلیتا ہے تو وہ کشمیر میں ریفرنڈم کے مطالبہ سے دست بردار ہوجائے گا۔ اصولی طور پر پاکستان نے لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد ماننے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ متعدد مبصر اب بھی اسی اصول کو مسئلہ کشمیر کا مستقل اور قابل عمل حل قرار دیتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے پہلی بار ’خود مختار کشمیر‘ کو ایک ممکنہ حل کے طور پر پیش کیا ہے۔ لیکن اس تقریر سے یہ واضح نہیں ہوسکا کہ کیا حکومت پاکستان نے اب کشمیر کے سوال پر اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے نیا مؤقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر پاکستان کے ارباب اختیار نے اس معاملہ میں کوئی حتمی رائے قائم کر بھی لی ہو تو بھی سفارتی مہارت کا تقاضہ تو یہی ہونا چاہئے کہ اسے ممکنہ مذاکرات یا کسی ثالثی کی صورت میں بارگیننگ پوزیشن کے طور پر محفوظ رکھا جاتا۔ کجا ایک جلسہ عام میں اس کا اعلان کر کے پاکستان کے ایک ٹھوس مؤقف کو کمزور کرنے کا تاثر دیا گیا ہے۔

وزیر اعظم نے بظاہر تو یہ کہا ہے کہ جب کشمیری پاکستان کے ساتھ ملنے کا فیصلہ کرلیں گے تو پاکستان انہیں یہ حق دے گا کہ وہ خود مختار مملکت قائم کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں۔ لیکن اگر کشمیری خود مختار ریاست کے خواہاں ہیں تووہ پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں کیوں رائے دیں گے۔ یعنی عمران خان کشمیریوں کو کان سیدھا پکڑنے کی بجائے گھما کر پکڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ کہ پہلے وہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ مل جائیں پھر پاکستان انہیں آزاد ہوجانے کا ’حق‘ دے دے گا۔ حالانکہ دنیا بھر میں یہ بات مسلمہ ہے کہ کوئی بھی ملک اپنے کسی علاقے کو آسانی سے علیحدہ یا خود مختار ہونے کی آزادی نہیں دیتا۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی خونی داستان اس حوالے سے ایک زندہ مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔

عمران خان کی تجویز کے ایک کمزور پہلو کی طرف تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے اشارہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ’ کشمیریوں سے یہ کہنا کہ آپ آزادی لیں، پاکستان کے لیے زیادہ خطرناک ہوگا‘۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو یہ بیان دینے سے پہلے سوچنا چاہئے تھا کیوں کہ بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر کو یہ آپشن کبھی نہیں دے گا۔ ’پاکستان اگر یہ حق آزاد کشمیر کے لوگوں کو دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اپنے حصے کا کشمیر بھی اپنے ہاتھوں سے دے دیا جائے‘۔ وزیر اعظم کے بیان سے نئی دہلی حکومت یہ نتیجہ بھی اخذ کر سکتی ہے کہ آزاد کشمیر کے بارے میں اس کا مؤقف درست ہے اور اس علاقے کو اس کے حوالے کیا جائے۔

کشمیر کی حیثیت کے تعین سے قطع نظر وزیر اعظم کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جبکہ اپوزیشن عمران خان پر ’کشمیر فروخت کرنے‘ کا الزام عائد کر رہی ہے۔ مظفر آباد میں پی ڈی ایم کے جلسے میں ان الزامات کو دہرایا گیا ہے۔ اپوزیشن لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ نریندر مودی پاکستان میں کمزور حکومت کی وجہ سے  مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے مقصد میں کامیاب ہوئے تھے۔ اب عمران خان کی طرف سے خود مختار کشمیر کی بات پر ملک میں سیاسی الزام تراشی کا ایک نیا سلسلہ شروع   گا۔

پاکستان کو مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے اصول کی بات ضرور کرنی چاہئے لیکن بہتر ہوگا کہ اس سوال پر پہلے رائے عامہ ہموار کی جائے اور یہ بات طے کروالی جائے کہ پاکستان اس مسئلہ سے نکلنے کے لئے آخر کس حد تک جانے پر تیار ہے۔ ایک پیچیدہ اور نازک مسئلہ پر عوامی ریلی میں سوچے سمجھے بغیرتقریریں کرنے سے نہ حکومت کی صد ق دلی ثابت ہوگی اور نہ ہی کشمیر کا مسئلہ حل ہوسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali