چھاتی کے کینسر کے بارے میں آگاہی کی ضرورت


کل دنیا میں کینسر سے آگاہی کا عالمی دن منایا گیا۔ پاکستان میں چھاتی کے کینسر کی شرح بہت زیادہ ہے۔ 2020 میں سامنے آنے والے کیسز میں چھاتی کے کیسز کی شرح 14.5 فیصد ہے یعنی 17 لاکھ کینسر کے مریضوں میں سے 26 ہزار کیسز چھاتی کے کینسر کے ہیں۔

چھاتی کے کینسر کے کئی اسباب ہیں لیکن ہارمون کی غیر متوازن پیدائش، کاربوہائیڈریٹس کا زیادہ استعمال اور پلاسٹک کے ذروں کا خوراک میں شامل ہو کر جسم میں داخل ہو جانا بڑے اسباب ہیں۔ تحقیق کے مطابق ان عورتوں میں چھاتی کے کینسر کا امکان بڑھ جاتا ہے جو بچوں کو دودھ نہیں پلاتیں۔

اگر مرض کی ابتدا میں تشخیص ہو جائے تو کامیاب اور مکمل علاج کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان نے ایک موبائل ایپ بھی لانچ کی ہے جو عورتوں کو تشخیص اور اپنے معائنہ سے متعلق معلومات مہیا کرتی ہے۔

ماہرین کے مطابق بیس سال سے بڑی عورتوں کو زیادہ سے زیادہ ماہانہ بنیادوں پر اپنی چھاتی کا بتائے گئے طریقے کے مطابق معائنہ کرنا چاہیے۔ اگر کوئی گلٹی یا سختی معلوم ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنی چاہیے۔ اکثر خواتین جسم میں تبدیلیوں کو نظر انداز کرتی ہیں لیکن جب مرض شدت پکڑتا ہے تو ہسپتال کا رخ کرتی ہیں۔

میمو گرافی ایک ایکسرے ٹیسٹ ہے جس سے چھاتی میں موجود گلٹیوں کا پتہ چل جاتا ہے۔ وہ خواتین جن کی عمر چالیس سال سے زیادہ ہے ، انہیں سال میں ایک دفعہ میموگرافی ضرور کروانی چاہیے۔ اس کے علاوہ جو خواتین چھاتی کے کینسر کا سامنا کر چکی ہیں ، ان کی بیٹیوں کو بھی میموگرافی ٹیسٹ کروانا چاہیے۔

امراض سرطان کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مریض کی غفلت، پریشانی، جلد بازی اور سرجن کے فیصلے سے کینسر کا مرض ناقابل علاج ہو سکتا ہے۔ بعض دفعہ گلٹیوں کی جانچ کیے بغیر مقامی سرجن مریض سرجری کر دیتے ہیں جس سے کینسر جسم کے دیگر حصوں میں پھیل جاتا ہے یا دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے۔

خواتین کو اس حوالے سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مستقل بنیادوں پر اپنا معائنہ کرتی رہیں اور کسی تبدیلی کی صورت میں بروقت ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ آگاہی کا کام ہر خاندان کے ذمہ ہے۔ اگر مرد و عورت اس حوالے سے ذمہ داری نبھائیں گے تو چھاتی کے سرطان پر قابو پایا جاتا سکتا ہے اور مرض بگڑنے سے پہلے مناسب علاج کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).